’’کیڑا خوری‘‘

اللہ نے انسان کو کھانے اور پینے کے لیے طرح طرح کی طیب اشیا عطا فرمائی ہیں۔ یہ تمام اشیا خالص نعمت کے درجے میں ہیں۔ کسی بھی انسان کو روئے ارض پر زندگی عطا کرنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے اُس کا رزق لکھ دیا ہوتا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے جو کچھ بھی درکار ہے وہ سب ہے اور اللہ ہی کا عطا کردہ ہے۔ زندگی عطا کرنے والا خالق آخر کو رب بھی تو ہے، ہمیں پالنے کی ذمہ داری بھی اللہ ہی نے قبول کی ہے۔

کھانے کے لیے گوشت بھی ہے اور سبزیاں بھی۔ پیٹ بھر جائے تو طبیعت میں فرحت کا انوکھا احساس پیدا کرنے اور توانائی کی کمی پوری کرنے کے لیے پھل بھی حاضر ہیں۔ سمندری مخلوق بھی ہماری شکم پُری کے لیے مسخر کردی گئی ہے۔ پینے کے لیے پانی بھی ہے اور پھلوں کا رس بھی۔ پھولوں سے کشیدہ رس سے تیار کردہ شہد بھی اللہ نے ہمارے لیے رکھا ہے۔

ایسے میں کیا یہ بات محض بدبختی پر محمول نہیں کی جانی چاہیے کہ لوگ گائے، بکری، مرغی اور دیگر حلال جاندار چھوڑ کر کتے، بلیاں، خنزیر اور کیڑے مکوڑے کھاتے پھریں؟ یقیناً یہ صریح بدبختی ہے۔

دنیا بھر میں کیڑے مکوڑے کھانے کی تحریک پروان چڑھائی جارہی ہے۔ کتے، بلیاں اور کیڑے مکوڑے کھانے میں جنوب مشرقی ایشیا کی اقوام ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔ چین، جاپان، کوریا، فلپائن، تھائی لینڈ، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس وغیرہ میں لوگ صدیوں سے کتے، بلیاں اور کیڑے مکوڑے کھاتے آئے ہیں۔

اب عالمی ادارے بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دنیا بھر میں خوراک کے خطرناک ہوتے ہوئے بحران کا زور توڑنے کے لیے انسان کو کیڑے مکوڑے کھانے کی طرف مائل ہونا چاہیے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اِن میں لحمیات زیادہ ہیں اور لذت بھی غیر معمولی ہے۔

سنگاپور کی حکومت نے حال ہی میں کھانے کے لیے 16 کیڑے مکوڑے منظور کیے ہیں۔ ان میں بڑی مکھیاں اور زمینی کیڑے بھی شامل ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ 16 کیڑے انسانی جسم کے لیے نہ صرف یہ کہ نقصان دہ نہیں ہیں بلکہ اِنہیں کھانے سے جسم کو معقول حد تک توانائی ملتی ہے۔

سنگاپور فوڈ ایجنسی نے جن کیڑوں مکوڑوں کو خوراک کے طور پر لینے کی منظوری دی ہے ان میں عام پائے جانے والے گھاس پھوس کے کیڑے، جھینگر اور ٹڈوں کے علاوہ شہد کی مکھی بھی شامل ہے۔ سنگاپور فوڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اُس نے کیڑے مکوڑے کھانے کی منظوری اس لیے دی ہے کہ دنیا بھر میں یہ صنعت تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ اب اِنہیں فوڈ آئٹم کی حیثیت سے قبول کیا جارہا ہے۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) کیڑوں مکوڑوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے کو ماحول دوست قرار دیتے ہوئے اُنہیں معمول کی خوراک کا حصہ بنانے پر زور دیتی آئی ہے۔

سنگاپور فوڈ ایجنسی نے جن کیڑوں مکوڑوں کو کھانے کی منظوری دی ہے اُن میں آٹے میں پائی جانے والی سُرسُری، گھاس کے چھوٹے ٹڈوں کی دو انواع، بڑی ٹڈی (ٹڈل دَل والی)، گھاس میں پایا جانے والا ایک بڑا جھینگا نما کیڑا، رائنو بیٹل گرب کہا جانے والا بڑا کیڑا اور ریشم کے کیڑے (دو مختلف مراحل میں) شامل ہیں۔

