ڈوگرہ حکمرانوں سے تو کشمیریوں کو نجات مل گئی مگر بھارت ایک نئے سامراج کی صورت میں سامنے آیا
13جولائی کو دنیا بھر کے کشمیری 1931ء کے شہدا کی یاد مناتے ہیں۔ وہ شہدا جنہوں نے ڈوگرہ استبداد کے خلاف اپنی جانیں قربان کرکے کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کی عمارت کی خشتِ اوّل رکھی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشمیر پر ڈوگرہ خاندان کی حکمرانی تھی۔
ڈوگروں نے کشمیر کو 75 لاکھ نانک شاہی میں خریدا تھا، اور اس ذہنیت کے ساتھ وہ کشمیر کے شجر وحجر اور ڈھور ڈنگر کو ہی نہیں، انسانوں کو بھی اپنا زرخرید سمجھتے تھے۔ کشمیری مسلمان ڈوگرہ حکمرانی میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ گئے تھے۔ ان کے لیے نوکریوں کے مواقع تھے، نہ انہیں تعلیم کی سہولت حاصل تھی۔ مہاراجا حکومت آئے روز ٹیکس نافذ کرکے مسلمانوں کو ذہنی اور معاشی اذیت میں مبتلا کررہی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ڈوگرہ حکمرانوں کی چیرہ دستیاں بڑھتی جارہی تھیں اور اب معاملہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت اور دینی شعائر کی توہین تک پہنچ چکا تھا۔ اس دوران جموں میں خطبہ ٔ عید کی بندش کا واقعہ ہوا۔ جب عید کے اجتماع میں امام صاحب موسیٰ اور فرعون کا واقعہ بیان کررہے تھے تو ڈوگرہ حکومت کے اہلکاروں نے اسے مہاراجا کے خلاف علامتی گفتگو قرار دے کر خطبہ بند کرنے کا حکم دیا۔ ان کے خیال میں امام صاحب مہاراجا کو فرعون سے تشبیہ دے کر اشاروں کنایوں میں گفتگو کررہے ہیں۔ جموں میں خطبۂ عید کی بندش کے اس واقعے نے پوری ریاست میں مسلمانوں میں اشتعال پیدا کیا۔ اسی دوران جموں کے ہی ایک علاقے میں توہینِ قرآن کا واقعہ ہوا۔ ان واقعات کے خلاف جب کشمیری مسلمانوں نے صدائے احتجاج بلند کی تو ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنے خلاف تقریر کی پاداش میں ایک نوجوان عبدالقدیر کو گرفتار کرلیا۔ مؤرخین وثوق کے ساتھ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ حقیقت میں عبدالقدیر کون تھا؟ بعض مؤرخین کے خیال میں عبدالقدیر خان کشمیری نہیں تھا بلکہ سرحدی صوبے کا ایک خانساماں تھا جو کسی انگریز افسر کے ساتھ کام کرتا تھا۔ کشمیری مسلمانوں کی حالتِ زار نے اُسے جذباتی کیا اور اُس نے کشمیریوں کے ایک اجتماع میں پُرجوش تقریر کی۔ عبدالقدیرنے کشمیری مسلمانوں کو بتایا کہ ڈوگرہ حکمران مطالبات سے انہیں حق نہیں دیں گے بلکہ انہیں اس حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا اور ڈوگرہ حکمرانوں کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجانا ہوگی۔ اس تقریر کی بنا پر ڈوگرہ حکمرانوں نے عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ قائم کیا۔ اس مقدمے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ اس سماعت کو سننے کے لیے ہزاروں کشمیری سینٹرل جیل سری نگر کے سامنے جمع ہونے لگے۔ عبدالقدیر کی گرفتاری کے مقدمے کی کارروائی سننے کے لیے جب 13 جولائی 1931ء کو کشمیریوں کی بڑی تعداد سری نگر سینٹرل جیل کے سامنے جمع تھی تو ڈوگرہ حکمرانوں نے ہجوم پر گولی چلادی۔ پُرامن اور نہتے لوگ تڑپ تڑپ کر جانیں دیتے گئے، یوں 22 بے گناہ افراد ڈوگرہ استبداد کا شکار ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد عوام کے سروں پر تنی ڈوگرہ حکمرانوں کے خوف کی چادر میں چھید ہونے لگے۔ کشمیری مسلمان جو پہلے بیٹھکوں میں بیٹھ کر ڈوگرہ استبداد کے خلاف بات کرتے تھے اب کھل کر مظالم کے خلاف بولنے لگے۔ کشمیری مسلمانوں میں بیداری اور جدوجہد کا ایک نیا اور شاندار دور شروع ہوگیا۔ اس واقعے کے دوسرے سال ہی کشمیری مسلمانوں نے جدوجہد کو سماجی کے بجائے سیاسی رنگ دینے اور اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے ایک سیاسی جماعت تشکیل دی جس کے صدر شیخ محمد عبداللہ اور سیکرٹری جنرل چودھری غلام عباس بنائے گئے۔1931ء کے شہدا کی برسی منانا ایک رسم وروایت بن گئی اور پبلک جلسوں میں اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جانے لگی۔ ظلم کے اس واقعے کو ڈوگرہ حکمرانوں نے اپنی دھاک بٹھانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی تھی، مگر نتیجہ اس کے برعکس برآمد ہوا اور ڈوگرہ حکمرانوں کا خوف عوام کے ذہنوں سے محو ہوتا چلا گیا، اور مہاراجا کا تخت لرز اٹھا۔ بے گناہوں کے خون کا کمال تھا کہ اُس کے بعد سے ڈوگرہ حکمرانوں کو سُکھ کا سانس نصیب نہیں ہوا۔ یہ جدوجہد آگے بڑھتی چلی گئی اور 1947ء میں ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔
بدقسمتی یہ ہوئی کہ ڈوگرہ حکمرانوں سے تو کشمیریوں کو نجات مل گئی مگر بھارت ایک نئے سامراج کی صورت میں سامنے آیا۔ بھارت نے کشمیرکو ہر قیمت پر ہتھیانے کا رویہ اپنالیا، جس سے معاملات الجھتے چلے گئے، کشمیر دوحصوں میں تقسیم ہوگیا، کشمیریوں کے دکھ ختم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ 76 برس گزرنے کے باوجود کشمیری عوام آزادی اور حقِ خودارادیت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ گزشتہ سینتیس سال سے کشمیری مسلمان پوری قوت سے برسرِ میدان کھڑے ہیں اور بھارت انہیں اپنا مطیع وفرماں بردار بنانے کے لیے لاکھ جتن کررہا ہے۔ شہدائے کشمیر نے جدوجہدکی جو راہ متعین کی تھی کشمیری عوام آج بھی اُس پر چل رہے ہیں۔ 5 اگست2019ء کے بعد بھارتی حکومت نے یوم شہدائے کشمیر منانے پر پابندی عائد کردی، جس کا مقصد ہندو مہاراجا کے بارے میں مسلمانوں کو اپنے جذبات کے اظہار سے روکنا تھا۔ یہ ہندوتوا سوچ کی عکاسی تھی۔ اب سری نگر کشمیر میں اس دن تقریب تو منعقد نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ مزارِ شہدا پر 13 جولائی کے شہدا کی قبروں پر پھول چڑھا کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری بھی یہ دن اس عزم کے ساتھ مناتے ہیں کہ شہدائے کشمیر کے لہو سے منور ہونے والے چراغ کی لوکو مدھم نہیں ہونے دیا جائے گا۔
وادیِ کشمیر میں اس وقت انسانی لہو پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ ٹین ایجر نوجوان گلی کوچوں میں بھارتی فوج کے آگے اس جرأت کے ساتھ سینہ تان کر کھڑے ہورہے ہیں کہ خود بندوق کی لبلبی پر دبی اُنگلی اور ہاتھ پر کپکپاہٹ طاری ہورہی ہے۔ بھارت کو اس جذبے سے خوف آنے لگا ہے۔ اس خوف کا علاج بھارت نے پانچ اگست کے یک طرفہ فیصلے سے کرنے کی کوشش کی جب کشمیر کی خصوصی شناخت کو ظاہر کرنے والی علامتوں کو ختم کرکے اسے دوحصوں میں
تقسیم کیا گیا اور یونین ٹیریٹری کا درجہ دے کر ریاست کے مزید حصے بخرے کرنے کی کوشش کی گئی۔ دنیا نے بھارت کے اس فیصلے پر مجموعی طور پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور اس کے بعد سے یہ خطہ ایک نئی آویزش کا مرکز بن گیا۔ پاکستان اور بھارت کی مخاصمت کے ساتھ چین کے غم وغصے کا اضافہ ہوگیا اور یہ کشیدگی اب بھی جاری ہے۔ تین ایٹمی طاقتوں کے درمیان کشمیر ایک فلش پوائنٹ کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی، عالمی اداروں اور طاقتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لیں اور کشمیریوں کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل کا ٹائم فریم مقرر کریں، بصورتِ دیگر جنوبی ایشیا امن اور استحکام کو یونہی ترستا رہے گا۔