وقت کی پابندی کے بے مثال فوائد!

مجھے زندگی میں جو سب سے اہم کامیابیاں ملیں وہ وقت کی پابندی کی عادت کی وجہ سے ملیں

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے زندگی میں متعدد کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اگر مجھ سے کبھی میرے سنجیدہ طالب علموں نے پوچھا کہ ان کامیابیوں کا کیا سبب ہے، یا یہ کامیابیاں مجھے کیوں کر حاصل ہوئیں؟ تو میں ایسے سوالات کے جواب میں جو کچھ سوچتا اور اپنے طور پر خود ان سوالوں کے جواب تلاش کرتا ہوں تو وہ یہ ہوتے ہیںکہ یہ کامیابیاں مجھے دو اسباب کے طفیل حاصل ہوئیں:

(1)کتابوں سے دلچسپی، اور ((2وقت کی پابندی

کتابوں سے میری دلچسپی، ان کی جستجو اور ان کے حصول کا نتیجہ بالآخر آج ایک بڑے اور مثالی ذاتی کتب خانے یا ’عقیل کلیکشن‘ کی تشکیل کی صورت میں سامنے ہے جو اولاً جاپان کی ’کیوتویونیورسٹی‘ میں قائم ہوا، پھر کراچی کے ’ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی‘ میں بھی وجود میں آیا، اور اب خود میرے گھر(بی-215، بلاک 15، گلستان جوہر) میں موجود ہے۔ کتابیں جمع کرنے کا آغاز میرے انتہائی بچپن ہی میں ہوگیا تھا جب میری عمر محض چار پانچ سال تھی اور میں اپنے والد (سید ضمیرالدین) اور اپنی والدہ (عزیزہ بانو) کو گھر میں مستقل کتابیں پڑھتے ہوئے دیکھتا اور والد کو تو پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھتے ہوئے اور مصوری کرتے ہوئے بھی دیکھتا اور خود بھی اپنی حد تک ان مشغلوں سے منسلک رہتا، اور اُس وقت جتنا بھی ممکن ہوتا میں اپنے ان بزرگوں کی اپنے طور پر پیروی کرتا رہتا۔ پھر کچھ ہی عرصے میں اپنے گھر کے اطراف ایسی چھوٹی چھوٹی خستہ سی لائبریریوں کا پتا چلا جہاں کتابیں صرف ایک آنہ کرایہ پر ایک دن کے لیے پڑھنے کے لیے دی جاتی تھیں، میں نے ان لائبریریوں سے اپنے لیے پرکشش کتابیں، جو اُس وقت بچوں ہی کے لیے لکھی اور چھاپی جاتی تھیں، لینا شروع کیں، اور یہ سلسلہ تقریباً روزانہ کئی سال تک جاری رہا۔ اُس وقت میں نے بچوں کی ساری ہی دستیاب کتابیں پڑھ ڈالیں اور پھر جلد ہی بڑوں کی کتابیں، جیسے نسیم حجازی، ایم اسلم، اے آر خاتون، رضیہ بٹ، پریم چند، رئیس احمد جعفری، قیسی رامپوری، شوکت تھانوی وغیرہ کی سبھی دستیاب کتابیں پڑھ ڈالیں، اور پھر اردو کے معروف ادبی اور ترقی پسند مصنفین کی بھی ساری ہی کتابیں پڑھ لیں کہ اب میری عمر جوانی کی حدود میں داخل ہوگئی تھی اور میں اسکول کی آخری جماعتوں ہی میں یہ سارا ادب بصد شوق پڑھنے لگا تھا۔

