غزہ قتل عام:رمضان و عیدین کے بعد عاشورہ محرم بھی لہو لہو

صدر بائیڈن کی امن تجاویز یا خانہ جنگی کا نیا منصوبہ؟

اسرائیلی انتہا پسندوں نے غربِ اردن کو قتل و غارت کی آماجگاہ بنادیا، اسرائیلی جنرل کا اعتراف

اہلِ غزہ نے رمضان، عیدالفطر اور عیدِ قرباں کے بعد عاشورہ محرم بھی آتش و آہن کی موسلا دھار بارش میں گزارا۔ ذبحِ عظیم اور عاشورہ میں گہرا منطقی تعلق ہے، کہ وادیِ منیٰ میں خلیل اللہ ؑ کے لختِ جگر ؑ نے رب کی رضا کے لیے اپنی گردن خنجر کے نیچے رکھی، اور اس عزم کو محبوبِ خداؐ کے محبوب نظر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کربلا میں عملی جامہ پہنادیا۔ خاک بسر و خوں بداماں اہلِ غزہ گزشتہ سات دہائیوں سے امامِ عالی مقام رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قربانی اور ثبات و قرار کی جو داستان رقم کررہے ہیں اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انبیا کی سرزمین کے یہ باسی سرکٹانے کے ساتھ عقوبت کدوں کو آباد کرکے سنتِ یوسف ؑ بھی ایک نرالی شان سے ادا کررہے ہیں۔

قید و بند صبر و وقار سے جھیلنے اور موت کو بانکپن سے گلے لگانے کی ادا کا کوئی جواب نہیں، تو غزہ کی پُرعزم مائوں کا صبروضبط بھی بےمثال ہے۔ باہمی تذکیر کے لیے ایسے ہی ایک واقعے سے گفتگو کا آغاز:

کئی ماہ سے گرفتار تین فلسطینیوں کو رہائی پر زنجیروں میں جکڑ کر غزہ روانہ کیا گیا، اور غزہ پہنچنے پر جیسے ہی یہ لوگ فوجی گاڑی سے اترے، وہاں پہلے سے موجود اسرائیلی سپاہیوں نے مشکیں کسے ان پابہ زنجیر نوجوانوں کو گولی مارکر قتل کردیا۔ وہاں موجود ایک قیدی کامل غیبیان کے چچا عبدالہادی غیبیان نے یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ عبدالہادی کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے ان بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے لیکن کسی نے معافی نہ مانگی۔ جب عبدالہادی نے اپنی بھابھی کو اُن کے بیٹے کے اس بہیمانہ قتل کی اطلاع دی تو صابر و شاکر خاتون نے کہا کہ ”آنسوئوں پر قابو نہیں لیکن دل اپنے رب سے راضی ہے۔ ہر حال میں اللہ کا شکر“(حوالہ: رائٹرز)۔ بیچاری آنسو بہانے کے سوا اور کر بھی کیا سکتی تھی کہ غزہ کے ملبے تلے بے گناہ بچوں کے ساتھ انسانیت اور انصاف پہلے ہی سے دفن ہے۔

غزہ کے ساتھ غربِ اردن میں ظلم و ستم کا جو بازار گرم ہے اس کا اعتراف خود اسرائیلی مرکزی کمان کے سربراہ میجر جنرل یہودا فاکس نے کیا ہے۔ جنرل فاکس کی جگہ اب جنرل اوی بلتھ تعینات کردیے گئے ہیں۔ تبدیلیِ کمان کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل فاکس نے کہا ”قوم پرست انتہا پسند جنگ کی آڑ میں غربِ اردن کو قتل و غارت کی آماجگاہ بناچکے ہیں“۔ اس نشست میں فوج کے سربراہ اور وزارتِ دفاع کے اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ فوجی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے جنرل فاکس نے مزید کہا کہ ”غربِ اردن میں قوم پرست جرائم نے سر اٹھا لیا ہے۔ اسرائیل سے وفاداری کی آڑ میں یہ لوگ نہتے اور پُرامن فلسطینی باشندوں کے خلاف نفرت و خوف کی آگ بھڑکا رہے ہیں جس کا مقصد اپنے جرائم پر پردہ ڈالنا ہے۔“ جنرل فاکس کا کہنا تھا کہ ”پُرامن فلسطینیوں پر حملے کرکے علاقے میں افراتفری پھیلانے کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ مقامی باشندوں کو بے دخل کرکے ان کے گھروں، کھیتوں اور مویشیوں کے باڑوں پر قبضہ کرلیا جائے۔“ (حوالہ: یروشلم پوسٹ)

