ٹیلی وژن پر ’ٹاک شو‘ ہورہا تھا۔ اس اصطلاح کا لفظی ترجمہ کیجیے تو غالباً ’باتوں کا دکھاوا‘ بنے گا۔ ویسے بھی اس قسم کے پروگراموں میں بس دکھاوے ہی کی باتیں ہوتی ہیں۔ کام کی کوئی بات تو ہوتی نہیں۔ سطحی گفتگو سننے کو ملتی ہے، بعض اوقات سطح سے نیچے کی بھی۔ چونچیں لڑائی جاتی ہیں۔ چوٹیں کی جاتی ہیں۔ باتوں باتوں میں بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔ ’بتنگڑ‘ بنتے ہی گالی گلوچ ہونے لگتی ہے۔ نوبت ہمارے ان معززین کے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوجانے، ہاتھا پائی فرمانے اور مار کُٹائی کرنے تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر ’’پروگرام تو وڑ گیا‘‘۔ انھیں پروگراموں میں ایک شرمناک واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے۔ اپنی اپنی ’ٹاک‘ ناظرین کو ’شو‘ کرتے ہوئے دو سیاسی مرد و زن ’برسرِ کیمرا‘ گتھم گتھا ہوگئے۔ شکر ہے کہ رواں نشریات فوراً روک دی گئیں۔ مگر اُنھیں کیسے چھڑایا گیا؟ یہ منظر ہم جزئیاتی تفصیل کے ساتھ دیکھنے سے محروم رہے۔
احساسِ محرومی کے ساتھ بیٹھے بیٹھے ایک دن یونہی خیال آیا کہ ’ٹاک شو‘ کی جگہ لفظ ’مذاکرہ‘ استعمال کیا جائے تو شاید صورتِ حال بدل جائے۔ ہر زبان کی اپنی تہذیب ہوتی ہے۔اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ ہر اصطلاح کے اپنے تہذیبی، ثقافتی اور نفسیاتی اثرات پڑتے ہیں۔ ہماری زبان ایک مہذب زبان ہے۔ اس میں شستگی ہے، شائستگی ہے اور حفظِ مراتب ہے۔ اِس زبان میں اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ کس سے ’آپ‘ کہہ کر مخاطب ہونا ہے، کس کو ’تم‘ کہنا ہے اور کس سے’تُو‘ کہہ کر تُوتکار کرنی ہے۔ ہماری تہذیب میں اپنے برابر والوں یا اپنے سے چھوٹوں کو ’تم‘ کہا جاتا ہے۔ بے تکلف دوستوں اور پیار بھرے رشتوں ناتوں کے لیے ’تُو‘ استعمال کیا جاتاہے۔ بصورتِ دیگر کسی کو ’تُو‘ کہہ دیا جائے تو اُس کی تحقیر ہوجاتی ہے۔ تحقیر ہوجائے تب بھی، ہماری شائستہ زبان بولنے والا جواباً تحقیر نہیںکیا کرتا۔ مرزا غالبؔ دہلوی کی طرح بڑے مہذب اور نستعلیق دہلوی انداز میں نہایت نرمی سے استفسار کرتا ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمھیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
گفتگو ہی کو مذاکرہ کہتے ہیں۔ ’مذاکرہ‘ کے لفظی معنی ہیں آپس میں کسی بات کا ’ذکر‘ کرنا۔ تذکیر اور یاددہانی کرانا۔ دو یا دو سے زائد افراد کی باہمی بات چیت۔ کسی خاص موضوع پر مختلف لوگوں کا اظہارِ خیال۔ گفت و شنید کا سلسلہ۔ ’گفت و شنید‘ کا مطلب ہے بولنا اور سننا۔ جب کہ ’ٹاک شو‘ کا مطلب ہے صرف بولے جانا۔ اپنی سنانا، دوسرے کی نہ سننا۔ ہماری زبان میں کہنے سننے پر کئی اقوال ہیں: پہلے تولو پھر بولو۔ کسی کی بات نہ کاٹو۔ اللہ نے کان دو، دو دیے ہیں، زبان صرف ایک دی ہے تاکہ سنو زیادہ، بولو کم۔ کسی کی دل آزاری نہ کرو۔ تلوار کا گھاؤ بھر جاتا ہے، زبان کا گھاؤ کبھی نہیں بھرتا۔ منہ سے صرف بھلی بات کہو، ورنہ خاموش رہو، وغیرہ وغیرہ۔ ’ٹاک شوز‘ میں ان تمام اقوال کو پامال کرکے وہ طوفانِ زبان درازی برپا کیا جاتا ہے کہ شیطان بھی ’اعوذ باللہ‘ پڑھنے لگے۔ ‘Talk Show’ کا شاید یہی تقاضا ہو۔
’ناظریں کا تقاضا‘ کہہ کہہ کر سیاسی مرغ لڑانے اور شرحِ تماشا بڑھانے والے نشریاتی ادارے اگر ہمارا یہ کالم پڑھ رہے ہوں تو ایک قصۂ پارینہ سن لیں۔ اب سے ٹھیک پچاس برس پہلے کی بات ہے، انجمن طلبہ جامعہ کراچی اپنے سالانہ ہفتۂ طلبہ میں بالخصوص اور سال کے عام دنوں میں بالعموم، شعبۂ صحافت وشعبۂ سیاسیات کے طلبہ و طالبات کے لیے سیاسی محافلِ مذاکرہ کا انعقاد کیا کرتی تھی۔ مختلف بلکہ متحارب سیاسی رہنما مدعو کیے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر خان عبدالولی خان (نیشنل عوامی پارٹی)، چودھری ظہور الٰہی (مسلم لیگ)، پروفیسر غفور (جماعتِ اسلامی) اور سید سعید حسن عرشی (پیپلز پارٹی) وغیرہ۔ طلبہ و طالبات کی محفل میں یہ رہنما بڑے شائستہ اور کسی حد تک شگفتہ انداز میں اختلافی موضوعات پر اظہارِ خیال کیا کرتے تھے۔ خان عبدالولی خان کا ایک فقرہ اب تک یاد ہے۔ اُنھوں نے بہت بڑی بات بہت مختصر فقرے میں کہہ دی تھی: ’’ہم نے آج تک ملک توڑنے کا تجربہ نہیں کیا۔ جنھوں نے کیا وہ ہمیں ’غدار‘ کہہ رہے ہیں۔‘‘
ایک محفلِ مذاکرہ کا موضوع تھا: ’’آپ بھی لائقِ اعتبار نہیں‘‘۔ مدعو سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اس محفلِ مذاکرہ میں اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے صفائی پیش کی۔ اپنے کو ’لائقِ اعتبار‘ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر چودھری ظہورالٰہی نے ایک شعر پر اپنی تقریر ختم کرکے یہ میلہ لوٹ لیا۔ چودھری صاحب نے بڑی تفصیل سے اپنی جماعت کی کارکردگی اور صفائی پیش کی پھر اچانک پینترا بدل کر فرمایا:
’’… لیکن میرے بچو! اگر ’’آپ‘‘ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’آپ بھی لائقِ اعتبار نہیں‘ تو…
تمھیں اعتبارِ اُلفت جو نہ آ سکا ابھی تک
میں سمجھ گیا، یقیناً ابھی مجھ میں کچھ کمی ہے‘‘
ایسے سمجھ دار لوگ اب کہاں؟ آج کل ملک میں اور ٹیلی وژن پر جو طوفانِ زبان درازی و دست درازی برپا ہے، مانو نہ مانو، اس میں بڑا حصہ اُس بھونڈی زبان کا بھی ہے جو انگریزی ہے نہ اُردو۔ کوئی ایک زبان بولتے تو شاید کوئی ایک قرینہ شخصیت کا حصہ بن جاتا۔ مگر تم تو تیتر رہے نہ بٹیر۔ بیچ کی کوئی تیسری جنس بن کر رہ گئے۔ ضرب المثل تو یہ ہے ’کوا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا‘۔ مگر یہاں تو راج ہنس کووں کی چال چلنے کی کوشش میں کائیں کائیں کیے جارہے ہیں۔ پھر بھی کوے ان کو کوا ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اے عزیزو! تم کتنا ہی انگریز بننے کی کوشش کرو، انگریز تمھیں کبھی انگریز نہیں مانیں گے۔ تم کو ’نقال‘ ہی جانیں گے۔ وہی جسے بچے اپنی زبان میں ’نقلچی‘ کہتے ہیں۔