اس شوق نے مجھے بے حد فائدے پہنچائے ہیں کہ میرا مطالعہ اب صرف تفریحی ادب یا قصے کہانیوں، ناولوں اور شعری ادب تک مخصوص و محدود نہ رہا بلکہ ادب، تاریخ و ثقافت اور سیاست و معاشرت کے موضوعات پرجو بھی مجھے مل جاتا میں اسے پڑھنے کی کوشش کرتا، اور ساتھ ہی ایسی کتابیں جو علمی، فکری، تاریخی، سیاسی اور ثقافتی موضوعات پر پُرکشش نظر آتیں یا علم میں اضافے کا سبب بنتیں یا معروف و ممتاز مصنفین کی لکھی ہوتیں انھیں خریدنا اور جمع کرنا شروع کیا جو ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوکر میری ذاتی لائبریری کے طور پر معروف ہوگئیں اور خود میرے لیے ہی نہیں دوست احباب اور شائقین و ضرورت مندوں کے لیے بھی مفید ثابت ہوئیں۔ اس عمل سے نہ صرف میرے مطالعے نے وسعت و گہرائی حاصل کرلی بلکہ میں اب اپنے پسندیدہ موضوعات و مسائل کی جستجو کے تحت کتابوں کی تلاش اور خریداری کی کوشش میں سرگرداں رہنے لگا، اور مختلف موضوعات کے تحت اولاً مضامین اور پھر مقالات لکھنے میں دل چسپی لینے لگا۔ ابھی اسکول ہی کا زمانہ تھا کہ میں نے مضامین لکھنے شروع کردیے۔ جب چھٹی جماعت کا طالب علم تھا تو اس اچھے اور مثالی دور میں اسکول میں جب اساتذہ بھی نہایت مخلص، قابل اور دیانت دار ہوتے تھے، میرے اسکول گورنمنٹ ہائی اسکول، لانڈھی کالونی(نمبر1) سے ایک میگزین ’’نخلستان‘‘ نکلنے کا آغاز ہوا اور میری دل چسپی اور ذوق کو دیکھتے ہوئے اسکول میگزین کی مجلسِ ادارت میں مجھے بھی شامل کرلیا گیا۔ اس حوصلہ افزائی نے مجھے مزید آمادہ کیاکہ کوئی مضمون اس میگزین میں بھی شائع کروں، چناں چہ میں نے اپنی زندگی کا پہلا افسانہ: ’’ایک رات کا مہمان‘‘ لکھا جو اس میگزین میں شائع ہوا۔ یہ آغاز تھا میری افسانہ نویسی کا، جس میں جلد ہی ترقی اس طرح ہوئی کہ جب میں 1961ء میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا، میں نے ایک قدرے طویل مضمون اُس وقت کے نوجوانوں کے مقبول شاعر ساحر لدھیانوی کی شاعری پر تحریر کیا جو اُس وقت کے ممتاز اخبار ’’انجام‘‘ (کراچی) میں پورے صفحے پرشائع ہوا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ مضمون نویسی، روزمرہ کتابوں کے مطالعے اور اپنی دل چسپی کی کتابیں جمع کرنے کے شوق نے مجھے حد درجہ فائدہ پہنچایا اور میں لکھنے، پڑھنے اور ادب، تاریخ و سیاست کے احوال و موضوعات میں دل چسپی لینے لگا۔

اس ذوق و شوق کے ساتھ ساتھ میں نے اسی دوران یعنی بچپن ہی سے وقت کی قدر اور وقت کی پابندی کا خود کو عادی سا بنالیا تھا۔ یہ کسی دبائو اور مجبوری کے تحت نہیں تھا، بلکہ خود میں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وقت نہایت قیمتی ہوتا ہے، اِس لیے اس کی قدر بھی کرنی چاہیے اور اس کی پابندی بھی ملحوظ رکھنی چاہیے۔ یہ احساس ہمیشہ اس قدر توانا رہاکہ میں وقت کی پابندی کا عادی ہوگیا، اور اگر کوئی کام چار بجے کرنا ہوتا تو میں اُسے پونے چار بجے تک کرلینا چاہتا تھا، یا کہیں چار بجے پہنچنا ہوتا تو میں پانچ سات منٹ پہلے ہی پہنچنے کو خود پر لازم سمجھتا رہا، اور یہ عادت مجھ میں اتنی پختہ رہی ہے کہ وقت کی پابندی کے معاملے میں مجھے آج تک کبھی کہیں شرمندہ نہیں ہونا پڑا۔ وقت کی پابندی کی اس عادت نے مجھے جو فوائد پہنچائے ہیں یہاں مضائقہ نہیں کہ میں ایک دو کا حوالہ دے دوں! میری اس عادت کو لوگ ہمیشہ سراہتے رہے ہیں اور میں اپنی اس عادت پر بہت مطمئن بھی رہا ہوں۔ جب میں یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور جب خود تدریسی پیشے سے وابستہ ہوا تو میری اس عادت نے مجھے اس حوالے سے ہمیشہ شہرت و عزت عطا کی۔ وہ غیر ملکی طالب علم اور اساتذہ جو یونیورسٹیوں یا علمی و تحقیقی اداروں سے منسلک اور اپنے طور پر علمی و تصنیفی سرگرمیوں اور منصوبوں میں مصروف رہتے تھے جب یہاں سے واپس اپنے اپنے ملکوں اور اپنے اداروں میں پہنچتے، وہاںمیری شہرت کا سبب بنتے۔ اور اسی عادت کے طفیل بعد میں وقت آنے پر اولاً ملک اٹلی میں نیپلز میں قائم ایک معروف و ممتاز ’اورینٹل یونیورسٹی‘ میں قائم شعبۂ اردو میں ایک منصب پر مجھے بحیثیت استاد فائز کرنے کا منصوبہ بنایا! اولین مرحلۂ فراغتِ تعلیم یعنی پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد جب میں کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بحیثیت استاد منسلک ہوا تو یہ وہ وقت تھا جب غیرممالک بالخصوص یورپ، امریکہ اور چین و جاپان وغیرہ کے اساتذہ اور طالب علم بھی کراچی یونیورسٹی مختلف مقاصد کے تحت، جن میں حصولِ تعلیم و تحقیق بھی شامل ہوتی، تشریف لاتے اور کسی خاص مدت تک یہاں مقیم بھی رہتے۔ ایسے افراد، اساتذہ و محققین سے شعبے کے اساتذہ اور طلبہ کو تعارف و قرب کے مواقع حاصل ہوتے۔ ان ہی میں اٹلی کے ایک اسکالر، جو وہاں نیپلز میں واقع ’اورینٹل یونیورسٹی‘ سے منسلک تھے، امادیو مائیلو تھے جو اردو بول بھی سکتے تھے اور لکھنے پڑھنے سے دل چسپی رکھتے تھے، وہ اپنے کسی منصوبۂ تحقیق کی تکمیل یا مواد جمع کرنے کے لیے ایک ماہ کے لیے کراچی یونیورسٹی سے منسلک ہوئے اور مجھ سے بھی متعارف ہوئے، اور ایسے متعارف ہوئے کہ کتابوں اور مآخذ کی جستجو اور ان کے حصول اور عکس بندی کی غرض سے مجھ سے رجوع کرتے رہے، اور میں ان کے ساتھ کراچی یونیورسٹی کی لائبریری کے علاوہ نیشنل لائبریری کراچی، اسٹیٹ بنک کی لائبریری، قومی عجائب گھر کراچی، غالب لائبریری لے جاتارہا کہ اس طرح مآخذ کا حصول خود میری خواہش رہتی تھی۔ چناں چہ اس قرب و ہمراہی نے امادیو مائیلو کو مجھ سے بہت قریب کردیا، چناں چہ انھوں نے واپس اٹلی جاکر شاید میرا اس طرح ذکر کیا کہ بعد میں کئی افراد جو ’اورینٹل یونیورسٹی‘ سے اپنے تحقیقی و تصنیفی منصوبوں کے سلسلے میں کراچی آئے، خاص طور پر مجھ سے بھی ملتے رہے۔ ان ہی میں پروفیسر رحیم رضا بھی تھے جو اصلاً بہار سے تعلق رکھتے تھے اور کلکتہ میں مقیم تھے، وہاں سے وہ ایران چلے گئے تھے جہاں فارسی میں خوب مہارت پیدا کی اور وہیں اپنی ایک ہم جماعت اطالوی لڑکی سے اتنے قریب ہوئے کہ اس کے ساتھ نیپلز چلے گئے اور شادی کرلی، اور بعد کی ساری زندگی اطالوی شہریت حاصل کرکے وہیں مقیم ہوگئے۔ لیکن اپنے کلکتہ کے شہری ہونے، اردو میں بحیثیت مادری زبان مہارت رکھنے، اور فارسی کے فاضل ہونے کی وجہ سے ’اورینٹل یونیورسٹی‘ میں بحیثیت استاد شعبۂ ہندوستانی لسانیات میں قسمتِ اردو کے استاد مقرر ہوگئے اور شعبے کے سربراہ کی حیثیت حاصل کرلی اور ساری زندگی اس حیثیت پر فائز رہے۔ مائیلو صاحب ان کے رفیقِ کار تھے اور قریب بھی تھے۔ مائیلو صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا اور انھیں آمادہ کیاکہ کراچی جائیں اور میری مدد سے کراچی کے علمی وتحقیقی اداروں سے استفادہ کریں اور خود مجھے جانچیں کہ کیا میں ان کی یونیورسٹی سے بحیثیت استاد منسلک ہوسکتا ہوں؟ چناں چہ رحیم رضا صاحب کراچی آئے، تقریباً دوہفتے یہاں قیام کیا اور مجھ سے خاصے قریب ہوگئے اور بالآخر مجھے اٹلی آنے پر آمادہ کرلیا اور ’اورینٹل یونیورسٹی‘ سے بحیثیت مہمان استاد منسلک ہونے کی پیش کش بھی کردی، جسے میں نے قدرے ردو کد کے بعد قبول کرلیا اور کراچی یونیورسٹی سے رخصت اور غیر ملک روانگی کی اجازت حاصل کرکے ستمبر 1986ء میں نیپلز روانہ ہوگیا جہاں دوسال تک مقیم رہا اور تدریس و تحقیق اور عمدہ صحبتوں اور سارے یورپ کی سیاحت کے ایسے دل کش و مفید تجربات حاصل کیے کہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے جن کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

اٹلی میں قیام کے دوران جہاں اٹلی کے دل کش و حسین ترین تفریحی مقامات کی سیر و زیارت کے بے مثال مواقع میسر آئے، جن کی مثال یک جا یورپ کے کسی دوسرے ملک میں اس قدر بہتات اور دل کشی کے ساتھ کم ہی موجود ہے، وہیں اولاً نیپلز اور پھر سارے نمائندہ شہروں میں موجود علمی وتحقیقی اداروں، کتب خانوں اور وہاں مقیم ممتاز ماہرینِ علم و ادب سے تعارف و ملاقات کے نہایت مفید مواقع بھی میسر آئے۔ خود اورینٹل یونیورسٹی سے منسلک ممتاز اسکالرز، مثلاً: امادیو مائیلو، اندیانو راوسی، نردیلاسے متواتر ملاقاتوں اور استفادے کے مواقع اپنے قیام کے آخر تک مجھے حاصل ہوتے رہے۔ یونیورسٹی میں اردو زبان چار سال تک پڑھائی جاتی ہے اور طلبہ کے تعلق سے میرا تجربہ نہایت خوش گوار رہا۔ پہلی دو کلاسیں ابتدائی اردو زبان سیکھنے سے متعلق تھیں جو زیادہ تر وہیں کے اساتذہ پڑھاتے تھے اور اس مقصد کے لیے اپنی مادری زبان استعمال کرتے تھے جو خاصی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ تیسری اور چوتھی جماعتوں میں زبان کے ساتھ ساتھ ادب بھی پڑھایا جاتاہے اور ادب کے لیے آسان اور سہل اسباق کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں نظم و نثر سبھی شامل رہتی ہیں، اور نثر میں قصے کہانیوں اور سوانح و سفرناموں کو اہمیت حاصل رہتی ہے، جن کے اثرات طلبہ پر بہت مثبت ہوتے ہیں۔ نصاب بالعموم شعبے کا مرتبہ ہوتا ہے جو وہاں کے اساتذہ کی پسند پر منحصر ہوتا ہے۔ میں نے ان دو سالوں کے نصاب کو بڑی حد تک مقررہ نصاب کے مطابق ہی پڑھایا لیکن ایک اضافہ اپنے طور پر یہ کیاکہ طلبہ سے پڑھنے کے علاوہ چھوٹی چھوٹی باتیں لکھوانے کا کام بھی لینا شروع کیا جو طلبہ ہی نہیں اساتذہ کے لیے بھی پُرکشش ثابت ہوا۔ جب اس طرح لکھنے کی کلاس لیتا تو ایک دو اساتذہ مجھ سے اجازت لے کر ان کلاسوں میں بیٹھ جاتے۔

نیپلز میں مجھے ایک نہایت یادگار و دل کش تجربہ ہندوستانی زبانوں کے ممتاز عالم اور دانش ور الیزاندرو بائوسانی سے بھی ملاقات کا حاصل ہوا جو اُس وقت بہت ضعف اور کمزوری کی زندگی اپنے مستقل و آبائی گھر میں گزار رہے تھے جو نیپلز سے کچھ فاصلے پر واقع شمالی سمت میں ایک نہایت دل کش پہاڑ پر قائم آبادی میں تھا۔ اس ملاقات کی کوشش پروفیسر رحیم رضا صاحب نے کی تھی جو خود بھی اُن سے ملنے کے لیے اس وقت بے تاب تھے۔ ملاقات میں بائوسانی صاحب نے بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور مجھ سے پاکستان اور اردو زبان و ادب یا شاعروں اور ادیبوں کے بارے میں متعدد سوالات کیے اور میرے جوابات کو بڑے انہماک سے سنتے اور مزید سوالات بھی کرتے رہے۔ میں اس ملاقات سے بے حد متاثر ہوا کہ زندگی میں کسی ایسے بڑے اور نامور مستشرق و ماہر علم و ادب سے ملاقات کا میرا یہ پہلا ہی موقع تھا۔ یہ ملاقات اور یہ شخصیت مجھے ہمیشہ ہی اپنی یاد دلاتی رہتی ہے۔

اٹلی کا یہ قیام ہر طرح سے میرے لیے مفید، حوصلہ افزا اور سبق آموز رہا اور میں نے اداروں و ماہرینِ علم و فن سے ملاقاتوں اور استفادے کے ساتھ ساتھ سارے ہی یورپ کی سیاحت کی اور بہت کچھ دیکھا، سیکھا اور پایا۔ یہ سارے مواقع اگر دیکھوں تو مجھے وقت کی پابندی اور اس کی قدرکرتے رہنے کے باعث میسر آئے، اور اسی عادت یا صفت نے یورپی ماہرین و اسکالرز کو بھی میری جانب متوجہ کیا اور انھیں مجھ پر اعتماد کرنے پر آمادہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی عادت نے مجھے کچھ ہی عرصے بعد جاپان جانے اور وہاں بھی بے مثال زندگی گزارنے اور مشاہدات و تحصیلات کے جو مواقع فراہم کیے یہ بھی ایک انوکھی مثال ہے۔ میں مسلسل سات سال تک ٹوکیوکی معروف ’ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘ سے منسلک رہا، اور جاپان کے قیام اور بعد میں بھی کئی بار وہاں کے سفر کے نہایت مفید اور منفرد تجربات اور علمی وتہذیبی فوائد سے بہرہ مند ہوا۔ ان اسفار اور وہاں کے قیام میں جن دوست احباب سے ملاقاتوں اور دوستیوں کے سلسلے قائم ہوئے وہ اب بھی اسی طرح قائم ہیں۔

