کراچی میں بجلی اور پانی کا بحران

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور اقتصادی حب، گزشتہ کئی دہائیوں سے بجلی اور پانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ یہ مسائل کسی ایک علاقے تک محدود نہیں بلکہ پورے شہر میں پھیلے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بجلی کا بحران ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ ریاست، حکومت اور ادارے کراچی کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ شہر بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ کے الیکٹرک جو شہر کو بجلی فراہم کرنے والی واحد کمپنی ہے، اس پر لوڈشیڈنگ، بجلی چوری اور خراب انتظامی حکمت عملیوں کے الزامات زبان زدِ عام ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک صرف مال بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کی تکلیف اور مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ ناظم آباد، لیاقت آباد، گلشن اقبال، لانڈھی، کورنگی اور دیگر علاقوں میں روزانہ کئی گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ معمول بن چکی ہے، اور جہاں لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی ہے وہاں بھی مختلف بہانوں سے بجلی منقطع کرنا روز کا معمول ہے، جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور شہریوں کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے۔

شہر میں پانی کا بحران بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ شہریوں کو پانی کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لیاقت آباد اور ناظم آباد کے مکینوں نے حالیہ دنوں میں پانی کی عدم فراہمی کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے، مظاہرین کا کہنا تھا کہ دس روز سے علاقے میں پانی کی فراہمی معطل ہے اور افسران کی یقین دہانیوں کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہورہا۔ پانی کے بحران کی ایک بڑی وجہ ٹینکر مافیا ہے جو سندھ حکومت، واٹر بورڈ اور دیگر اہم اداروں کے ساتھ ملی بھگت سے کام کرتا ہے۔ یہ مافیا شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی فراہمی کو روکتا ہے تاکہ شہری مہنگے داموں ان سے پانی خریدنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس مافیا کے ذریعے عوام کو مالی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والا پیسہ مختلف اداروں اور حکومتی افراد میں تقسیم ہوتا ہے۔

کراچی میں بجلی اور پانی کے بحران کے خلاف مظاہرے اور احتجاج روز کا معمول بن چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں لیاقت آباد اور ناظم آباد کے شہریوں نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف بھی احتجاج کیا۔ مظاہرین نے سڑکیں بلاک کردیں اور حکومتی اداروں کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک پانی اور بجلی کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جاتی، ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ کراچی میں بجلی اور پانی کے بحران کا حل مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اس کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کو سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ہوتا یہ ہے کہ وقتی طور پر مظاہرین کو مطمئن کردیا جاتا ہے، کچھ دن کے لیے پانی اور بجلی کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے لیکن پھر چند دنوں بعد لوگ پانی کی بوند بوند اور پنکھے کی ہوا کو ترس رہے ہوتے ہیں۔

بجلی کی فراہمی میں بہتری لانے کے لیے کے الیکٹرک کو اپنی انتظامی حکمت عملیوں کو بہتر بنانے پر مجبور کرنا حکومت کا کام ہے، مگر کے الیکٹرک جو ریاست کے اندر ریاست بنی ہوئی ہے کچھ کرنے کو تیار نہیں، اور لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ٹیرف میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے اس مسلسل ظالمانہ اضافے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”بجلی کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لیا جائے اور بجلی کے سلیب سسٹم کا خاتمہ کیا جائے، فارم 47کی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے مسلسل مہنگائی میں اضافہ کررہی ہے، جماعت اسلامی بجلی ٹیرف میں اضافے کو مسترد کرتی ہے، عوام کو ریلیف دینے کے بجائے مزید مشکلات میں دھکیلا جا رہا ہے اور آئی پی پیز کو نواز کر عوام کا معاشی قتل کیا جارہا ہے، شہری پہلے ہی 18گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ سے شدید پریشان ہیں دوسری جانب ہر ماہ بجلی کے بلوں میں اضافے سے عوام خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔حکمراں اپنی عیاشیوں کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لے رہے ہیں اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہے ہیں،اگر فارم 47 کے حکمران عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے تو استعفیٰ دیں اور گھر جائیں۔“

حکومت کو پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا اور ٹینکر مافیا کے جھنجٹ سے شہر کو عوام کو نجات دلانا ہوگی، اس کے ساتھ حکومت کو بجلی اور پانی کے نئے منصوبے شروع کرنے ہوں گے تاکہ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جاسکیں، ورنہ لگتا ہے شہر میں شروع ہونے والا احتجاج مستقبل میں کسی بڑی تحریک کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

اس وقت کراچی میں صرف بجلی اور پانی کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ بے حال اور بدحال کراچی اس وقت انتظامی مسائل کے لحاظ سے بدترین صورتِ حال سے گزر رہا ہے، لوگ سوچتے اور کہتے ہیں کہ کیا اس کی صورتِ حال بدلے گی…؟ شہر کو بدلنے اور اس کی حقیقی روشنیاں بحال کرنے کے لیے اسے اس کے حقیقی نمائندوں کو سونپنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ شہر اور اس کے لوگ اسی طرح بے یارو مددگار رہ کر مشکل حالات کے ساتھ جیتے رہیں گے اور کچھ نہیں بدلے گا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاشرتی و سماجی تاریخ میں کئی ایسی نظیریں موجود ہیں کہ جب کسی خاص جگہ ناانصافی، ظلم و زیادتی بڑھ جائے تو وہاں سے ردعمل بہت شدت کے ساتھ اور غیرمنظم آتا ہے جسے ریاستوں کے لیے سنبھالنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ملک میں کچھ سوچنے، سمجھنے اور غور و فکر کرنے والے لوگوں کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ سوچنا ہوگا۔