سندھ میں معدوم ہوتا ہوا معاشرتی احتساب

معروف کالم نگار سعید رڈ نے بروز ہفتہ 13 جولائی 2024ء کو اپنے زیرنظر کالم میں، جو کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’پنھنجی اخبار‘‘ کراچی میں شائع ہوا ہے، اہلِ سندھ کو درپیش جن اہم معاشرتی اور سماجی مسائل کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے اُس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دل چسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

’’ہم آئے دن یہ سنتے رہتے ہیں کہ ملک میں انصاف نہیں ہے، اور کہا یہ جاتا ہے کہ پولیس کرپٹ، عدلیہ کرپٹ، سیاست دان کرپٹ، نوکر شاہی کرپٹ، یہاں تک کہ جن اداروں کو کرپٹ افراد کو پکڑنے کا کام دیا گیا ہے، یعنی اینٹی کرپشن اور قومی احتساب کے سب سے بڑے ادارے نیب پر بھی کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ بالکل برحق، یہ سب بہ قول استاد قائم رڈ کے، نیکڈ ٹرتھ (Naked Truth)یا ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن میرا آج کا موضوع اس تمام ریاستی کرپشن کو زیرِ بحث لانا نہیں ہے، بلکہ میں تو آج سندھ کے اندر معدوم ہوجانے والے معاشرتی احتساب پر بات کرنا چاہتا ہوں جس نے اتنی مایوسی اور ناامیدی کا ماحول پیدا کردیا ہے کہ ایک عام انسان کے لیے تو سندھ میں رہنا ایک طرح سے بالکل ہی اجیرن ہوگیا ہے۔ میری رائے میں پولیس، عدالتیں اور دیگر ادارے انصاف کرنا چھوڑ دیں تو بلاشبہ یہ ایک اہم اور بڑا مسئلہ ہے، لیکن کسی بھی معاشرے کا اس سے بھی کہیں بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب سماج خود بھی انصاف کرنا ترک کردے، مطلب یہ کہ معاشرہ کرپٹ، ٹھگ، چور، دھوکے باز اور چال باز افراد کو برا سمجھ کر ان سے نفرت کرنے کے بجائے جب ان کو عزت اور احترام دینا شروع کردے اور بچے بڑے ہوکر علم حاصل کرکے بدعنوان، چوراور ٹھگ ہونے کے خواب دیکھنے لگ جائیں تو ایسی صورت میں یہ سمجھنا ناگزیر ہوجائے گا کہ اس طرح کا معاشرہ یا سماج اپنے زوال اور پستی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔

معاشرے کے اندر برائی اور اچھائی کی شناخت، اور برائی سے نفرت، اچھائی کی قدر کرنا معاشرے کے اندر ایک فلٹر کا کام کرتا ہے اور برائی کی اہمیت کو کم کرتا ہے اور لوگوں کو اچھائی کی جانب مائل کرتا ہے۔ پولیس، عدالتیں اور ادارے خواہ انصاف کریں یا نہ کریں، اگر کسی معاشرے میں تاحال برائی اور اچھائی کے پیمانے یا معیار موجود ہے تو کوئی بھی غلط کام کرنے سے پیشتر ہر آدمی بارہا یہ سوچے گا کہ یار! اگر لوگوں کو میرے اس غلط فعل کی خبر ملے گی تو اس صورت میں میری بے عزتی اور سبکی ہوگی، لوگ مجھے اس کی وجہ سے مطعون کریں گے۔ لیکن جب معاشرے میں خبر ملنے کے باوجود بھی کرپٹ اور چور فرد کی عزت اور توقیر ہوگی تو ظاہر ہے کہ ایسے میں بدعنوان اور چور کا حوصلہ مزید بڑھ جائے گا اور وہ سوچے گا کہ میں اس غلط کام سے بھی بڑھ کر کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دوں تاکہ میری عزت اور توقیر میں مزید اضافہ ہوسکے۔ اس پر مستزاد اپنی بدعنوانی اور چوری کو چھپانے کے بجائے وہ سماجی روابط کی ویب سائٹس مثلاً فیس بک، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک وغیرہ پر بھی اس کی تشہیر کرے گا جس سے اس کا مقصود یہ ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خبر پڑے اور مجھے مزید داد ملے، معاشرے کے دیگر لوگ یہ سمجھیں کہ بھئی! اس کا تو بڑا اثر رسوخ ہے، اور پھر زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے غلط امور میں مدد کے لیے اس سے رابطے میں آسکیں۔ بدقسمتی سے آج ہمارے سندھ کے معاشرے میں بالکل اسی طرح کی صورتِ حال درپیش ہے۔ بہ قول استاد شمس رڈ کے، اب ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا مقصدِ عظیم بھی ماسوائے اس کے اور کچھ نہیں رہ گیا ہے کہ ہم اس کے توسط سے کوئی ایسی عمدہ پوسٹ یا ملازمت حاصل کرسکیں جس کی وجہ سے ’’ہماری پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں‘‘ ہوسکے۔ آج ہمارے شاگردوں کا رول ماڈل علامہ آئی آئی قاضی یا اُن جیسے اساتذہ کرام اور محقق نہیں رہے ہیں، بلکہ ان کے رول ماڈل تو کرپٹ انجینئر اور بینکر، یا پھر کرپٹ کامورے (بیوروکریٹس اور انتظامیہ کے دیگر افسران) از قسم مختار کار، ڈی ایس پی، ایس پی، کمشنر، ڈی کمشنر، ٹی ایم او آفیسر، یہاں تک کہ تپیدار (پٹواری) اور کلرک بن چکے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں نے ایک گوٹھ کے اسکول کے بچوں سے پوچھا تھا کہ آپ بڑے ہوکر کیا بننا پسند کریں گے؟ تو بچوں کی اکثریت نے جواب دیا تھا کہ سائیں! کلرک۔

