قائداعظمؒ کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ صادق تھے، صداقت ہی ان کی خودی تھی۔ ان کا اپنا کردار قوم میں وحدتِ کردار پیدا کرگیا۔ لوگ ان کے حکم پر مرمٹے، وطن سے بے وطن ہوئے، مہاجر بن گئے، سب کچھ لٹا کے بھی خوش بختی کا احساس رہا، ایک عظیم مقصد کے لیے جان اور آن کی پروا کیے بغیر لوگ آمادۂ سفر ہوئے۔ بات بہت دور تک نکل جاتی اگر قائد کچھ دیر اور زندہ رہتے۔ وحدت کا تصور دینے والا مر گیا اور قوم میں انتشار سا پیدا ہوگیا۔ قائد کی بے وقت رحلت نے سفر کی رفتار کم کردی، سفر کا رخ وہ نہ رہا، ان کی بنائی ہوئی صادق اکثریت، بے مقصد ہجوم میں تبدیل ہوکر رہ گئی۔ اکثریت کو صداقت آشنا کیا جائے، اس میں حق گوئی اور بے باکی پیدا کی جائے، یہ مرحلہ طے ہوجائے تو جمہوریت سے بہتر کیا ہوسکتا ہے، ورنہ وہی بات کہ بس آدھا سفر، آدھا راستہ، خدانخواستہ۔
انسان فطری طور پر انقلاب پسند ہے۔ اسے یکسانیت پسند نہیں۔ یہ ورائٹی چاہتا ہے، یہ بدلتا رہتا ہے۔ انسان لباس بدلتا ہے، لہجے بدلتا ہے، دوست بدلتا ہے، جماعتیں بدلتا ہے، پارٹیاں بدلتا ہے، ہارس ٹریڈنگ کرتا ہے، محسن فراموشیاں کرتا ہے، رشتے بدلتا ہے اور مقصد بھی بدل دیتا ہے۔ اس کے پاس ہر کام کا جواز ہے۔ پرانے فیصلے کا اس کے پاس قوی جواز تھا، آج نئے فیصلوں کا جواز ہے۔ غالباً یہی انقلاب کا باعث ہے۔
آدمؑ کو بہشت میں رہنا اس لیے بھی راس نہ آیا کہ وہاں کوئی ہنگامہ نہیں تھا، کوئی انقلاب نہیں تھا، بولنے کے لیے کوئی فورم نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ترکیب سوچی، شجرِ ممنوعہ کا ذائقہ چکھ لیا، بس انقلاب آگیا، ہنگامہ بپا ہوگیا۔ اگر اخبار ہوتے تو شہ سرخیاں چھپ جاتیں۔ بہشت ان کے ہاتھ سے نکل گئی، انقلاب کامیاب ہوگیا اور زندگی ناکام۔ اللہ نے آدمؑ کے لیے شیطان کو نکال دیا اور آدمؑ نے شیطان کے لیے اللہ کے امر کو چھوڑ دیا۔ بہشت کا سفر آدھے رستے میں ہی ختم ہوگیا۔ پھر زمین کا سفر، زمین کے مقاصد، عزائم اور عمل، سب نامکمل۔ حضور اکرمؐ کی معراج کے سوا ابھی سب کچھ راستے میں ہی ہے، ابھی آدھا رستہ ہی طے ہوا ہے، ابھی تو ملتِ آدم تفریق ہوئی ہے۔ یہ سفر مکمل ہوگا وحدت ِآدم پر۔ ستاروں کی وحدت کہکشاں پیدا کرتی ہے، ننھے چراغوں کی وحدت سے چراغاں پیدا ہوتے ہیں، قطروں کی وحدت سے قلزم اور دریا کے جلوے پیدا ہوتے ہیں۔
آدھے رستے کے مسافروں کو جگایا جائے، انہیں پھر سے آمادہ کیا جائے، ان میں باہمی احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ کارواں پھر سے رواں ہوجائے۔ منزلیں انتظار کررہی ہیں اور مسافر ہیں کہ آدھے رستے میں سوئے پڑے ہیں۔
ذوقِ سفر پیدا کرنا قیادت کا فرض ہے، قائد کو چاہیے کہ وہ قوم میں بیداری کی روح پھونک دے۔ ذوقِ سفر عطائے رحمانی ہے، رحمتِ حق کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے کہ اے مہرباں اللہ، دے ہمیں کوئی حدی خواں جو زندگی پیدا کردے اس قوم میں۔ مطلب پرستی جمود پیدا کررہی ہے، وطن پرستی تحریک پیدا کرے گی۔ یہ قوم… ’’خاص ہے ترکیب میں قوم ِرسولِ ہاشمیؐ‘‘۔
(”حرف حرف حقیقت“…واصف علی واصف)