وہ اس دورِ قحط الرجال میں ایک بہت بڑی شخصیت ہیں۔ سندھ کے ایک بہت چھوٹے سے پسماندہ اور درماندہ شہر سکرنڈ ضلع شہید بے نظیر آباد (نواب شاہ) میں یکم مئی 1955ء کو جنم لینے والے عبدالتواب شیخ ولد ابوالکلام سچ پوچھیے تو ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ بہت اچھے دانش ور، صحافی، ادیب، طبیب اور کالم نگار تو ہیں ہی، اس کے ساتھ ساتھ ایک دلیر، نڈر، بہادر اور بے باک انسان بھی ہیں جو کسی وڈیرے، پیر، میر، بھوتار یا بیورو کریٹ کو کبھی خاطر میں نہیں لائے۔ کلمۂ حق کہنا اور لکھنا ان کا شعار اور عادتِ ثانیہ ہے جس کی بنا پر ماضی میں انہوں نے بہت ساری صعوبتوں اور تکالیف کا بھی سامنا کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود موصوف نہ کبھی گھبرائے اور نہ ہی راہِ حق میں چلتے چلتے ان کے قدم ہی لڑکھڑائے یا ڈگمگائے، کیوں کہ وہ جماعت اسلامی ضلع نواب شاہ کے اپنے وقت کے ولی اللہ کے مصداق رہنما مولانا عبدالواحد مرحوم و مغفور کے زیر تربیت رہے ہیں۔ راقم کو اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میں زیر تعلیم تھا تو ان کی تحاریر ’’جسارت‘‘ اور پھر ’’تکبیر‘‘ میں پڑھا کرتا تھا۔ روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے ادارتی صفحے پر ابونثر (احمد حاطب صدیقی) کے سوال جواب پر مبنی ایک شگفتہ سلسلے ’’صندوق البرید‘‘ میں ہر دو اصحاب کی باہم نوک جھونک قارئین کو بے حد محظوظ کیا کرتی تھی۔ اب تو وہ سنہرے دن خواب و خیال کی مانند گزر گئے لیکن ماشاء اللہ جناب عبدالتواب شیخ کا اشہب قلم اب بھی روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے ادارتی صفحے اور ایک معاصر ہفت روزہ کے صفحات پر رواں دواں دکھائی دیتا ہے۔ شیخ صاحب موصوف عمرِ عزیز کے 70 ویں برس میں قدم رکھ چکے ہیں تاہم ان کی جان دار تحاریر، تجزیے اور رپورٹنگ پڑھ کر تو بظاہر یہی گمان گزرتا ہے کہ شاید ان کے قویٰ تو مضمحل ہوگئے ہوں گے لیکن عناصر میں بے اعتدالی کے مضر اثرات سے وہ بہ فضل تعالیٰ محفوظ اور مامون ہیں۔ شیخ صاحب حق بات ہر ایک کے منہ پر جس بے لاگ انداز میں کہنے اور لکھنے کے قائل بلکہ اس پر پورے طور سے کاربند رہے ہیں اسے دیکھ کر بے ساختہ و بے اختیار علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا ہے جولگتا ہے کہ شاید انہی کے لیے کہا گیا ہے:
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں،بے گانے بھی ناخوش
میں زہر ہلال کو کبھی کہہ نہ سکا قند
راقم خود کو بے حد خوش قسمت گردانتا ہے کہ وہ مجھ سے حُسن ظن رکھتے ہیں اور میں اُن سے دلی محبت اور اُن کا حد درجہ احترام کرتا ہوں۔ یہ تعلقِ خاطر گزشتہ دو عشروں سے بھی زائد پر محیط ہونے کے باوجود عجیب سوئے اتفاق ہے کہ میں آج تک ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہیں کرسکا، البتہ فون پر اکثر اُن سے طویل گپ شپ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان کے پاس یادوں کی ایک پٹاری اور بے پناہ قیمتی معلومات کا ایک نادر و نایاب ذخیرہ ہے۔ جناب عبدالتواب شیخ ماہِ رمضان میں پیر کے دن پیدا ہوئے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت میں نیکی اور عبادت گزاری کا عنصر غالب ہے۔