بچوں کا بھی بھلا کیا قصور! وہ معاشرے میں اپنے آس پاس جو کچھ ہوتا دیکھیں اور سنیں گے، پھر خواب بھی وہ اسی طرح کے دیکھیں گے۔ جب گوٹھ میں ایک بدعنوان کلرک بھی بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومے گا، بڑے بڑے سیاست دانوں اور انتظامی افسران کا اُس کے ہاں آنا جانا ہوگا اور وہ لوگوں کے چھوٹے بڑے کام کرواتا ہوا نظر آئے گا تو پھر بھلا بچے کیوں ایک کلرک ہونے کا خواب نہیں دیکھیں گے! ایک دور ہوا کرتا تھا جب کرپٹ، چور اور ٹھگ کو سارا معاشرہ برا سمجھ کر حقارت کی نظر سے دیکھا کرتا تھا۔ اگر کسی گوٹھ میں کوئی چوری کرتا ہوا پکڑا جاتا تھا تو اس چور کو گوٹھ سے بے دخل کردیا جاتا تھا جو معاشرتی احتساب کی ایک بڑی مثال تھی۔ آہستہ آہستہ کرپشن بڑھتی چلی گئی اور معاشرے میں بھی اس کی قبولیت بڑھتی گئی۔ نوبت بہ ایں جارسید کہ اب تو ہمارے ہاں چور نے چوری کرتے ہوئے اور بدعنوان فرد نے کرپشن کرتے ہوئے شرمانا تک چھوڑ دیا ہے، اور سندھ میں بڑی دیدہ دلیری اور بے شرمی کے ساتھ کرپشن بڑے زور شور کے ساتھ جاری ہے اور اسے ایک طرح سے گویا اپنا حق سمجھا جانے لگا ہے۔ اگر کسی کرپٹ بیوروکریٹ یا افسر وغیرہ سے جب یہ کہا جائے کہ ’’کچھ شرم و حیا کرو اور غریبوں کا احساس کرو‘‘، تو یہ جواب ملتا ہے ’’ہمارے بھی تو بچے ہیں، آخر ہمیں ان کے لیے بھی تو کچھ کرنا ہے‘‘۔ ان بدعنوان افسران سے کوئی پوچھے کہ تمہارے شکم آخر کتنے بڑے ہیں اور وہ کب بھریں گے؟ سارا ملک تو تم نے ہڑپ کرلیا ہے پھر بھی شکم سیر نہیں ہوسکے؟

جمہوریت کا بنیادی اصول ہی درحقیقت معاشرتی احتساب پر استوار ہے۔ منتخب عوامی نمائندوں کا جو سرکاری بجٹ ہوتا ہے اور جو عوام ہی کا پیسہ ہوتا ہے اُس کا حساب لیا جائے گا، اور یہ حساب ظاہر ہے کہ عوام ہی لیںگے، اور عوامی نمائندے بھی عوامی امور کے لیے عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اس طرح سے ملک و قوم کی بھلائی اور فائدہ ہوتا ہے، اس لیے یہ عمل بے حد ضروری ہے۔ ریاستی قانون کے مطابق عوام کا کام عوامی نمائندوں کو جواب دہ بنانا ہے، اور عوامی نمائندوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوکر شاہی کو جواب دہ بنائیں۔ لیکن جہاں تک معاشرتی احتساب کی بات ہے تو عوام اپنے بیوروکریٹس کا بھی معاشرتی احتساب کرسکتے ہیں۔ بدعنوان بیوروکریٹس اور چوروں کو اگر عوام عزت دینے کے بجائے ان کا احتساب کریں تو کرپشن کو کنٹرول کرنے میں بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے۔