غربِ اردن پر اسرائیلی دستور کا اطلاق نہیں ہوتا اور یہ علاقہ فوج کی سینٹرل کمانڈ کے تحت ہے۔ اسے آپ مارشل لا بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن مرکزی کمان کے سربراہ کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر صاحب بھی انتہا پسندوں کے ہاتھوں بے بس ہیں۔

گزشتہ سال 7 اکتوبر سے جاری بمباری سے 38345 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں جن کی دوتہائی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ بدھ 10 جولائی کو اسرائیلی فضائیہ نے بمبار طیارے روانہ کرنے سے پہلے اعلان کیا کہ بمباری کا ہدف الشجیعہ میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام چلنے والے پناہ گزین کیمپ ہیں۔ یعنی اب شہری ہلاکتوں پر ناگزیر یا Collateral نقصان کا پردہ ڈالنے کا تکلف بھی ضروری نہیں اور دیدہ دلیری سے اعلان کرکے کیمپوں پر حملہ کیا جارہا ہے۔ اسی رات غزہ کی النصیرات خیمہ بستی میں اقوام متحدہ کا ایک اسکول نشانہ بنا۔ وہاں پناہ لینے والے 16 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ اس اسکول میں بمباری سے متاثر 500 بے گھر افراد کو رکھا گیا ہے جن کی اکثریت ضعیف افراد، خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ اس کے دوسرے دن غزہ میں فٹ بال کھیلتے بچوں پر بمباری کی گئی جس سے پچاس سے زیادہ بچے راکھ بن گئے۔ (حوالہ: CNN)

غزہ قتلِ عام میں معاونت و سہولت کاری کے لیے امریکہ سے 500 پائونڈ کے 1700 بموں کی ترسیل شروع کردی گئی ہے۔رفح حملے کے آغاز پر صدر بائیڈن نے 500اور 2000پائونڈ کے بموں کی فراہمی معطل کردی تھی۔گزشتہ ہفتے امریکی اور اسرائیلی وزارتِ دفاع کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پانچ سو پائونڈ کے بم اسرائیل پہنچنا شروع ہوگئے ہیں جبکہ 2000پائونڈ کے 1800بموں کی کھیپ بھی جلد اسرائیل روانہ کردی جائے گی۔ تاہم 11 جولائی کو پریس کانفرنس کے دوران NPRکی نمائندہ عاصمہ خالد کے سوال پر صدر بائیڈن نے کہا کہ ‘اسرائیل کو 2000 پائونڈ کے بم نہیں دیے جائیں گے۔ امریکی صدر نے کہا ” غزہ لڑائی کے آغاز پر ہی اسرائیلی قیادت سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ غلطی مت کرو جو امریکہ نے افغانستان میں کی تھی۔ ہمیں بن لادن کے خاتمے کے بعد افغانستان سے نکل جانا چاہیے تھا لیکن ہم وہاں کھڑے اور جمے رہے جس کا امریکہ کو بدترین نقصان ہوا“۔صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ ”غزہ پر قبضہ خود اسرائیل کے لیے اچھا نہیں۔ غزہ کے خراب عناصر کمزور ہوچکے ہیں، لہٰذا اب اسرائیل کے وہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے بی بی انتظامیہ، اسرائیلی تاریخ کی قدامت پسند ترین حکومت ہے (جن کو سمجھانا مشکل ہے)۔“