وہ ایک بہت اچھے طبیب بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو دستِ شفایابی عطا کررکھا ہے اس کی وجہ سے ان کے علاج سے امراضِ دیرینہ اور کہنہ میں مبتلا بہت سارے افراد بھی صحت یاب ہوچکے ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اردو پرائمری اسکول سکرنڈ سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک ڈی سی ہائی اسکول سکرنڈ، انٹر سچل کامرس کالج، اور بی اے ہالا کالج سے کیا۔ دینی تعلیم (ابتدائی) مدرسہ رحمانیہ سکرنڈ سے حاصل کی جو اُن کے دادا مرحوم کا قائم کردہ صدقۂ جاریہ ہے۔ انہوں نے مسجد کے ساتھ واقع پرچون کی دکان سے اپنے کاروبارِ زندگی کا آغازکیا لیکن مطالعے کے ذوق و شوق نے کاروباری ذہنیت کو پنپنے نہیں دیا جو بہرحال ایک لحاظ سے اچھا ہی ثابت ہوا، ورنہ حالات کے مارے اہلِ علاقہ کو اپنی ترجمانی کے لیے بھوتاروں اور ظالم وڈیروں، افسران یا پولیس کو للکارنے والا ایک بے باک، دلیر اور نڈر صحافی کاہے کو میسر آسکتا تھا! دکان بند ہوچکی تھی، ایسے میں انہوں نے ایک کالم روزنامہ ’’مشرق‘‘کے لیے لکھا جو 1978ء میں شائع ہوا۔ یہ ان کا پہلا کالم تھا جس کی اشاعت کے بعد فکر و نظر کو اور زیادہ جلا اور حوصلہ افزائی ملی۔ بس پھر کیا تھا، زندگی کی گاڑی اسی رستے پر چل پڑی جس سے انہیں طبعی اور قدرتی میلان تھا۔ 1979ء میں شہید محمد صلاح الدین نے جو اُس وقت مدیراعلیٰ جسارت تھے، انہیں اپنے دورۂ سکرنڈ کے دوران مقامی نمائندہ ’’جسارت‘‘مقرر کردیا۔ بہت سارے امیدواران میں سے اپنے انتخاب کو وہ اپنے لیے رب کا ایک احسان گردانتے ہیں۔ انہیں روزنامہ ’’جسارت‘‘ سے اپنی اس وابستگی کے دوران مدیراعلیٰ سمیت کشش صدیقی، عبدالسلام سلامی، محمود احمد مدنی، احمد سعید قریشی، اطہرہاشمی جیسے بڑے اور جید صحافیوں کی رہنمائی حاصل رہی۔ اس دوران لکھنے کی صلاحیتوں کو بھانپ کر انہیں اطہر ہاشمی صاحب نے ’’جسارت‘‘ کے ادارتی صفحے پر لکھنے کے لیے آمادہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عبدالتواب شیخ صاحب کو لکھنے میں ملکہ حاصل ہے۔ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر بہ خوبی جانتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی پتے کی باتیں اپنے کالم یا تحریر میں اس طرح سے کہہ جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ سابق مدیر روزنامہ جنگ، نامور صحافی محمود احمد مدنی مرحوم نے ان سے دورانِ ملاقات فرمایا کہ ’’آپ ہمارے جوڑ اور پائے کے صحافی ہو۔‘‘ اس انداز کا خراجِ تحسین اور بہت سارے دیگر معروف صحافی بھی پیش کرچکے ہیں۔ 1989ء میں مدیر منتظم ’’جسارت‘‘ کشش صدیقی مرحوم کی اجازت سے فی مضمون معاوضے پر ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کے لیے نمائندے مقرر ہوئے۔ اس دوران تھر کا دورہ کیا اور کئی چونکا دینے والی، انکشاف انگیز، پریشان کن رپورٹس کی ’’تکبیر‘‘ میں اشاعت کے بعد ان سے اداروں اور عدالتوں میں جواب طلبی ہوئی، پیشیاں تک بھگتنی پڑیں۔ تب آتش جوان تھا، اس لیے اس کام کو بھی اپنے لیے تجربے کا باعث گردانا۔ پریشانی تو عین فطری تھی لیکن جھکے اور نہ بکے اور نہ ہی ہار مانی۔ شکستہ دل بھی اس لیے نہ ہوئے کہ ہمت بڑھانے اور حوصلہ دینے والے بھی بہت تھے۔ سال ہا سال تک پیشیاں بھگتنے اور جوتیاں چٹخانے کے بعد مقدمات سے باعزت گلوخلاصی ہوئی۔ اس عرصے میں ڈاکوئوں کے ناموں کے افشا پر ان کے اغوا کا ایک منصوبہ اللہ نے یوں ناکام بنایا کہ وہ تو بچ گئے تاہم ان کے عزیز اغوا کرلیے گئے جو بعدازاں بھاری تاوان کی ادائیگی اور ڈاکوئوں کے ہاں 36 دن اسیری کے بعد رہا ہوسکے۔ انہوں نے قادیانیوں کے ایک سالانہ اجتماع میں بھینسوں کا بیوپاری بن کر شرکت کی جہاں انہوں نے یہ دنگ کردینے والا انکشاف بھی سنا کہ ہوائی جہاز کے حادثے میں جنرل ضیا الحق کی شہادت کا سانحہ قادیانیوں کے خلاف ان کے کیے گئے اقدامات کا نتیجہ تھا۔
1988ء میں قاضی حسین احمدؒ کی مہربانی سے جہادِ افغانستان کے مشاہدے، مطالعے اور تجزیے کا ایک ایسا یادگار موقع میسر آیا جو ان کی لوحِ ذہن پر آج بھی منقش ہے۔ مجاہدین کے ساتھ تورابورا کے پہاڑی سلسلے اور مورچوں میں رہنے کی سعادت میسر آئی۔ واپسی پر جنرل ضیا الحق کی ہوائی جہاز حادثے میں شہادت کا سانحہ ہوگیا۔ 2001ء میں ایک مرتبہ پھر طالبان حکومت کا مہمان بننے کا موقع ملا۔
شیخ صاحب موصوف اردو، سندھی زبان پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ دینی اور طبی علوم کے بھی شناورہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاری خوب کرتے ہیں۔ صوبہ سندھ، پاکستان، اس کے پڑوسی ممالک ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی حالات اور واقعات پر بھی ان کی گہری اور عمیق نظر رہتی ہے۔ کثرالمطالعہ ہونے کی بنا پر ان کی تحاریر بھی بڑی جان دار اور شان دار ہوتی ہیں جو ان کی وسعت ِمطالعہ کا پتا دیتی ہیں۔ اپنے دورۂ افغانستان میں انہیں قائدین، عمائدین، جج صاحبان سے ملنے اور وہاں کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ محمود غزنوی کے مزار اور صحابہ کرامؓ سے منسوب مسجد کو بھی بہ چشم خود ملاحظہ کیا۔ واپسی ہوئی تو ابھی کوئٹہ ہی میں تھے کہ احمد شاہ مسعود پر قاتلانہ حملے کی اطلاع ملی جس میں ان کی موت واقع ہوگئی تھی، اور جب گھر پہنچے تو افغانستان میں امریکی جارحیت کی خبر سنی۔ ان کے مطالعاتی دوروں کی روداد جسارت اور تکبیر میں بھی چھپی۔ ان کے دوست مکرم علی شاہین جنہوں نے موصوف کے نمائندۂ جسارت بننے میں اہم کردار ادا کیا، جب ’’بزمِ ادب‘‘ قائم کی تو اس کے بھی رکن بنے۔ یہ اپنے مذکورہ دوست کو اپنا علم دوست مربی بھی گردانتے ہیں۔ مولانا عبدالواحد جو جماعت اسلامی سکرنڈ نواب شاہ کی جان اور ایک طرح سے گویا روحِ رواں تھے، مکرم علی شاہین ہی اُنہیں اُن کے پاس چھوڑ گئے تھے جہاں یہ پابندی سے بعد نماز مغرب درسِ قرآن میں شریک ہوا کرتے تھے۔ یہیں مولانا مرحوم نے جو جرأت اور بے باکی کی ایک زندہ مثال ہوا کرتے تھے، ان کی صحافت پر مبنی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ لاہور سے نکلنے والے رسالے ’’سیاسی لوگ‘‘ کے مدیر چودھری غلام حسین نے انہیں بذریعہ فون کہا کہ آصف زرداری کی جانب سے آپ کے علاقے میں شوگر مل لگانے کی اطلاع ہے، آپ ہمیں رپورٹ تیار کرکے دیں۔ وہ ان کی خواہش کی تکمیل کے لیے انور راجپوت کے ہمراہ مذکورہ مقام پر گئے اور یوں سکرنڈ شوگر مل کی خبر سب سے پہلے انہوں نے بریک کی جو ’’سیاسی لوگ‘‘ میں شائع ہوئی۔ بہاولپور سے نکلنے والے رسالے ’’حقیقت‘‘ کے لیے بھی رپورٹنگ کی۔ پریس کلب سکرنڈ کی عمارت حاصل کرنے کا بھی انہیں اعزاز حاصل ہے جس کے وہ جنرل سیکرٹری سمیت دیگر کئی اہم مناصب پر فائز رہے۔ محمد صلاح الدین شہید نے موصوف کو اپنی شہادت سے ٹھیک دو ماہ قبل بذریعہ خط یہ اعزاز بخشا کہ آپ اسٹاف کے علاوہ واحدنمائندے ہیں جنہیںہم ماہانہ تنخواہ دیا کرتے ہیں۔ مکرم علی شاہین، قائم الدین خاصخیلی ایوارڈ کے ساتھ کئی توصیفی اسناد عمدہ اور بہترین صحافت کرنے پر انہیں بطور ستائش دی گئیں۔ توفیقِ الٰہی سے چاروقیع کتب بہ عنوان ’’سندھ کی ریتیں اور رسمیں‘‘، ’’قلم کہانی‘‘،’’باب الاسلام سندھ دانائوں کی نظرمیں‘‘، ’’صحافت شریعت کی روشنی میں‘‘ تحریر کیں۔ موخر الذکر کتاب تو اپنے موضوع پر بے حد شان دار اور عمدہ کتاب ہے، جسے وطنِ عزیز کے شعبہ صحافت کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے۔ علمی، ادبی اور صحافتی حلقوںمیں ان کی شائع شدہ ان چاروں کتب کو بے حد پذیرائی مل چکی ہے۔ ’’طب کے رموز و نکات اور شاہکار نسخے‘‘ کے زیر عنوان ایک کتاب زیر ترتیب ہے۔
آپ جماعت اسلامی تعلقہ سکرنڈ کے امیر اور ضلعی ناظم نشر و اشاعت بھی رہے۔ ممبر شوریٰ بھی رہے۔ طب کا شوق 1968ء میں ہوا، اور پھر اس حوالے سے سیکڑوں کتب زیر مطالعہ رہیں۔ حکیم محمد سعید شہید، حکیم اقبال حسین، حکیم صادق حسین، حکیم محمود احمد برکاتی اور حکیم شریف دنیا پوری سے ملاقاتیں رہیں۔ مطالعے کے شوق نے پامسٹری کی طرف بھی راغب کیا۔ مطالعۂ احادیث سے زندگی کے حقائق سے روشناس ہوئے۔ سادہ مزاج، سادہ اطوار ہیں۔ اپنی سادگی کو روح کی تسکین قرار دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر مشکل سے نکلنے کی سبیل پیدا کی۔ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اللہ نے بذریعہ اسکالرشپ تعلیم کے عقل کو دنگ کردینے والے اسباب پہنچائے۔ 1984ء میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوئے۔ پیشہ صحافت سے وابستہ ہوئے 45 برس بیت چکے ہیں، صحافت کے میدان کے آج کئی بڑے شہسوار موصوف کے تربیت یافتہ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اللہ نے ہر ہر مرحلے پر میری مدد اور رہنمائی اور دست گیری کی۔ میری دعائوں کو شرفِ قبولیت بخشا۔ میری تمام ضروریات کی ہمیشہ کفالت کی۔ حیران کن معاملات سے سابقہ رہا۔ جماعت اسلامی کی صحافیوں کے لیے منعقدہ تربیت گاہ سے بھی خوب خوب استفادہ کیا۔ اچھے اور بہترین مربیوں کی مدد حاصل رہی۔ آئی بی اے یونیورسٹی سکھر کے بانی مبانی مرحوم نثار احمد صدیقی جب کمشنر نواب شاہ تھے تو ایک مرتبہ برملا کسی ٹھیکے میں ناقص میٹریل کے استعمال کی نشان دہی کی جس سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ بعد میں بھی رابطے اور مشورے میں رہے۔ ایک مرتبہ مرحوم جی ایم سید کی سالگرہ کی تقریب کی کوریج کے لیے گئے، جب نام نہاد سندھو دیش کا ترانہ شروع ہوا تو سارا پنڈال ہی احترام میںکھڑا ہوگیا لیکن ان کے ضمیر نے کھڑا ہونا گوارا نہیں کیا۔ حیدرآباد کے معروف صحافی ظہیر احمد اور کیمرہ مین بھی بیٹھے رہے۔ ایک بار پیر صاحب پگارا کو دورانِ ملاقات انہوں نے جب یہ بتایا کہ میں نمائندۂ جسارت اور تکبیر ہوں تو انہوں نے حاضرینِ محفل سے برجستہ کہا ’’یعنی ذبح کرنے والے‘‘۔ اسی طرح کے جملے سید امداد محمد شاہ (فرزند جی ایم سید مرحوم) نے بھی کہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران اسسٹنٹ کمشنر سکرنڈ نے خبر کے سلسلے میں دھمکایا تو اس کی دھمکی کو خاطر میں نہیں لائے اور خبر دے دی، جس کی وجہ سے انہیں ایک الاٹ شدہ کیس پر نوٹس جاری ہوا۔ انہوں نے اس پر اپنے دل میں غرور اور تکبر کیا جس کی وجہ سے کیس ہار گئے، بعدازاں توبہ تائب اور استغفار کرنے پر اللہ نے اسی جگہ پر اس سے بھی بڑی ایک دکان دے دی۔ ان کے مطابق ایک مرتبہ صدر زرداری نے کہا کہ شیخ صاحب لکھنا بند کرو، کوئی کام کرو، بات کو۔ میں نے کسی کام کے لیے انہیں کبھی نہیں کہا۔ ایک مرتبہ ایک وڈیرے کے بندوق بردار ایک ناگوار خبر کی اشاعت پر مجھے ڈرانے دھمکانے کے لیے آئے اور کہا کہ اگر تردید نہ
چھاپی تو سمجھو پھر تمہاری خیر نہیں۔ مولانا عبدالواحدؒ امیرجماعت کو بتایا تو انہوں نے مجھے کہا کہ وہ تم سے ڈرتے ہیں اسی لیے تو بندوق لے کر آئے تھے۔ الحمدللہ! وہ پھر کچھ بھی نہ کرسکے اور انہوںنے دم سادھ لیا۔ تحقیقاتی رپورٹنگ پر ادارۂ تکبیر نے انہیں پورے اندرون سندھ کا نمائندہ مقرر کر دیا تھا۔ کئی بار انہیں بھاری رقوم کی پیشکش بھی کی گئی مگر اللہ نے محفوظ رکھا۔ دھمکیوں، ترغیب اور تحریص کا مسلسل سامنا کرتے رہے۔ مولانا جان محمد عباسیؒ کو اپنا محسن اور مربی گردانتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے مجھ پر دست ِ شفقت رکھا اور میرے مشکل ترین دور میں مجھے ناظمِ دفتر نواب شاہ بنا کر میرے لیے مالی آسانی کا سامان کیا۔
ان کے ہاں قیمتی یادوں کا ایک طومار ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کسے لکھا جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے!لگتا ہے کہ میر تقی میرؔ نے یہ شعر شاید موصوف کی ہمہ صفت شخصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا تھا
ملتے ہیں کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم