انسان ایسا بہت کچھ سوچتا ہے جو کہہ نہیں پاتا۔ وہ اِس خوف سے خاموش رہتا ہے کہ کسی کو بُرا لگ جائے گا یا کوئی اختلافِ رائے میں شدت اختیار کرتے ہوئے مشتعل ہوجائے گا۔ یہی سبب ہے کہ کچھ لوگ خودکلامی کا سہارا لیتے ہیں۔
خودکلامی کرنے والوں کو معاشرہ مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے۔ بہت سے لوگ خودکلامی کرنے والوں کو دھڑلّے سے ’’نفسیاتی‘‘ قرار دیتے ہیں۔
کیا خودکلامی کوئی ذہنی مرض ہے؟ ماہرین کہتے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خودکلامی کے ذریعے انسان اپنے خیالات میں ترتیب پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور دوسروں کے سامنے اپنا نقطۂ نظر عمدگی سے رکھنے کے قابل ہوپاتا ہے۔ ذہن میں جو کچھ اٹکا ہوا ہو وہ اگر خودکلامی کے ذریعے نکال دیا جائے تو خیالات میں روانی پیدا ہوتی ہے، اور یہ روانی انسان کو اچھا سوچنے اور اُس پر عمل کرنے کے قابل بننے میں خاطر خواہ حد تک مدد دیتی ہے۔ آپ نے کبھی فنکاروں کو ریہرسل کرتے دیکھا ہے؟ وہ بھی تو بہت حد تک خودکلامی ہی کررہے ہوتے ہیں۔ خودکلامی ذہن پر سے اچھا خاصا بوجھ اتار دیتی ہے۔ جو باتیں کوئی اور نہ سُننا چاہے وہ اپنے آپ کو سُنانے سے دل راحت پاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو لکھنے کا عمل بھی خودکلامی ہی ہے۔ فرق صرف آواز کا ہے۔
جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ خودکلامی تخلیقی جوہر کو پروان چڑھاتی ہے اور انسان زیادہ اعتماد کے ساتھ دُنیا کا سامنا کرتا ہے۔ بہت سے لوگ چھوٹی عمر ہی سے کسی نہ کسی خوف میں مبتلا ہونے کے باعث اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر بروئے کار نہیں لاپاتے۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے لوگ خودکلامی کے ذریعے اپنی شخصیت کے بند دریچے کھول سکتے ہیں۔