آسٹریلیا کی فوڈ سائنٹسٹ اسکائے بلیک برن کہتی ہیں کہ سنگاپور کی حکومت کا فیصلہ خوش آئند ہے کیونکہ اب دنیا بھر میں کیڑوں کو خوراک کا حصہ بنانے پر زور دیا جارہا ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے اس منزل سے بہت دور رہنا اب بہت مشکل ہے۔ اسکائے بلیک برن کیڑوں کو خوراک کا حصہ بنانے پر زور دیتی آئی ہیں اور کیڑوں پر مشتمل فود آئٹمز کی فروخت سے بھی منسلک ہیں۔

سنگاپور میں ایک ریسٹورنٹ چین ’’ہاؤس آف سی فوڈ‘‘ پہلے ہی اپنے مینیو میں کیڑوں مکوڑوں والی 30 ڈشیں شامل کرچکی ہے۔ سنگاپور کے اخبار ’دی اسٹریٹ ٹائمز‘ نے بتایا ہے کہ فرائی کیے ہوئے انڈوں، بھنی ہوئی مرغی اور دوسرے بہت سے آئٹمز کے ساتھ کیڑے مکوڑے سجاوٹ کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں جیسے ہمارے ہاں کھانوں پر ہرا دھنیا، پودینہ، کاٹی ہوئی ادرک اور مرچیں ڈال کر سجاوٹ کی جاتی ہے۔

سنگاپور کی حکومت نے کیڑوں کے تیل، بغیر پکا ہوا کیڑوں والا پاستہ، کیڑوں کے ذائقے والی چاکلیٹ اور کنفیکشنری آئٹمز اور بُھنے یا تلے ہوئے کیڑے مکوڑے درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ علاوہ ازیں مسالا لگائے ہوئے کیڑے بھی منگوائے جاسکتے ہیں۔

سنگاپور نے شہد کی مکھی کھانے کی بھی اجازت دی ہے جبکہ دنیا بھر میں شہد کی مکھی کھانے کا رجحان ابھی پیدا نہیں ہوا۔

معروف جریدے ’سائنٹفک رپورٹس‘ نے رواں سال ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 128 ممالک میں کیڑے کھائے جاتے ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کی 2205 انواع کو لوگوں نے اپنی خوراک کا حصہ بنا رکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر انواع ایشیا کی ہیں۔ میکسیکو اور افریقا کی بہت سی انواع بھی پسند کی جارہی ہیں۔

تھائی لینڈ، بھارت، جمہوریہ کانگو، چین، جاپان، برازیل، کیمرون اور دوسرے بہت سے ملکوں میں کیڑوں کی 100 سے زائد انواع بخوشی کھائی جارہی ہیں۔

اب سنگاپور کے شیف دنیا بھر سے کیڑوں مکوڑوں کو خوراک کا حصہ بنانے کی ترکیبیں سیکھ کر اپنے لوگوں پر آزما سکیں گے۔ کیڑوں مکوڑوں کو دوسرے آئٹمز میں ملاکر کھانا زیادہ چلن میں ہے۔ لوگ نوڈلز، سوپ، آملیٹ، فرائیڈ چکن اور دوسرے بہت سے آئٹمز میں کیڑے اضافی طور پر ڈالتے ہیں تاکہ سواد ہی آجائے! دنیا بھر کے ریسٹورنٹس، مارکیٹس، سپر مارکیٹس میں اور وینڈنگ مشینز کے ذریعے کیڑوں مکوڑوں سے بنائی ہوئی پروڈکٹس فروخت کی جارہی ہیں۔

