سائنسی اور تیکنیکی انقلاب نے مغرب میں تبدیلیوں کی رفتار کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ بچا کھچا ماضی زندگی سے ازخود منہا ہوگیا ہے۔
یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ مستقبل اُسی کا ہے جس کا کوئی حال ہو۔ جس کا کوئی حال نہیں اُس کا مستقبل بھی نہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری دنیا مغرب کی دنیا ہے، چنانچہ حال مغرب کا ہے تو مستقبل بھی مغرب ہی کا ہوگا۔ اس تناظر سے مغربی دنیا میں اگر مستقبل بینی اور مستقبل پرستی کا رجحان بڑھ رہا ہے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ لیکن مسئلہ اتنا سیدھا سادا نہیں ہے۔
مغرب میں مستقبل بینی کا رجحان چالیس پچاس سال پہلے ایک فکری مشغلے کے طور پر شروع ہوا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس نے ایک علم کی حیثیت اختیار کرلی اور مغرب میں کہا جارہا ہے کہ اس علم کے سائنسی بننے میں زیادہ دیر نہیں۔ کسی چیز کا سائنس بن جانا مغرب میں ترقی کی آخری معراج ہے۔ مغرب کی سائنس دراصل ایک طرح کی ’’سیکولر مذہبیت‘‘ ہے۔ جس طرح ہم کہتے ہیں کہ یہ بات قرآن اور حدیث میں ہے اور اس پر بات نہیں ہوسکتی ، اسی طرح اہلِ مغرب فرماتے ہیں کہ یہ بات تو سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے، اس پر بات کی گنجائش نہیں۔ خیر یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ مستقبل بینی اور مستقبل پرستی کے رجحان کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں مستقبل بینی کے ادارے قائم ہوگئے ہیں، وہاں اس موضوع پر متعدد رسائل و جرائد شائع ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں کتب کی بھرمار ہوگئی ہے۔ غالبیات اور اقبالیات کی طرح مستقبلیات کے ہزاروں ماہرین پیدا ہوگئے ہیں، اور ان تمام حالات سے ازخود ظاہر ہے کہ مغرب میں مستقبل تیزی سے ’’فروخت‘‘ ہونے والی شے بن چکا ہے۔ اگر ہمیں اس امر سے دلچسپی ہے کہ مستقبل ہمارے لیے کیا نہیں لائے گا تو مغرب کے لوگوں کی دلچسپی کا محور یہ ہے کہ مستقبل ان کے لیے کیا لانے والا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ دہائیوں کو ’’پھلانگا‘‘ جارہا ہے، صدیوں کے آنگن میں ’’جھانکا‘‘ جارہا ہے، یہاں تک کہ ایک ہزار سال کو تاڑنے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جا رہی۔ اہلِ مغرب سائنس فکشن اور سماجیات کو ایک دوسرے کا بھائی بہن بنادیں گے، اس کا پچاس سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یہ بہن بھائی حقیقی ہیں یا محض دودھ شریک، اس بارے میں تو ہمیں کچھ معلوم نہیں، لیکن اتنا ضرور اندازہ ہے کہ مغربی دنیا کی مستقبل بینی اور مستقبل پرستی کی دال میں کالا ہے۔
یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ ایک جانب مغرب میں مستقبل بینی اور مستقبل پرستی عروج پر ہے اور دوسری جانب مغرب میں مغربی تہذیب کے زوال کی صداؤں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ اشپنگلر، ٹوائن بی، سوروکن، رینے گینو… غرضیکہ مغرب کا کون سا بڑا آدمی ہے جو مغربی تہذیب کے مستقبل سے ناامید نہیں! ایلون ٹوفلر صاحب بہت چھوٹے آدمی ہیں مگر ان کی اہمیت یہ ہے کہ وہ ان سب لوگوں کے بعد آئے ہیں اور ہنوز زندہ ہیں۔ اگرچہ ان کا خیال ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو بحران پیدا کیا ہے اس پر سائنس اور ٹیکنالوجی بالآخر قابو پالیں گی۔ لیکن یہ بات تو وہ بھی فرماتے ہیں کہ ہماری تہذیب ایک ایسی راہ پر سفر کررہی ہے جس پر مکمل تباہی اس کی منتظر ہے۔ اب منظر یہ بنتا ہے کہ ایک جانب مغربی تہذیب کے دم توڑنے اور فنا ہوجانے کی پیش گوئیاں ہیں اور دوسری جانب مستقبل بینی اور مستقبل پرستی کا جنون ہے۔ دیکھا جائے تو ان باتوں میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے، سوائے اس کے کہ مغربی دنیا کی مستقبل بینی اور مستقبل پرستی پر زوالِ مغرب کی پیشگوئیوں کا گہرا اثر ہے، اتنا گہرا اثر کہ اس حوالے سے تلافی یاcompensation کی نفسیات پوری طرح بروئے کار نظر آتی ہے۔ مغرب کے زوال کی پیشگوئیاں اگر کہیں اور سے آئی ہوتیں تو پھر بات اور ہوتی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئیاں مغرب کے تجربے، اس کے ذہن اور اس کے بحران سے پیدا ہوئی ہیں، اور پیشگوئیاں کرنے والے صحافی یا سیاست دان نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہیں مغربی فکر کے اہم لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی فکر نے ایک طرح کی کشش ثقل پیدا کی ہے جس سے بچنا اور جان چھڑانا مغربی دنیا کے لوگوں کی ایک نفسیاتی ضرورت ہے۔ تاہم اس مسئلے کا ایک اور اہم پہلو ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ مغربی دنیا کے اہم ترین لوگوں نے زوالِ مغرب کی پیشگوئیاں کی ہیں لیکن عمومی اعتبار سے دیکھا جائے تو مغربی دنیا میں ان پیشگوئیوں کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ مغرب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے خود مغرب کیا، پوری دنیا پر جادو کیا ہوا ہے۔ مغرب اقتصادی خوشحالی کی علامت ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے زوال کی بات ایک لطیفہ معلوم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں عام لوگوں کو زوال کا کوئی ’’شعوری اندیشہ‘‘ لاحق نہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ ہے، سرمایہ داری اور مارکسزم کو ایک دوسرے کی ضد قرار دیا گیا ہے، لیکن سرمایہ داری اور اشتراکیت کی جنگ دو دشمنوں کی نہیں، دو سگے بھائیوں کی جنگ تھی، ایسے سگے بھائیوں کی جنگ جن کے مابین جائداد کی ملکیت نے جھگڑا کھڑا کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر اختلافات اور تصادم کے باوجود مغربی تہذیب مارکس کے اس تصور پر ایمان رکھتی ہے کہ پیداوار کے ذرائع کو معاشرتی ڈھانچے کی فراہمی اور تبدیلی کے سلسلے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ چونکہ مغربی دنیا اس تصور پر ایمان لے آئی ہے اور چونکہ اسے معلوم ہے کہ اس کے پاس بہترین ذرائع پیداوار ہیں، اس لیے اسے عمومی سطح پر زوال کا بھی کوئی خوف نہیں ہے، بلکہ اِس کے برعکس اس کا ایمان ہے کہ ذرائع پیداوار نے اسے جس عروج سے ہم کنار کیا ہے اس کا سلسلہ برقرار رہے گا اور یہ ایک دائمی صورتِ حال ہوگی۔ ظاہر ہے کہ تہذیبوں اور معاشروں کے عروج و زوال کا پیمانہ اگر ذرائع پیداوار ہیں تو پھر مغرب سے زیادہ مستقبل پرست کسی کو نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ اس کے پاس جو آلات ہیں کسی کے پاس نہیں، اور نہ کسی کو ایسے آلات مہیا ہونے کا امکان ہے۔ لیکن مغرب کی مستقبل بینی اور مستقبل کا ایک حوالہ اور بھی ہے۔
اگرچہ یہ فقرہ بہت سنسنی خیز ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ مغربی دنیا اجتماعی طور پر اپنے ماضی کو قتل کرچکی ہے۔ یہ بات تہذیبی اور فکری انحراف کے مفہوم ہی میں نہیں، ہر اعتبار سے درست ہے۔ ایک اعتبار سے ماضی، حال اور مستقبل ایک اکائی ہیں۔ لیکن ایک اور لحاظ سے ان کی حیثیت نفسیاتی اور جذباتی ابعاد (Dimentions) کی ہے۔ مغرب نے ان ابعاد میں سے ماضی کے بعد یا Dimention کو اپنی زندگی سے تقریباً خارج کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توجہ کا حال اور مستقبل پر مرکوز ہوجانا سمجھ میں آتا ہے۔
مغرب میں ادب کے زوال کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کہی گئی ہیں۔ ان بڑی بڑی باتوں میں ایک چھوٹی سی بات یہ بھی ہے کہ مغرب میں ’’یاد‘‘ کا انتقال ہوگیا ہے اور تخلیقی عمل کا یاد سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ہر معاملہ اور ہر صورتِ حال ایک مسئلہ اور ایک عارضہ ہے جس کا علاج ضروری ہے تو پھر حقیقی معنوں میں یاد کا پیدا ہونا دشوار ہے، اور اس صورتِ حال میں یاد ہوگی بھی تو وہ محض یاد کا سایہ ہوگی۔ پھر یہ مسئلہ اپنی جگہ اہم ہے کہ سائنسی اور تیکنیکی انقلاب نے مغرب میں تبدیلیوں کی رفتار کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ بچا کھچا ماضی زندگی سے ازخود منہا ہوگیا ہے۔ مغرب کی مستقبل پرستی میں ایک پہلو امیج اور تصور سے بھی متعلق ہے۔ دراصل اہلِ مغرب نے مستقبل کے جملہ حقوق ’’بحق مغرب‘‘ محفوظ کرا لیے ہیں۔ مغرب نے اپنے مستقبل کے جملہ حقوق اگر اپنے نام کرا لیے ہیں تو اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اہلِ مغرب اتنے خود مرتکز ہوچکے ہیں کہ اُن کے نزدیک دنیا اور انسانیت کے مستقبل سے مراد اُن کا اپنا مستقبل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مستقبل (بظاہر) بڑا تابناک ہے اور اس سے ایک والہانہ تعلق ہونا ہی چاہیے، لیکن اہلِ مغرب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کا مستقبل دنیا کے مستقبل سے الگ تھلگ قیلولہ نہیں فرما سکتا۔ تیسری دنیا اگر ڈوبے گی تو مغرب بھی بچ نہیں سکے گا۔ لیکن اہلِ مغرب اگر اس بات کو جانتے بھی ہیں تو اسے بھول جانا چاہتے ہیں۔