قادیانیت سے جماعت اسلامی تک

حویلیاں کے عبدالغنی اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہیں جو جماعت اسلامی میں ان کی شمولیت کا موجب بنا۔

’’یہ 1952ء کی بات ہے، میں پاکستان نیوی میں ملازم تھا۔ میرا ایک ساتھی مانسہرہ کا رہنے والا تھا۔ میری اُس سے گہری دوستی ہوگئی۔ کیونکہ میں حویلیاں کا تھا، ہم وطن ہونے کی وجہ سے ہم میں بہت انس ہوگیا۔ ایک دن مجھے اُس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ قادیانی ہے تو میں نے اُس سے بے تکلفی سے پوچھا کہ کیا تم واقعی قادیانی ہو؟ اُس نے کہا: ہاں میرے والد قادیانی ہوگئے تھے، میں پیدا ہوا تو میں بھی اسی مذہب پر قائم رہا۔

اس کے بعد وہ مجھ سے اکثر قادیانیت کے بارے میں باتیں کرتا رہتا۔ ایک دن اُس نے مجھے مرزا غلام احمد کی ایک کتاب دی اور کہا اسے غور سے پڑھو، تم پر حق واضح ہوجائے گا۔ میں نے وہ کتاب پڑھی اور اسے واپس کردی، اس پر اُس نے مجھے مرزا صاحب کی ایک اور کتاب دی، میں نے وہ بھی پڑھ لی۔ یوں پے بہ پے اس نے مجھے کئی کتابیں دیں، میں نے پڑھ لیں اور واپس کردیں۔ ان کتابوں کے مطالعے سے میں ذہنی اضطراب میں مبتلا ہوگیا۔

ایک دن اُس نے مجھ سے کہا: تم نے ہمارے مذہب کے بارے میں اتنی کتابیں پڑھ لی ہیں، بتائو اب ہمارے مذہب کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: تمہاری دی ہوئی کتابوں کو پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یا تو میں نے اب تک جو کچھ سیکھا اور سمجھا ہے وہ غلط ہے، یا تمہاری کتابیں غلط ہیں۔ دوسری بات ان کتابوں کے مطالعے کے بعد یہ ہوئی ہے کہ میرا ذہنی سکون ختم ہوگیا ہے۔ میں اس سوچ میں گم رہنے لگا ہوں کہ میں مسلمان ہوں یا کافر؟ اگر میں مرگیا تو حشر میں میرا شمار کس زمرے میں ہوگا؟

میری یہ بات سن کر وہ خاموش ہوگیا۔ میں نماز کا شروع سے عادی تھا، اب میں ہر نماز کے بعد اللہ سے دعا کرنے لگا کہ وہ مجھے سچائی کا راستہ دکھادے۔ مجھ پر حق واضح کردے جو میرے ذہنی خلجان کو دور کردے۔

ایک دن میرا قادیانی دوست مجھے قادیانی مسجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے لیے لے گیا۔ وہاں نیوی کے اور بھی کئی لوگ تھے، اتفاق سے اُس روز سر ظفر اللہ خاں بھی آئے ہوئے تھے، مجھ کو قادیانیت سے متاثر کرنے کے لیے اُن سے میری ملاقات بھی کرائی گئی۔

نماز کے بعد میں جہاز پر واپس آیا تو میرے افسر انچارج نے مجھے بلوا کر کہا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا آج کل قادیانیوں کے ساتھ بہت میل جول ہے، تم ان کی کتابیں بھی پڑھتے ہو، میں تمہیں ان کی کتابیں پڑھنے سے منع نہیں کرتا، لیکن میرا مشورہ ہے کہ تم دوسرے علماء کی کتابیں بھی پڑھو تاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی تمہارے سامنے رہے اور تمہیں یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ کون سا گروہ حق پر اور کون سا باطل ہے۔

میں افسر انچارج کے کمرے سے باہر نکلا تو جہلم کے ایک چودھری صاحب سے آمنا سامنا ہوگیا۔ یہ بھی نیوی میں تھے، کہنے لگے: سنا ہے آج کل تم بڑی بڑی کتابیں پڑھتے ہو، اگر تمہیں کتابیں پڑھنے کا اتنا شوق ہے تو ایک کتاب میری بھی پڑھ لو۔ میں نے کہا: چودھری صاحب آپ کی کتاب ضرور پڑھوں گا۔

