پیشِ نظر کتاب ”اردو نعت اور چند ادبی تحریکیں“ ایک تحقیقی مطالعہ ہے جس کی بنیاد اس فرضیہ تحقیق پر ہے کہ صنفِ نعت، دیگر اصناف کی طرح ادبی رو کا حصہ ہوتے ہوئے اپنے عہد کے رجحانات و میلانات کا اثر قبول کرتی ہے۔ اردو کی نمایاں تحریکات کے زیرِاثر تخلیق کردہ ادب کا جائزہ مختلف پہلوؤں سے لیا جاتا رہا ہے لیکن ان جائزوں میں دیگر ادبی اصناف کی طرح نعت کا ذکر بالعموم نہیں ملتا۔ کسی تحریک کے مجموعی جائزے میں تحریک کے پس منظر، محرکات، اثرات اور عواقب پر بات کرتے ہوئے اس عہد کی غزل، نظم، افسانے، ناول اور تنقید پر تحریک کے ہمہ گیر اثرات کو تسلیم کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ بات بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ صنفِ نعت بھی ان اثرات سے مستثنیٰ نہیں۔
اسی فرضیہ تحقیق کی بنیاد پر محترمہ ڈاکٹر طاہرہ انعام (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، گورنمنٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین، فیصل آباد) نے اس کتاب میں اردو ادب کی فکری و نظریاتی دنیا میں رونما ہونے اور اثرات مرتب کرنے والی پانچ اہم تحریکوں: 1۔ سرسید کی تحریک، 2۔ رومانی تحریک، 3۔ ترقی پسند تحریک، 4۔ حلقہ ارباب ِذوق کی تحریک، اور 5۔ اسلامی ادب کی تحریک کے حوالے سے نعت کے تخلیقی و فنی اور فکری و نظریاتی سفر کا جائزہ لیا ہے۔
ان تحریکوں کے اثرات کی نوعیت کیا رہی اور اردو زبان و ادب کو ان سے کیا ملا، یہ تو خود اپنی جگہ تفصیل طلب موضوع ہے۔ تاہم جب ہم اپنی ادبی تہذیب میں نعت کے حوالے سے ان تحریکوں کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ فاضل مصنفہ نے ان تحاریک کے پس منظر، مقاصد، اثرات یا ردعمل کا اعادہ کیے بغیر براہِ راست نعتیہ ادب کو پیش نظر رکھا ہے۔ جن مشاہیر کی نعت گوئی پر خاطر خواہ تحریری مواد موجود ہے، ان سے متعلق گفتگو کو طول نہیں دیا گیا، جب کہ بعض شعرا کی نعت کا تذکرہ، نعتیہ مجموعوں تک عدم رسائی کے باعث مختصر رہا۔
ڈاکٹر طاہر انعام درس و تدریس اور تحقیق سے وابستہ ہیں اور ”اردو میں معراج نامے“ کے موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مزاج میں تحقیقی و تنقیدی عنصر واضح طور پر نظر آتا ہے۔ جب کہ ان کے ہاں تخلیقی اظہار کی صلاحیت بھی نمایاں ہے کہ اب تک ان کے دو شعری مجموعے بعنوان: ”تراشیدم“ اور ”پرستیدم“ شائع ہوچکے ہیں۔
ممتاز نعت گو شاعر اور محققِ نعت سید صبیح رحمانی پیشِ نظر کتاب کے حوالے سے ”نقدِ نعت کی نئی جہت“ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
”اس کتاب کے پانچ ابواب میں اردو ادب کی پانچ تحریکوں کے تناظر میں اردو نعت کے تخلیقی سفر کا تو بے شک جائزہ ہمارے سامنے آتا ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان ادوار کا ادبی و سماجی منظرنامہ بھی ہمیں ایسی ایک جھلک دکھا دیتا ہے جس کے ذریعے ہم ان مخصوص عوامل پر بھی ایک حد تک غور کرسکتے ہیں جو کہ ان تحریکوں کے رونما ہونے اور فروغ پانے کا ذریعہ بنے تھے۔ گویا اس طرح ہم اپنے ادب، ادیب اور سماج کے رویوں اور حالات کے پیدا کردہ مخصوص عوامل کا بھی کسی حد تک جائزہ لے سکتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ جب ہم ان ادوار اور تحریکوں میں نعت کی صورت حال کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس صنفِ ادب نے کس طرح ہماری تہذیبی اقدار کی پاس داری کی ہے اور ہمارے ادبی شعور کو کس طرح اپنی بنیادوں سے ہم آہنگ رکھا ہے۔ ادب و نقد کی یہ وہ جہت ہے جو کسی تہذیب اور اس کے مظاہر کو آئندہ زمانوں میں لے کر چلتی ہے اور نئی نسلوں کو ان کی وراثت منتقل کرتی ہے۔
طاہرہ انعام کے کام کی ایک اہمیت و انفرادیت تو یہ ہے کہ انہوں نے مطالعہ نعت کے لیے اردو ادب کی چند اہم تحریکوں کو پیش نظر رکھا ہے اور ان کے حوالے سے نعت کے تخلیقی منہاج کو پرکھا اور سمجھا ہے۔ یہ کام اردو نعت کے حوالے سے پہلی بار ہوا ہے۔ دوسرے ان کے کام کا یہ پہلو بھی اہم ہے کہ انہوں نے ان تحریکوں کے حوالے سے نعت کی فنی حیثیت پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ اس طرح نعت کی ادبی و فنی حیثیت اور نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ یہ کتاب اپنی موضوعی اہمیت کے پیشِ نظر نہ صرف توجہ طلب رہے گی، بلکہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ دوسروں کے لیے نئے زاویہ ہائے نقد و نظر کی تحریک کا ذریعہ بھی ہوگی۔ یہ اس کتاب کی اہمیت بھی ہے اور نعتِ رسالت مآب ﷺ کا فیضان بھی۔“
کتاب نعت ریسرچ سینٹر کراچی کے معیار کے مطابق سلیقے سے شائع ہوئی ہے اور اپنے موضوع پر نقشِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