پاکستان کی تاریخ سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے واقعات سے بھری ہوئی ہے جو جمہوری اصولوں کی پامالی اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی ہیں۔ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی پر سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1954ء میں پابندی لگائی گئی۔ اس جماعت پر الزام تھا کہ اس نے راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہوکر ملک دُشمنی کی۔ اور اسی بنیاد پر ملک بھر میں اس جماعت کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔
جنوری 1964ء میں ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے کر اس پر پابندیاں لگائیں، اس کے دفاتر سیل کیے۔ جبکہ 1975ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے بھی خان عبدالولی خان کی سربراہی میں قائم نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے بعد بھی پابندیاں لگتی رہی ہیں۔ کئی مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں پر مختلف سیاسی و بین الاقوامی تناظر میں پابندیاں لگتی رہیں، اور آج ایک بار پھر موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے اور عمران خان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اس حکومتی فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے، اور 9 مئی کے حملوں اور فارن فنڈنگ کے ثبوت موجود ہیں۔ تاہم یہ اقدام جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے سے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس مزید انتشار اور عدم استحکام جنم لیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی آواز کو دبانے کے بجائے انہیں عوامی حمایت حاصل کرنے کا موقع دینا چاہیے، اور سب جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی آپ چاہیں یا نہ چاہیں اِس وقت ملک کی مقبول جماعت ہے، اور اگر فارم 47 کا معاملہ نہ ہوتا تو وہ آج حکمراں پارٹی ہوتی۔ حکومت کا پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا فیصلہ پی ٹی آئی سے زیادہ حکومت کے لیے خطرناک ہے۔ اس سے جمہوری عمل کمزور ہوگااور ملک میں سیاسی افراتفری اورانتشارمیں اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی ملک اپنی تاریخ کے بدترین سیاسی و معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہم پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے گئے قرضے اور ان پر سود کی ادائیگی ملکی معیشت پر بوجھ ڈال رہی ہے، حکومت کی آمدنی اور اخراجات میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے بجٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے، روپے کی قدر میں مسلسل کمی آرہی ہے، مہنگائی کی شرح میں اضافہ عوام کی زندگیوں پر گہرے منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ اشیائے خور و نوش، بجلی، گیس اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی کی کمی، گیس کی فراہمی میں رکاوٹیں اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ صنعتوں کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کررہا ہے۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے صنعتوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے، جس سے برآمدات متاثر ہورہی ہیں۔ بے روزگاری کی شرح بھی بلند ہے، اور اس سب کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جو کہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ اور حکومت کی غیر مستحکم پالیسیاں معاشی ترقی میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ سرمایہ کار سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری سے گریز کرتے ہیں، ان باتوں پر حکومت کی توجہ ہونی چاہیے، نہ کہ ایسے احمقانہ اقدامات سے ملک کو مزید دلدل میں دھکیلا جائے۔
جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان جیسے مختلف سیاسی اور سماجی اداروں نے اس حکومتی فیصلے کی مخالفت کی ہے اور اسے غیر آئینی اور جمہوری اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا درست ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا حکومتی فیصلہ فسطائیت کی مثال ہے۔ جمہوری معاشروں میں ان فیصلوں کی کوئی گنجائش نہیں، آمرانہ سوچ پر یقین رکھنے والی جماعتیں ہی ایسے غاصبانہ فیصلے کرسکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے پی ٹی آئی پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو فضول قرار دیا ہے۔ اہم بیان پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد حسین سید کا سامنے آیا ہے، انہوں نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی کے حکومتی اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ خدا جسے تباہ کرنا چاہتا ہے اسے تباہ کرنے سے پہلے پاگل کردیتا ہے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ حکومتی وزیر کا آج کا اعلان سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس سے واضح ہوا کہ پی ڈی ایم بلے کا نشان لینے کی سازش کا حصہ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسے اعلانات کررہی ہے۔ پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ ووٹ لیے، اس بات کا اعتراف سپریم کورٹ نے بھی کیا۔
یہ واضح ہے کہ حکومت کا یہ اقدام جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں اپنی آواز بلند کریں اور بھرپور احتجاج کریں تاکہ جمہوریت کی حفاظت کی جاسکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلے کو واپس لے اور سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے کام کرے جس میں وہ اب تک ناکام ہے، عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے جمہوری اصولوں کی پاس داری کی جائے تاکہ ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام حاصل ہوسکے۔ (اے اےسید)