اٹلی کی طرح جاپان جانے کے لیے بھی نہ مجھے کسی سفارش کی ضرورت پیش آئی، نہ میں نے کسی ادارے یا اداروں کو درخواست دی اور نہ کہیں سے کوئی سفارش یا زور و اثر کواستعمال کرنا پڑا۔ جب میں کراچی یونیورسٹی میں طالب علم تھا تو میرے ذوق و شوق اور جذبہ و عمل کو دیکھ کر شعبے میں آنے والے جاپانی طالبِ علم بلکہ جاپانی وزارت خارجہ کے افسر بھی جو اردو سیکھنے یا پڑھنے کے لیے شعبۂ اردو میں داخلہ لیتے تھے،مجھ سے اردو میں مختلف نوع کی معاونت و مدد کے لیے رجوع کرتے، اور یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مجھ سے باقاعدگی سے نجی طور پر اپنی قیام گاہ پر بھی اردو پڑھتے رہتے تھے اور میرے ساتھ یہاں کی علمی و ادبی سرگرمیوں اور تقریبات میں خوداپنے ذوق و شوق کے ساتھ شریک بھی ہوا کرتے تھے۔ان میں ایک طالب علم سوایچی ناکانو جو وزارت خارجہ کے افسر تھے اور بعد میں ترقی پاکر وہاں اعلیٰ منصب تک بھی پہنچے اور پاکستان میں اعلیٰ سفارتی افسر کے طور پر کئی بار آئے اور کئی سال قیام کیا، اور ایک دو ایسے طالب علم بھی آئے جو تعلیم مکمل کرکے واپس ٹوکیو پہنچے تووہاں بااثرسفارتی افسر بن گئے، ان سب نے میرے لیے جاپان جانے کے مواقع پیدا کیے اور میرا خصوصی تعارف وہاں ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے سینئر ترین استاد اور وہاں اردو کے ممتاز مصنف و مترجم کی حیثیت سے بے مثال شہرت و عزت حاصل کرنے اور اردو زبان و ادب کے فروغ میں بے مثال خدمات انجام دینے والے پروفیسر سوزوکی تاکیشی سے کرایا جن کے یونیورسٹی کے ذاتی کمرے میں آنے والے اساتذہ و طلبہ کے لیے اردو کے سوا کوئی اور زبان بولنے پر بالعموم پابندی رہی۔ ایک بار سوزوکی صاحب ایک عام روایت کے مطابق اپنے طالبِ علموں کے ساتھ سالانہ تفریحی مقصد سے پاکستان اور کراچی خود آئے اور معمولاً پندرہ دن کراچی میں قیام کیا۔اس دوران چوں کہ میں شعبے میں استاد بن چکاتھا اس لیے ان سے تقریباً روزانہ ہی ملاقاتوں کے سلسلے شروع ہوئے، ان ہی دنوں سوزوکی صاحب نے ایک ملاقات میں مجھے جاپان آنے اور اپنے شعبے سے بحیثیت استاد مجھے منسلک ہونے کی پیش کش کی جسے میں نے قدرے تامل کے بعد، کہ اس منتقلی کے رسمی و قانونی مراحل کی رکاوٹیں سامنے تھیں، میں نے بالآخر رضامندی دے دی، جس پر انھوں نے واپس ٹوکیو جاکر باقاعدہ سرکاری دعوت نامہ مجھے ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز سے بحیثیت استاد منسلک ہونے کی پیش کش کے طور پر بذریعہ ڈاک ارسال کیا، جس پر میں نے اپنی جانب سے جوکچھ ضروری و رسمی اقدامات لازمی تھے انجام دیے۔ بظاہر چند ہی سال پہلے میں کراچی یونیورسٹی ہی سے دوسال کی رخصت لے کر اٹلی گیاتھا، ہمارا دفتری نظام اور ضوابط و قواعد میرے مزید دوسال کے لیے جاپان جانے میں جزبز تھے لیکن اُس وقت کراچی یونیورسٹی میں ڈاکٹر جمیل جالبی شیخ الجامعہ کے طور پر فائز تھے جو مجھ پر مختلف وجوہات کے سبب ہمیشہ سے کرم فرما تے رہے،انھوں کمالِ شفقت سے میرے قیام اٹلی کی شہرتوں کے سبب، کسی نہ کسی طرح جاپان جانے کے لیے اجازت کا انتظام کردیا، جو میرے لیے بڑے اطمینان کا سبب بنا،اور میں یہاں کے رسمی مراحل طے کرکے جاپان روانہ ہوگیا، جہاں بظاہر تو دو سال کے لیے یہاں سے رخصت لے کر گیاتھا لیکن وہاں شعبے کے سارے ہی جاپانی اساتذہ مجھے واپس پاکستان جانے کی اجازت دینے پرکبھی آمادہ نہ رہے، چناں چہ خود میں نے سات سال کے بعد واپسی کو ضروری سمجھا کہ میری اکلوتی بیٹی رمیثہ اب وہاں ٹوکیو میں اپنی پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل کرکے ہائی اسکول میں داخلے کے لیے تیار تھی جس کے لیے میں نے مناسب سمجھا کہ اگلے تعلیمی مراحل بوجوہ اپنے ملک و معاشرے میں مکمل کرنے چاہئیں، اس لیے میں نے سات سال کے بعد بالجبر واپسی کے لیے جاپانی احباب و رفقاء کو راضی کرلیا اور پاکستان واپس آگیا، لیکن واپسی کے بعد جاپانی اساتذہ اور اداروں کی محبتوں اور دعوتوں کے نتیجے میں جاپان جاتا رہتاہوں۔

جاپانی اساتذہ اور ممتاز اسکالرز کے علمی و تصنیفی ذوق و شوق اور جنوبی ایشیا اور اسلام اور پاکستان کے تعلق سے اُن کے مطالعے و تحقیق کے ذوق و جستجو کو دیکھتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ ان موضوعات پر جاپان میں مآخذ اور مواد کی کمی ہے میں نے اپنا ذاتی کتب خانہ ’عقیل کلیکشن‘ جو28 ہزار کتابوں پر مشتمل ہے، وہاں جاپان کی کیوتو یونیورسٹی کے کتب خانے کو ہدیہ کردیا ہے، تاکہ وہاں یہ کتابیں مذکورہ موضوعات پر مطالعات و تحقیقات میں ہمیشہ معان و قابلِ استفادہ رہیں۔

میں سمجھتاہوں کہ پہلے 1986ء میں میرا اٹلی جانا اور پھر چند ہی سال کے بعد مارچ 1993ء میں جاپان جانا میرے لیے ہر اعتبار سے مفید ثابت ہوا ہے اور میری علمی خدمات کے حوالے سے ملک و بیرون ملک میری عزت و شہرت کا سبب بھی بنا ہے۔اور واقعتاً میں سمجھتاہوں کہ ان دونوں مناصب پر میرا فائز ہونا میری جانب سے کسی سفارش، درخواست گزاری یا کسی زور و اثر کے بجائے میرا پابندیِ وقت کا لحاظ رکھنا اور وقت کی پابندی کو اہمیت دینا ہی غیر ملکی ذمے داروں کو میری جانب خود سے متوجہ کرنے اور میرے ساتھ رعایتیں برتنے جیسی میری کامیابیوں کا سبب بناہے، اور میں نے ان دونوں ممالک میں جاکر جو بے پناہ علمی و تہذیبی فوائد حاصل کیے ہیں وہ سب ان ہی صفات کے باعث ہیں۔اس لیے ہمارے بزرگ جو ہمیں ہمیشہ نصیحت کرتے رہے ہیں کہ وقت کی قدر کرو اور وقت ضائع نہ کرو، یہ اقوال کس حد تک مفید و حیات بخش ہیں، میری یہ سطور اس کی ایک واضح مثال ہیں۔