جمہوریت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عوام ووٹ دینے کے بعد پانچ برس کے لیے خوابِ غفلت میں کھو جائیں اور دوبارہ پھر الیکشن کے موقع پر ہی بیدار ہوں، اور ووٹ کا استعمال کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر سو جائیں اور سب کچھ نوکر شاہی اور سیاست دانوں پر ہی چھوڑ دیا جائے کہ وہ جس طرح سے چاہیں ملک کو لوٹیں، کھسوٹیں اور موج مستیاں کرتے پھریں۔ کرپشن کا سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہی ہوتا ہے۔ جب تک عوام کو پروا اور فکر لاحق نہیں ہوگی اور وہ اپنے سیاست دانوں اور نوکر شاہی کے افسران کا معاشرتی حساب کتاب یا محاسبہ نہیں کریںگے اُس وقت تک یہ نقصان دہ بدنما نظام اسی طرح سے جاری و ساری رہے گا۔ آپ نے اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر یہ خبر ضرور پڑھی اور سنی ہوگی کہ ’’سندھ کے یو سی چیئرمینوں پر قسمت کی دیوی مہربان! ہر یو سی کو 80 لاکھ روپے اور ضلع کونسل کے ممبر کو 20 لاکھ روپے ترقیاتی کاموں کے لیے ریلیز‘‘۔ خبر کا ٹائٹل ہی بتارہا ہے کہ گویا یہ پیسے یو سی چیئرمینوں اور ضلع کونسل کے ممبرز کو ذاتی خرچہ پانی (چائے پانی) کے لیے ملے ہیں۔ یہاں پر آن کھڑا ہوتا ہے معاشرتی احتساب کا معاملہ۔ معاشرہ جب یہ امر قبول کرلے گا کہ اسی طرح سے ہے اور یہ سب کچھ جائز اور روا ہے تو پھراسی طرح سے سارا سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔ ہمیشہ یو سی چیئرمین اور ضلع کونسل کے ارکان ان پیسوں کو عوام کی امانت سمجھنے کے بجائے ذاتی مال سمجھ کر خرچ کرتے رہیںگے۔

یہاں پر آتا ہے عوام کی جانب سے معاشرتی احتساب کی ذمہ داری کا معاملہ… جس میں بے حد افسوس ناک بات ہے کہ اہلِ سندھ یکسر ناکام ثابت ہوئے ہیں، کیوں کہ سندھ کے عوام نے تاحال اس پیسے کو اپنا پیسہ سمجھا ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پبلک پراپرٹی اور سرکاری مال کو لوٹ کا مال سمجھ کر لوٹا جاتا ہے اور عوام خود بھی چھوٹی چھوٹی چوریاں کرکے خاموش ہیں۔ کوئی بجلی چور ہے، کوئی ڈیوٹی چور… کوئی روڈ کی اینٹیں نکال لے جاتا ہے اور کوئی اسکول کا سولر چرا کر غائب ہو جاتا ہے اور کوئی سرکاری اسپتال کی دوائیں۔ مطلب یہ کہ جسے جہاں موقع ملتا ہے، سرکاری مال ہڑپ کرلینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔

اگر سندھ کو آگے بڑھانا اور عروج اور ترقی سے ہم کنار کرنا ہے تو اہلِ سندھ کو اپنے روّیوں میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔ پبلک پراپرٹی اور سرکاری مال کو لوٹ کا مال سمجھنے کے بجائے اسے عوام کی مشترکہ ملکیت سمجھناہوگا، اور پبلک پراپرٹی اور سرکاری ملکیت کی بھی اسی طرح سے نگہبانی اور حفاظت کرنی پڑے گی جس طرح سے ہم اپنی ذاتی پراپرٹی کی حفاظت کیا کرتے ہیں۔ جو سرکاری اسکول، اسپتال، روڈ راستوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچاتا ہے اور سرکاری خزانے میں کرپشن کرتا ہے وہ دراصل ہمارے گھر کے ساتھ بدعنوانی اور اس پر اپنا ہاتھ صاف کرتا ہے جسے ہرگز برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ جب سندھ میں یہ سوچ پیدا ہوگی تو پھر سندھ کے اندر معاشرتی احتساب بھی ناگزیر ہو جائے گا، پھر کسی یو سی چیئرمین، ضلع کونسل کے کسی ممبر، کسی ایم پی اے اور ایم این اے کی یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ سرکاری بجٹ میں ملنے والے پیسوں کو اپنا ذاتی مال سمجھ کر ہڑپ کرے۔‘‘