حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
”سب بنی آدم خطا کار ہیں اور وہ خطا کار اچھے ہیں جو خطا کے بعد اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتے ہیں“۔
(ترمذی، ابن ماجہ)
’حضرت انسؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے ابنِ آدم! تم اگر مجھے پکارو اور مجھ سے امید رکھو تو میں تمہارے گناہ بخش دوں گا اور کوئی پروا نہیں ہے۔ اے ابنِ آدم! اگر تمہارے گناہ آسمان کے کناروں کو (کثرت میں) جا پہنچیں پھر تم مجھ سے بخشش چاہو تو میں تمہیں بخش دوں گا۔ اے ابنِ آدم! اگر تم میرے پاس زمین کے بھرنے جتنے گناہ لے کر آئو اور مجھ سے اس حال میں ملو کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کیا تو میں تمہیں اتنی بخشش سے نوازوں گا کہ اس سے زمین بھر جائے‘‘۔(ترمذی)
تشریح: اس حدیثِ مبارکہ میں ایک طرف اللہ تعالیٰ کے عظیم حلم و کرم، رحمت و شفقت اور فضل و احسان کا بیان ہے، تو دوسری طرف بندے کے لیے مغفرت و عفو کی خوش خبری و بشارت ہے۔ حدیث پر غور کرنے سے مومن کے دل سے ایسی مایوسی اور ناامیدی نکل جاتی ہے جس سے شریعت میں منع کیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بندہ گناہوں کے انجام و عاقبت سے بے فکر اور بے خوف ہوکر گناہ کرنے پر کمربستہ ہوجائے، بلکہ اسے چاہیے کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے، یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا‘‘۔(النسا110:4)
استغفار اور توبہ دونوں ایک ساتھ ہوں، یعنی اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگے اور آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا ارادہ بھی کرے۔ ایک اور آیت میں ہے:
’’اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی چاہو اور اس کی طرف پلٹ آئو تو وہ ایک مدتِ خاص تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا اور ہر فضل والے کو اس کا فضل عطا کرے گا‘‘۔ (ہود 2:11)
اور ارشاد ہے:
’’اور اللہ تعالیٰ کی طرف تم سب رجوع کرو، اے مومنو! تاکہ تم کامیابی سے ہم کنار ہوجائو‘‘۔ (النور31:24)
مذکورہ بالا آیتیں اور دیگر متعدد آیتیں اور حدیثیں واضح کرتی ہیں کہ مومن کو وقتاً فوقتاً چھوٹی بڑی کوتاہی اور گناہ میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہیے۔
استغفار کرنا ہر مومن کے لیے لازمی ہے، کیونکہ ہر شخص سے کوئی نہ کوئی کوتاہی اور خطا ہوتی رہتی ہے۔ علما نے استغفار کے تین درجے بیان کیے ہیں:
ایک درجہ گناہ گاروں کا ہے، اپنے گناہوں کی معافی کے لیے استغفار کرنا، یہ درجہ خطاکاروں کی استغفار کہلاتا ہے۔
دوسرا درجہ اللہ کا شکر ادا کرنے میں کوتاہی کرنے کا ہے جو اولیا اور علما کا ہے۔
تیسرا درجہ شکر ادا کرنے کا ہے، یہ نبیوں اور رسولوں کا ہے۔
توبہ کرنے کے لیے تین بڑی شرطیں ہیں جن کو توبہ کرتے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے: پہلی شرط توبہ کا ارادہ کرتے ہی گناہ کا کام چھوڑ دینا، دوم: کیے ہوئے گناہ پر نادم اور پشیمان ہونا، اور سوم: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کرنا۔ بعض بزرگوں نے تین باتیں اور بھی بیان کی ہیں:
(الف) کسی انسان کا توبہ کرنے والے کے ذمے کوئی حق باقی ہے تو اسے ادا کرنا، یا اس سے معافی چاہنا۔ اس طرح کسی کو ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تکلیف دی ہے تو اُس سے معافی مانگنا۔
(ب) جن فرائض کی ادائیگی سے غفلت برتی ہے وہ ادا کرنا، یا ان کا کفارہ دینا، جیسے فرض نمازیں، روزے اور حج وغیرہ۔
(ج) نفس اور جسم کو جس طرح گناہوں کے مزے چکھائے ہیں اسی طرح انہیں اللہ کی فرماں برداری میں چلانا اور تکلیف دینا۔
بیان کردہ حدیث اور دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ اور استغفار کرنے کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے، یعنی اتنی مرتبہ تو توبہ قبول ہوتی ہے اور اس کے بعد نہیں ہوگی، جیسے عام لوگوں میں مشہور ہے کہ بس تین مرتبہ توبہ قبول ہوتی ہے اور اس کے بعد نہیں ہوتی۔ یہ بات غلط ہے اور اسلام کے تصور اور عقیدے کے خلاف ہے۔ بندہ جب بھی اللہ کی طرف اخلاص و پشیمانی سے رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ لبیک کہتے ہیں اور اس کی مغفرت فرماتے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ بندہ گناہ کرنے کے بعد جب معافی مانگنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے لوٹنے پر اُس شخص سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جس نے اپنی اُس اونٹنی کو پالیا ہو جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا۔ انسان کو چاہیے کہ بار بار توبہ و استغفار کرتا رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لوگو! اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر توبہ کرو، میں اس سے روزانہ ایک سو مرتبہ توبہ و استغفار کرتا ہوں‘‘۔