یورپی یونین بھی بہت سے کیڑے مکوڑے کھانے کی منظوری دینے والی ہے۔ یورپ میں اس نکتے پر زور دیا جارہا ہے کہ کیڑے دراصل خوراک کا ایک اچھوتا ذریعہ ہیں۔ اب تک یورپی یونین نے صرف کیڑوں کی چار انواع کھانے کی منظوری دی ہے۔ آسٹریلیا نے تین انواع کی منظوری دی ہے۔ اِن میں جھینگر اور اناج کے کیڑے شامل ہیں۔ آسٹریلوی حکومت اِنہیں خوراک کا انوکھا تو نہیں مگر غیر روایتی ذریعہ ضرور قرار دیتی ہے۔

شہد کی مکھیاں کھانے کے رجحانات پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی انواع ویسے ہی خطرے میں ہیں، اور اُنہیں بڑے پیمانے پر کھانے سے شہد کی پیداوار میں غیر معمولی کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔ اسکائے بلیک برن کہتی ہیں کہ اس معاملے میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ شہد مادہ مکھی بناتی ہے جبکہ نر مکھیاں کھائی جارہی ہیں۔ اِن میں ڈنک بھی نہیں ہوتا۔ اِنہیں عام طور پر شہد کے چھتوں سے الگ بھی کردیا جاتا ہے تاکہ وہاں بیماریاں نہ پھیلیں۔

علاوہ ازیں شہد کی جو مکھیاں ڈرون کہلاتی ہیں وہ چھتے کی ضمنی پیداوار ہوتی ہیں اور اُن کا شہد کی پیداوار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ مکھیاں کھائی جارہی ہیں۔

اسکائے بلیک برن کہتی ہیں کہ افریقا اور ایشیا کے بہت سے ممالک میں مادہ شہد کی مکھی بھی کھائی جاتی ہے۔ پکانے کے عمل میں اُس کا ڈنک اور زہر ختم ہوجاتا ہے۔ اسکائے بلیک برن نے ڈرون کھائے ہیں اور بتاتی ہیں کہ اُن کا ذائقہ میٹھے مکھن جیسا ہوتا ہے۔

کمبوڈیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بیشتر ممالک میں کیڑوں کو اسنیکس کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ کیڑوں کو پکوڑوں کی شکل میں بھی پکایا جاتا ہے اور بھون کر بھی کھایا جاتا ہے۔ جاپان اور جنوب مشرقی ایشیا کے دوسرے بہت سے ملکوں میں بھنے ہوئے لال بیگ، ارتھ وارم، میل وارم اور ٹڈے دکانوں میں عام ملتے ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ ان میں لحمیات کا تناسب بہت زیادہ ہوتا ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر اقوامِ متحدہ کی طرف سے کیڑوں کو خوراک کا حصہ بنانے پر کیوں زور دیا جارہا ہے؟ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں خوراک کا بحران تیزی سے پنپ رہا ہے۔ اس بحران پر قابو پانے کی ایک معقول صورت یہ ہے کہ لوگ کیڑے مکوڑے کھانے پر مائل ہوں۔ اُن کا استدلال ہے کہ مویشیوں کے مقابلے میں کیڑے مکوڑے زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں اور اُن کی افزائش پر بہت زیادہ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے پودوں کو توانائی میں تبدیل کرنے کا اہم ذریعہ ہیں، یعنی جو کچھ یہ کھاتے ہیں وہ اِن کے جسم میں پہنچ کر لحمیات کی شکل میں انسانوں کے لیے توانائی کے حصول کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ تصور یہ ہے کہ سڑی گلی سبزیاں اور پھل پھینکنے کے بجائے ان پر کیڑوں کو پلنے دیا جائے اور وہ کیڑے مکوڑے کھالیے جائیں۔ یعنی سبزی اور پھل تیزی سے لحمیات میں تبدیل کیے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جھینگر کو پروان چڑھنے کے لیے یعنی لحمیات کا خزانہ بنانے کے لیے مویشیوں (گائے، بھینس وغیرہ) سے 85 فیصد کم، بھیڑ بکری سے 75 فیصد کم اور برائلر چکن سے 50 فیصد کم فیڈ درکار ہوتی ہے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن نے بتائی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے گھروں کے اندر بھی پروان چڑھائے جاسکتے ہیں۔ انہیں جگہ بھی زیادہ نہیں چاہیے اور پانی بھی کم درکار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں فضلے اور بدبو کا جھنجھٹ بھی برائے نام ہوتا ہے۔ لوگ کیڑے پال کر بھی کمائی کرسکتے ہیں۔ کیڑے پالنے کے لیے خصوصی تربیت بھی حاصل نہیں کرنا پڑتی۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں معلوم ہی نہ ہو اور ہم پہلے ہی سے کیڑے کھارہے ہوں؟ سنگاپور فوڈ ایجنسی نے کمپنیوں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ اگر اُن کی پروڈکٹس میں کیڑے یا اُن کے اجزا شامل ہوں تو پیکیجنگ میں اس بات کی صراحت کی جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ جو کچھ کھارہے ہیں اُس میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔

دنیا بھر میں بہت سے کاروباری ادارے ایسی فوڈ پروڈکٹس فروخت کررہے ہیں جن میں کیڑوں مکوڑوں سے کشیدہ لحمیات شامل ہوتے ہیں۔ یہ ادارے اپنی پیکیجنگ میں اس کی صراحت بھی نہیں کرتے۔ پاستہ میں بھی ذائقہ اور غذائیت بڑھانے کے لیے کیڑوں کے لحمیات شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ بسکٹس اور پروٹین شیک کے لیے تیار کردہ پاؤڈر کا بھی ہوسکتا ہے۔

پاکستان جیسے ممالک میں لوگ چونکہ حرام و حلال کے حوالے سے بہت محتاط رہتے ہیں اس لیے یہاں تو ایسی پروڈکٹس نہیں چل پاتیں، مگر دنیا بھر میں ایسی بہت سی فوڈ پروڈکٹس ملتی ہیں جن میں کیڑوں مکوڑوں سے کشیدہ لحمیات شامل ہوتے ہیں اور لوگ بالعموم اس معاملے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ یہ سب کچھ دہی، آئس کریم، سوفٹ ڈرنکس، کپ کیک، پیزا وغیرہ کے پیڑوں اور فروٹ پائیز میں ہوسکتا ہے۔ یہ بات برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بتائی ہے۔ اِسی طور بچوں کے بہت سے آئٹمز میں بھی کیڑوں مکوڑوں کے اجزا شامل کیے جارہے ہیں تاکہ ذائقہ بھی بہتر ہوجائے اور وہ عادی بھی ہوتے جائیں۔ پاکستان جیسے ممالک کو دنیا بھر سے بچوں اور بڑوں کے لیے فوڈ آئٹمز درآمد کرتے وقت اجزائے ترکیبی پر نظر ضرور رکھنی چاہیے تاکہ خوراک میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو پائے۔

ماہرین اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ مویشیوں کی خوراک میں کیڑوں مکوڑوں سے کشیدہ لحمیات شامل کیے جائیں تاکہ وہ تیزی سے پروان چڑھیں اور اُن کے گوشت کا معیار بھی بلند ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو مویشی ہمارے لیے حلال ہیں اُن کا گوشت ہی کیڑے کھانے سے پروان چڑھا ہوگا۔ مویشیوں کے علاوہ پولٹری اور فش فارمنگ کی صنعت میں بھی کیڑوں مکوڑوں والی خوراک عام کرنے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ مرغیاں اور مچھلیاں تیزی سے تیار ہوں اور اُن کے گوشت کی لذت بھی نمایاں اور منفرد ہو۔ بلیک سولجر فلائی کو فیڈ میں ملاکر دینے سے مویشیوں کے فضلے سے پیدا ہونے والی آلودگی میں 70 فیڈ کمی واقع ہوتی ہے۔

آسٹریلیا سمیت بہت سے ملکوں میں بچوں کو اپنی خوراک میں کیڑے مکوڑے شامل کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے۔ یہ کام اسکولوں میں فراہم کیے جانے والے اسنیکس کی سطح سے شروع ہوتا ہے۔ بچے جب جھینگر اور دوسرے کیڑے کھاتے ہیں تو عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