عدالت ِعظمیٰ کا ’’تاریخی فیصلہ‘‘سیاسی بحران اور نئی پیچیدگیاں

سپریم کورٹ نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے مخصوص نشستوں پر فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کردی ہے۔ سپریم کورٹ سے اس کے 12 جولائی کے فیصلے پر حکمِ امتناع جاری کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ عدلیہ کے فیصلے پر تحریک انصاف خوش ہے، اور اس کی قانون دان قیادت مطمئن ہے، تاہم معاملہ سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ ہے۔ سپریم کورٹ کے سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے معاملے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے۔ یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ آرٹیکل 51 کی شق ڈی کے مطابق خواتین اور اقلیتی نشستیں صرف اُن جماعتوں کو دی جاسکتی ہیں جنہوں نے الیکشن کمیشن کو اس سے متعلق فہرست دی ہو۔ تحریک انصاف نے مخصوص نشستوں کے لیے درخواست دی اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں مخصوص نشستوں کو چیلنج کیا تھا۔ اس کا بنیادی معاملہ یہ تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوچکے ہیں اور اب مخصوص نشستوں کی حق دار سنی اتحاد کونسل ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آئین کے آرٹیکلزکی تشریح کرنے کے بجائے اسے پیچیدہ بنادیا گیا ہے۔ اگر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی اراکین مستقبل میں دوبارہ پی ٹی آئی میں شامل ہوتے ہیں تو مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ سپریم کورٹ جب 185 کے تحت کسی بھی چیز کا جائزہ لیتی ہے تو یہ عام طور پر اُن درخواستوں تک محدود ہوتا ہے جو نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک پہنچتی ہیں۔ سپریم کورٹ نے دیگر جماعتوں کو دی گئی مخصوص نشستوں کے اراکین کو سنے بغیر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ایک طرف رکھ دیا اور عدالت میں جن 80 ارکان کا ذکر کیا گیا وہ نہ تو عدالت میں پیش ہوئے اور نہ ہی دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ اب معاملہ پارلیمنٹ میں ہی حل ہوگا، یہ پارلیمنٹ کا استحقاق ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر قبول کرلیا ہے جبکہ اس کے اراکین نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے نشان پر الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتوں کی قدر ختم ہوجائے گی، آزاد امیدوار اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے پارٹیاں تبدیل کرسکیں گے جبکہ اس قسم کے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس فیصلے سے ایک ایسا نیا سسٹم سامنے آئے گا جس کی قانون اور آئین میں کوئی جگہ نہیں۔ بدقسمتی سے فیصلے آئین و قانون کے مطابق دینے کے بجائے سیاسی جماعتوں اور اُن کی سوشل میڈیا ٹیموں کو دیکھ کر دیے جا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر رائے یہ ہے کہ فیصلے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بے شک آئین کی تشریح کے اصول سے آگے جاکر، آرٹیکل 51 اور 106 میں واضح لکھے ہوئے الفاظ سے آگے جاکر، ایک نیا میکنزم تجویز کیا گیا ہے جس کی ماضی میں مثال بہت کم ملے گی۔ اس فیصلے کے پیش نظر تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کے نامزد کردہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے آزاد امیدواروں کے طور پر عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات میں حمایت یافتہ اراکین کے بڑی تعداد میں نشستیں جیتنے کے بعد پارٹی کی قیادت نے مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے 20 فروری کو قومی اسمبلی، پنجاب اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلان کیا۔ 21 فروری کو پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں قومی اسمبلی کے لیے 86 آزاد اراکین کی شمولیت کے سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے، جبکہ صوبوں میں پنجاب اسمبلی کے 105، خیبر پختون خوا اسمبلی کے 85 اور سندھ اسمبلی کے 9 آزاد اراکین کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے سرٹیفکیٹ بھی جمع کروائے گئے۔ 28 فروری کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کے چار اراکین نے مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دینے کا فیصلہ دیا جبکہ ایک رکن نے اختلافی نوٹ میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم تک نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کے بجائے خالی رکھنے کا فیصلہ دیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں رکن پنجاب بابر حسن بھروانہ نے اختلافی نوٹ بھی جاری کیا تھاجس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’معزز ممبرز کے ساتھ اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کو الاٹ نہیں کی جاسکتیں کیونکہ سیاسی جماعت کی طرف سے ترجیحی فہرست وقت پر جمع نہیں کی گئی جو کہ قانون کی بنیادی ضرورت ہے اور اسے الیکشن کے بعد کے مرحلے میں جمع نہیں کرایا جا سکتا۔ تاہم دوسری سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے ذریعے نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے میرے اختلافی خیالات ہیں۔ میری رائے میں آئین کے آرٹیکل 51(6-d) اور 106 (3-c) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کی جانب سے حاصل کی گئی جنرل نشستوں کی کُل تعداد کی بنیاد پر متعلقہ صوبے سے قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کی مخصوص نشستیں مختص کی جائیں گی، تاہم یہ مخصوص نشستیں آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 میں ترمیم تک خالی رکھنی چاہئیں‘‘۔