واشنگٹن میں ہونے والے نیٹو اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کے لیے امریکی مدد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقع پر نیوزویک کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ شہریوں کا وحشیانہ قتل، اسپتالوں، امدادی مراکز اور دیگر مقامات پر حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن اور اُن کی انتظامیہ اسرائیلی جنگی جرائم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں میں سہولت کار اور برابر کی شریک ہیں۔ اخباری ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران امریکی صدر کی جانب سے نیٹو اور اسرائیل کے درمیان تعاون کی خواہش پر صدر اردوان نے صاف صاف کہا کہ ترکیہ، نیٹو اور اسرائیل تعاون کی کسی تجویز کی توثیق تو کیا، حمایت بھی نہیں کرے گا۔ انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا ”جب تک مشرقِ وسطیٰ میں دو ریاستی حل سمیت مکمل امن قائم نہیں ہوجاتا، نیٹو اسرائیل تعاون ترکیہ کے لیے قابل قبول نہیں“۔ نیٹو دستور کے تحت کسی بھی نئے معاہدے کی تمام کے تمام ارکان سے توثیق لازمی ہے۔

غزہ امن کے لیے دونوں فریق اب تک قابلِ عمل معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔ اسرائیل غزہ سے پسپائی پر تو تیار ہے لیکن رفح کی مصر سے ملنے والی سرحد یعنی Philadelphia Corridor اپنے قابو میں رکھنا چاہتا ہے جو مزاحمت کاروں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے 11 جولائی کو بتایا کہ اسرائیل رفح بھی خالی کرنے پر تیار ہوگیا ہے۔ خبر شایع ہوتے ہی وزیراعظم نیتن یاہو کے انتہاپسند اتحادیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ دبائو میں آکر بی بی نے اعلان کردیا کہ رفح سے انخلا فیک نیوز ہے، ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے تھوڑی ہی دیر بعد مذاکرات میں حصہ لینے والے کم ازکم دو اسرائیلی اہلکاروں نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا کہ اسرائیل، مزاحمت کاروں کی یہ شرط ماننے یعنی رفح سے ہٹنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بی بی کا جھوٹ اور باربار کا یوٹرن امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

قطر اور قاہرہ میں جاری بات چیت کے ساتھ صدر بائیڈن کے تین مرحلوں پر مشتمل غزہ امن منصوبے کی جو تفصیلات واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوئی ہیں اس سے یہ تجویز منصوبہِ امن سے زیادہ غزہ میں ایک نئی خانہ جنگی کا نقطہ آغاز لگ رہی ہے۔ یہ تفصیلات امریکہ کے معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ اگنیشس (David Ignatius)نے امریکی حکام سے گفتگو کے بعد اپنے کالم میں درج کی ہیں۔جناب اگنیشس کے مطابق جنگ بندی کے بعد امریکی تربیت یافتہ مقتدرہ فلسطین (PA) کے 2500 سپاہی غزہ میں تعینات کیے جائیں گے۔ یہ زیادہ تر وہ سپاہی ہیں جو اہلِ غزہ اور PLOکے درمیان 2006ء کے خونریز تصادم سے پہلے وہاں کے رہائشی تھے۔تفصیلی جانچ پڑتال کے بعد ان سپاہیوں کی منظوری اسرائیل دے گا اور اس فوج کو ‘معتدل عرب ‘ ممالک کی حمایت حاصل ہوگی۔ سادہ الفاظ میں یہ اسرائیلی فوج ہٹاکر عربی بولنے والے اسرائیل نواز دستوں کی تعیناتی کا منصوبہ ہے، یا یوں کہیے کہ اب عرب سپاہی اہلِ غزہ کے سامنے صف آرا ہوں گے۔ رپورٹ میں امریکی حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اہلِ غزہ بحالیِ امن کے لیے اپنے اختیار کی قربانی دے کر پٹی کا اختیار و اقتدار مقتدرہ فلسطین کو دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ اب تک اسرائیل اور اہلِ غزہ کی جانب سے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا لیکن کچھ دن پہلے غزہ کے مزاحمت کاروں نے بہت دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ وہ غزہ کے انتظامی امور میں کسی بھی فریق کی مداخلت قبول نہیں کریں گے۔