انہوں نے دوسرے دن مجھے ایک کتاب لاکر دی جس کا عنوان تھا ’’قادیانی مسئلہ‘‘، اس کے لکھنے والے مولانا مودودیؒ تھے۔ میں نے ان کا نام پہلی مرتبہ سنا تھا۔ اپنی قیام گاہ پر آتے ہی میں نے کتاب کھول کر پڑھنا شروع کردی اور اُس وقت چھوڑی جب کتاب ختم ہوگئی۔ اس کتاب نے میرے ذہن میں تنے ہوئے سارے جالے صاف کردیے۔ زبان اتنی صاف اور اسلوب اتنا دل پذیر تھا کہ میں صاحبِ کتاب کا قائل ہوگیا۔ میرا دل ایک نامعلوم خوشی سے بھرگیا۔ قادیانی کتابیں پڑھنے سے جو پریشانی مجھے لاحق ہوئی تھی وہ قطعی دور ہوگئی۔

میں یہ کتاب لے کر خوشی خوشی اپنے قادیانی دوست کے پاس گیا اور اُس سے کہا: بھائی تم مجھے کتابیں پڑھنے کے لیے دیتے تھے، اب میری بھی ایک کتاب تم پڑھو۔ وہ شاید اس کتاب اور اس کے مصنف کو جانتا تھا۔ اُس نے کتاب میرے ہاتھ میں دیکھی تو اس کا چہرہ اترگیا۔ اُس نے کتاب لی، پھر دوسرے دن مجھے واپس کردی۔ معلوم ہوتا تھا گویا وہ سخت ناخوش تھا، اُس نے غالباً کتاب پڑھے بغیر واپس کردی تھی۔ لیکن مجھ پر تو جیسے اللہ تعالیٰ کی عنایتِ خاص ہوئی۔ میں نے مولانا مودودیؒ کی کتابیں ڈھونڈنا شروع کردیں۔ ان کی جو بھی کتاب مجھے ملتی، میں اسے ختم کرکے دم لیتا۔ رفتہ رفتہ مجھ پر دین کی حقیقت کھلنے لگی اور ذہن دین کے مقاصد کے بارے میں پوری طرح صاف ہوگیا۔

اب میں نے قادیانیوں سے بحث و تمحیص شروع کردی۔ وہ پہلے مجھ سے گفتگو کیا کرتے تھے تو میں چپ ہوجایا کرتا تھا، لیکن اب میں بات کرتا تو وہ چپ ہوجاتے اور کنی کترا کر نکل جاتے۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا کہ میری ان کوششوں سے ایک قادیانی اسلام کی طرف پھر لوٹ آیا اور یہ تمام تر مولانا مودودیؒ کی کتابوں کا فیض تھا۔

میری دینی اور دعوتی سرگرمیوں کی وجہ سے قادیانی میرے شدید مخالف ہوگئے، انہوں نے مجھے نقصان پہنچانے کی بڑی کوششیں کیں لیکن انہیں ہر جگہ منہ کی کھانی پڑی۔

نیوی سے ریٹائر ہونے کے بعد ایک دن مانسہرہ میں میری اپنے پرانے قادیانی دوست سے ملاقات ہوگئی۔ وہ بڑی محبت سے مجھ سے ملا لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ میں جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا ہوں تو اُس کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔ اسی دوران میں اُس کے والد صاحب آگئے۔ اُس نے اُن سے میرا تعارف کرایا اور کہا کہ یہ اب جماعت اسلامی میں شامل ہوگیا ہے۔ اس پر اُس کے والد نے کہا: آپ ہمارا لٹریچر ایک مرتبہ پھر دیکھیں۔ آپ کو حق معلوم ہوجائے گا۔

میں نے جواب دیا: بزرگوار! آپ کے فرزند کی معرفت میں نے آپ کی متعدد کتابیں پڑھیں، اگر ان میں کوئی جان ہوتی تو میں کب کا آپ کے حلقے میں داخل ہوچکا ہوتا۔ اب میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ عمر کے آخری حصے میں ہیں، حق کو پہچانیں اور اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔
انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور ہماری بات وہیں ختم ہوگئی۔ دوسرے سال جب میں دوبارہ مانسہرہ گیا تو معلوم ہوا کہ وہ فوت ہوچکے ہیں، افسوس کہ ان کے نصیب میں ہدایت نہ تھی۔
بہرحال قادیانیوں نے مجھے گمراہ کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے انھی کے ذریعے مجھے راہِ ہدایت بخشی۔ اگر میرا قادیانی دوست مجھے مرزا غلام احمد کی کتابیں پڑھنے کے لیے نہ دیتا تو شاید میں مولانا مودودیؒ کو بھی نہ پڑھ پاتا۔ الحمدللہ آج میں جماعت اسلامی کا رکن ہوں۔‘‘