سنی اتحاد کونسل نے اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔ رواں برس مارچ میں پشاور ہائی کورٹ نے بھی کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی اپیل خارج کردی تھی۔ سنی اتحاد کونسل نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ ابتدا میں اس کیس کی سماعت کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ بنایا گیا، جس نے رواں برس 6 مئی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا سنی اتحاد کونسل کی نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کردیا اور اٹارنی جنرل کی استدعا پر فل کورٹ یا لارجر بینچ بنانے کے لیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا، جس کے بعد 3 جون کو فل کورٹ تشکیل دیا گیا، جس نے سماعت کے بعد 9 جولائی کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، 12 جولائی کو 5 کے مقابلے میں 8 ججوں کے اکثریتی فیصلے کے تحت عدالتِ عظمیٰ نے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی قانونی و آئینی طور پر حق دار ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ (جو قاضی فائز عیسیٰ کے بعد چیف جسٹس ہوں گے)، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، (جسٹس عائشہ ملک بیمار ہوئیں اور بیشتر سماعتوں میں موجود نہیں تھیں)، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس عرفان سعادت خان نے اکثریتی فیصلہ قلم بند کیا ہے، جبکہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے درخواستیں مسترد کیں اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے مشترکہ فیصلہ لکھا، جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا علیحدہ اختلافی نوٹ قلم بند کیا ہے۔ تاہم آٹھ ججوں کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان کا نہ ملنا کسی جماعت کو انتخابات سے نہیں روکتا، تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت تھی اور ہے۔ اس فیصلے پر سب سے پہلے الیکشن کمیشن نے وضاحت دی کہ اس نے کبھی نہیں کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت نہیں ہے، البتہ سپریم کورٹ کا تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینا سمجھ سے بالاتر ہے، الیکشن کمیشن کی رائے میں41ارکان کو آزاد امیدوار ڈکلیئر کرنے کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور الیکشن کمیشن نے برملا کہا کہ اس نے کسی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی البتہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن کو درست قرار نہیں دیا، جس کے خلاف پی ٹی آئی مختلف فورمز پر گئی اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکم امتناع دیا گیا۔ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے جس کی وجہ سے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 215 کے تحت ان سے انتخابی نشان واپس لیا گیا تھا۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے میں جن 39 اراکین اسمبلی کو تحریک انصاف کا رکن قومی اسمبلی قرار دیا گیا ہے انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی میں اپنی وابستگی پی ٹی آئی سے ظاہر کی تھی جبکہ کسی بھی پارٹی کا امیدوار ہونے کے لیے پارٹی ٹکٹ اورڈکلیریشن ریٹرننگ آفیسر کے پاس جمع نہیںکرایا تھا جو قانون کے مطابق لازمی ہے، لہٰذا ریٹرننگ افسروں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ ان کو تحریک انصاف کا امیدوار ظاہر کرتے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر حکومت نے بھی ردعمل دیا ہے، اس کے مطابق عدالت نے تحریک انصاف کو ریلیف دیا ہے جو اس نے عدالت سے اپنی درخواست میں مانگا ہی نہیں تھا، لہٰذا حکومت تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس پر نظرثانی کی درخواست دینے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گی۔ متعدد قانونی ماہرین کے بقول فیصلے سے ابہام کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گیا ہے۔ ماہرین کی رائے بالکل درست ہے، کیونکہ اب قومی اسمبلی کے تحریک انصاف کے سمجھے جانے والے ارکان ایک نیا حلف نامہ دیں گے، ایسی صورت میں انہیں اپنے پہلے والے حلف نامے کو غلط اور سخت معنوں میں ’’جھوٹا‘‘ کہنا پڑے گا۔ نیا حلف دینے کی صورت میں ان کے خلاف ریفرنس بھی بن سکتا ہے جس سے ان کی قومی اسمبلی کی نشست ختم ہوسکتی ہے۔ اگرچہ حلف دینے کی اجازت سپریم کورٹ نے دی ہے لیکن آئین یہی کہتا ہے کہ کسی ایک فرد کے لیے یا کسی ایک گروہ کے لیے کوئی امتیازی قانون نہیں بن سکتا، جو قانون ہوگا وہ سب کے لیے ہوگا، لہٰذا اس نکتے پر ملک میں سیاسی میدان میں، پارلیمنٹ میں اور عدلیہ میں ایک نئی قانونی بحث چھڑ جائے گی، اور مستقبل میں یہ بحث کہاں جاکر منتج ہوگی اور اس کے کیا اثرات ہوں گے اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے بعد وہ پارلیمنٹ میں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کی حیثیت حاصل کرلے گی، لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے۔