فتح و کامیابی کے دعووں کے باوجود اسرائیلی فوج اب تک کوئی قابلِ ذکر عسکری ہدف حاصل نہ کرسکی۔ گزشتہ ہفتے اسرائیلی دستے شجیعہ محلے سے پسپا ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مشن مکمل ہونے پر فوجی واپس بلائے جارہے ہیں، لیکن مزاحمت کاروں کا دعویٰ ہے کہ ‘ہمارے نشانچیوں نے دشمن کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔

اسی کے ساتھ لبنانی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف ایک اور کامیاب جاسوسی مشن کا دعویٰ کیا ہے۔ ایک گھنٹے کے اس بصری تراشے میں حیفا کے بحری اڈے، ا س کے شمال میں نہاریا کے ڈرون مرکز، نہر خلیل کے کنارے صفد کی عسکری تنصیبات کے علاوہ مغربی گولان میں قائم فوجی اڈے دکھائے گئے ہیں۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ ایران ساختہ جاسوسی ڈرون امریکی آئرن ڈوم حفاظتی نظام کو غچہ دے کر ایک گھنٹے تک حساس مقامات اور تنصیبات کی اطمینان سے فلمبندی کرتا رہا اور اسرائیلیوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔چند ہفتے پہلے بھی لبنانی ڈرون نے ایسی ہی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس کی تصدیق کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ ہمارے ترکش میں اس کے علاوہ بھی بہت سے تیر ہیں۔ لبنانی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کے خلاف راکٹ باری کا دائرہ بھی وسیع کردیا ہے اور اب کریات شمعونہ کے علاوہ مقبوضہ شامی علاقے مرتفقات الگولان (Golan Heights) بھی ان کا ہدف ہے۔ 12 جولائی کو گولان پر مسلح ڈرونوں کی بارش سے کئی عمارتوں کو آگ لگ گئی اورمتعدد اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔ گولان کا پہاڑی سلسلہ شام کا علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967ء میں قبضہ کرلیا اور اپنے دورِ حکومت میں سابق صدر ٹرمپ نے اسے اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا تھا۔

امریکی تعلیمی اداروں میں تعطیلات کے باوجود سرگرمیاں جاری ہیں۔ جامعہ ہارورڈ نے غزہ نسل کُشی کے خلاف احتجاجی خیمہ زنی کرنے والے 5 طلبہ کی معطلی ختم کردی۔ ان طلبہ کو جن میں ایک Rhodes Scholar پاکستانی اور ہندوستانی طالبہ شامل ہیں، پورے سیمسٹر کے لیے معطل کیا گیا تھا۔ اب معطلی ختم کرکے ان طلبہ کو زیرنگرانی (Probation)رکھ لیا گیا ہے۔ نگرانی کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے گی۔ ان طلبہ نے معافی مانگنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نسل کُشی کے خلاف آواز اٹھانا انسانیت کا تقاضا ہے۔ دوسری طرف جامعہ کولمبیا میں انتقامی کارروائیوں میں شدت آگئی ہے۔ شیخ الجامعہ ڈاکٹر مونیکا شفیق کے حکم پر کولمبیا کالج کی ڈین ڈاکٹر سوزن چینک کم، ڈین انڈرگریجویٹ ڈاکٹر کرسٹن کروم، اور نائب ڈین طلبہ امور ڈاکٹر میتھو پیٹاشنک (Matthew Patashnick)کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا گیا۔ ان رئوسائے کلیات پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے دفتر میں فلسطین کا پرچم آویزاں کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر غزہ نسل کُشی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف پوسٹ نصب کی ہیں جن کا کچھ حصہ یہود دشمن یا Antisemitic کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ فلسطینی پرچم ہندوستان میں بھی خوف کی علامت ہے۔ ریاست اترپردیش (UP)کے شہر بھدوہی میں محرم کے جلوس میں فلسطینی پرچم لہرانے پر ایک شخص کو گرفتار کرلیا گیا۔ (حوالہ: ٹائمز آف انڈیا)

……………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