ماضیِ قریب کے سیاسی رہنماؤں میں نواب زادہ نصراللہ خان، چودھری ظہور الٰہی، شاہ مردان شاہ پیر پگاڑا، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفوراحمد، عطاء اللہ مینگل، اکبر بگٹی، مولانا مفتی محمود، قاضی حسین احمد، حتیٰ کہ خان عبدالولی خان بھی بہت اچھی زبان بولتے تھے۔ اس ضمن میں ولی خان کی ایک اور بات یاد آگئی۔ انھیں بھی زبان کی صحت کا خیال رہتا تھا۔ جب وہ جامعہ کراچی تشریف لائے تھے تو اپنی تقریر کے آغاز میں فرمایا: ’’آج آپ کو ایک پٹھان کی اُردو برداشت کرنی پڑے گی۔ ہماری اُردو میں امّاں روٹی پکاتا ہے اور ابا حقہ پیتی ہے۔‘‘
آگے چل کر حکومت کی بے اعتدالیوں پر تنقید کرتے ہوئے خان صاحب نے بڑے جوشیلے اور جذباتی انداز میں مجمع سے پوچھا:
’’مجھے بتاؤ،کیا قوم بھٹو صاحب سے نہیں پوچھے گا؟‘‘
مجمعے نے بھی اُسی جذباتی انداز میں جوش و خروش سے یک آواز ہوکر جواب دیا: ’’پوچھے گا … پوچھے گا‘‘۔
اِس پر خان صاحب نے مجمعے کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’پوچھے گی!‘‘ اُن کی اس معصومیت پر مجمع کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ تقریرتو وڑ گئی۔
نشریاتی اداروں کے جن نظامت کاروںکو قوم میں مقبولیت حاصل ہوئی وہ سبھی شائستہ زبان بولتے تھے۔ قریش پُور، عبیداللہ بیگ، حمایت علی شاعر، ضیاء محی الدین، طارق عزیز، فرہاد زیدی، لئیق احمد اورخوش بخت شجاعت وغیرہ وغیرہ۔ جن خبر خواں افراد کو شہرت ملی وہ سب درست تلفظ کے ساتھ اچھی زبان بولنے والے نشرکار تھے۔ شکیل احمد، انور بہزاد، شائستہ زید، اظہر لودھی، خالد حمید اور عشرت فاطمہ وغیرہ وغیرہ۔ کاش ہمارے موجودہ نظامت کار(Anchor Persons) بھی نفیس زبان بولتے تو انھیں بھی لوگ ہمیشہ یاد رکھتے۔
چاہے کوئی اتفاق کرے یا اختلاف، کالم نگار کا مشاہدہ تو یہی ہے کہ جب تک خالص اُردو زبان بولی جاتی رہی تب تک سیاست اور صحافت دونوں میں شائستگی رہی۔ تب تک ادب و احترام تھا، حفظِ مراتب تھا، صاف ستھرا اختلاف تھا۔ اختلاف کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ زبانوں پرگندگی تھی نہ غلاظت۔ منہ در منہ ایک دوسرے پر کیچڑ نہیں اُچھالا جاتا تھا۔ مگر جب سے انگریزی کا ملغوبہ زبانوں پر چڑھا ہے تب سے کسی کی زبان سنبھل ہی نہیں رہی ہے۔ سنبھلے بھی کیسے؟ گز بھر کی غیر ملکی زبان کو سنبھالنا آسان ہے؟