(بائیسویں قسط)
ہماری گرفتاریوں کی اطلاعات اخبارات کی خبروں سے ہمارے گھر والوں تک پہنچ چکی تھیں۔ بعض اخبارات میں تو میرا نام بھی ایک سے زیادہ مرتبہ چھپ گیا تھا۔ اس کے باوجود میرا خیال تھا کہ ہمارے گائوں میں یہ خبر نہ پہنچی ہوگی۔ میں رہائی کے بعد جب گھر پہنچا تو خاندان کی ایک محفل لگ گئی۔ تایا جان نے بہت دلچسپی کے ساتھ مجھ سے ان پورے دنوں کی روداد سنی۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ گرفتاری کے وقت یا اس کے بعد کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟ میں نے بتایا کہ کسی بھی موقع پر ذرہ برابر بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ البتہ مجھے یہ فکر تھی کہ آپ لوگوں کو علم ہوگا تو آپ لوگ میری وجہ سے پریشان ہوں گے۔ اس پر ہر شخص کا اپنا اپنا تبصرہ تھا۔
میری ہمشیرہ محترمہ جو محض ناظرہ قرآن مجید پڑھی ہوئی تھیں اور پھر اپنی ذہانت اور ذاتی شوق سے اردو پڑھنے کی مہارت حاصل کی۔ مرحومہ تفہیم القرآن کا بڑے غور سے مطالعہ کیا کرتی تھیں، اس گفتگو کے درمیان فرمانے لگیں کہ سورۃ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات پڑھتے ہوئے بندہ محسوس کرتا ہے کہ حق کی خاطر جیل جانا سنتِ یوسفی ہے، اور جو بندۂ مومن اس منزل سے گزرے اسے کبھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ہمشیرہ محترمہ کی اس بات پر سب لوگ بہت خوش ہوئے۔
زندگی کے اگلے مرحلوں میں بار بار یہ منزل آئی اور اللہ کا شکر ہے کہ کبھی پریشانی یا بزدلی سے سابقہ پیش نہیں آیا، نہ ہی کسی سرکاری کارندے نے تھانے یا جیل میں کبھی میرے ساتھ بدتمیزی کی۔ یہ میرے اللہ کا احسان ہے ورنہ میں کیا اور میری اوقات کیا! والدِ محترم نے میری ساری روداد پوری دلچسپی سے سنی اور پھر کسی پریشانی یا فکرمندی کا اظہار کیے بغیر فرمایا کہ جو راستہ تم نے چنا ہے اور جس قافلے کا تم حصہ بنے ہو، اس کے راستے میں امتحان و ابتلا کی منازل لازمی ہوتی ہیں۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے، آگے مزید تجربات سے سابقہ پیش آسکتا ہے۔ ابھی سے کمرِ ہمت باندھ لو، اور اگر ہمت نہیں ہے تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اس خطاب کے ان چند الفاظ سے روشنی حاصل کرو جو انھوں نے بھاٹی گیٹ کے اجتماعِ عام میں فرمائے تھے۔
میری والدہ محترمہ اور پھوپھی جان کے علاوہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں اور اہلیہ نے بھی بڑے اطمینان اور یک سوئی سے یہ گفتگو سنی اور مجھے پُرخلوص دعائوں سے نوازا۔ سب اہلِ خانہ کے لیے یہ بات باعثِ اطمینان تھی کہ میں اور میرے ساتھی اس سارے معاملے میں پوری عزیمت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ عید کی چھٹیوں کے بعد لاہور واپسی ہوئی اور یہاں بھی کالج اور ہاسٹل فیلوز کی خوب صورت مجلسیں لگیں جن میں چند روزہ رودادِ قفس کی گردان ہوتی رہی۔ جمعیت کے دفتر سعید منزل نیوانارکلی میں تو ایک جشن کا سماں تھا۔ ہر ساتھی ان چند ایامِ اسیری کی تفاصیل جاننا چاہتا تھا۔ ناظمِ لاہور عبدالحئی احمد رانا اور ناظم صوبہ وسط مغربی پاکستان صفدر علی چودھری بھی اس محفل میں رونق افروز تھے اور تحسین فرما رہے تھے۔
اس پہلی گرفتاری کے دوران جیل میں مقیّد کئی پرانے قیدیوں سے بھی تعارف ہوا۔ ہر ایک کی داستان عجیب و غریب اور دلچسپ تھی۔ کوئی قتل کے کیس میں سزا بھگت رہا تھا، تو کسی پر ڈاکے کا پرچہ درج تھا۔ انہی اسیرانِ زنداں میں ایک مشہور سیاسی خانوادے کا ایک چشم و چراغ بھی تھا جس کے بارے میں بعض قیدی بتاتے تھے کہ دماغی مریض ہے۔ بعض کہتے تھے کہ یہ بہت مکار اور ہوشیار انسان ہے، گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ یہ شخص سردار شوکت حیات ممبر قومی اسمبلی کا بیٹا سکندر حیات تھا۔ سردار شوکت حیات ضلع اٹک سے تعلق رکھتے تھے اور کونسل مسلم لیگ کے نمائندے تھے جو ایوبی آمریت کے دور میں حزبِ اختلاف کی جماعت تھی۔
سننے میں آیا تھا کہ سکندر حیات موصوف نے گورنر ہائوس کی دیواروں پر نواب آف کالاباغ کے خلاف نعرے لکھ دیے تھے۔ واللہ اعلم۔ سکندر حیات ہم سے کچھ ہی دن قبل گرفتار ہوا تھا۔ میرے دوست خالد چٹھہ نے بتایا کہ سکندر حیات کو پولیس نے حوالات میں خاصا زدوکوب کیا ہے، جس سے اس کا دماغی توازن خراب ہوگیا ہے۔ بظاہر سکندر حیات ٹھیک ٹھاک تھا، مگر کبھی کبھی عجیب و غریب قسم کی حرکتیں اس سے سرزد ہوجاتی تھیں۔ مثلاً وہ بات کررہا ہوتا اپنی تعلیم کی، تو اسے ادھورا چھوڑ کر اچانک اپنے خاندان کی سیاسی بڑائی کے قصے شروع کردیتا۔ کبھی گورنر نواب امیر محمد خان کو گالیاں دے رہا ہوتا تو اسی دوران اپنے آپ کو بھی گالیاں دینا شروع کردیتا۔ سکندر حیات سے بعد میں بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ ایک معمولی درجے کی ذہانت رکھنے والا سادہ لوح نوجوان تھا۔
جیل میں سکندر حیات اپنی گرفتاری اور بے چارگی پر اظہار خیال کرتا تو میں یہ سوچنے لگتا کہ خدا تعالیٰ دنوں کو کس طرح لوگوں کے درمیان پھیرتا ہے۔ اسی سکندر حیات کا دادا سر سکندر حیات دورِ استعمار میں پنجاب کا گورنر تھا، موصوف سمجھتا تھا کہ برصغیر کے لوگوں کے درمیان اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ انگریزوں کا چہیتا تھا، مگر جب حالات بدلے تو اپنے آقائوں سے بھی نظریں پھیر لیں اور تحریکِ آزادی کی حمایت کردی۔ وقت کی گردش دیکھیے کہ آج اس طاقتور گورنر کے پوتے کو گورنر ہائوس کی دیواروں کے پاس کھڑا ہونے کی بھی اجازت نہیں۔ نواب امیر محمد خان آف کالاباغ کتنے دن اس گورنر ہائوس پر قابض رہتا ہے؟ کون جانے۔ [جس دور میں اپنی ڈائری میں یہ باتیں لکھی تھیں اُس وقت نواب امیر محمد خان کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔ اس کے چند سال بعد یہ ساری شان و شوکت قصۂ پارینہ بن گئی اور رعونت اور دبدبے والا نواب کالاباغ اپنے دردناک انجام کو پہنچا۔نواب کالاباغ کا یہ انجام اولی الالباب کے لیے آج بھی عبرت ہے اور آنے والے وقتوں میں بھی اس سے عبرت حاصل ہوتی رہے گی۔]
گورنمنٹ کالج میں پڑھائی کا بڑا لطف آتا تھا۔ ہمارے سبھی اساتذہ انتہائی مشفق بھی تھے اور اپنے اپنے مضامین میں بہت ماہر بھی۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ مجھے تقریری مقابلوں اور مباحثوں میں شرکت کا موقع بھی ملا کرتا تھا۔ عموماً ہر پروگرام میں کوئی نہ کوئی انعام بھی مل جایا کرتا تھا۔ ایک خاص موقع بڑا یادگار ہے۔ نیوہاسٹل، گورنمنٹ کالج میں انگریزی زبان میںایک مباحثہ تھا۔ میں بھی اس میں بطور قائدِ حزبِ اختلاف شریک تھا۔ ہمارے کالج میں بہت سے طلبہ انگریزی میڈیم اسکولوںسے پڑھ کر آئے تھے، جب کہ ہم اردو میڈیم اسکولوں کے تعلیم یافتہ تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ انگریزی میں میری تحریر اور بول چال اچھی تھی۔
حسنِ اتفاق کہ اس مباحثے میں بھی مجھے اوّل انعام کا حق دار ٹھیرایا گیا۔ اُس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ کا دفتر سعید منزل انارکلی میں کرائے پر لیا گیا تھا۔ ہاسٹل اور کالج سے دفتر قریب ہونے کی وجہ سے ہر روز دفتر کا چکر لگتا تھا۔ اُس روز مباحثے کے بعد ہم دو تین ساتھی ہاسٹل سے دفتر کی طرف گئے تو خوش قسمتی سے راستے ہی میں ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ سید منورحسن سے پہلی بار ملاقات ہوگئی۔ یہ دسمبر 1966ء کی ایک سرد شام تھی۔ اتفاق سے میں نے بھی انگریزی لباس پہنا ہوا تھا اور سید صاحب بھی ایسے ہی لباس میں ملبوس تھے۔
سید صاحب کے خوب صورت چہرے پر چھوٹی چھوٹی اور پتلی داڑھی بہت دلربا لگی۔ دوستوں نے میرے بارے میں بتایا کہ نیوہاسٹل گورنمنٹ کالج میں انگریزی میں مباحثہ تھا، جہاں سے ہمارے ساتھی حافظ محمد ادریس اوّل انعام لے کر آئے ہیں۔ یہ خبر سنتے ہی سیّد صاحب بڑی بے تکلفی اور اپنائیت کے ساتھ فرمانے لگے: ’’اول انعام لیا ہے تو مٹھائی کدھر ہے؟‘‘ میں نے کہا: دفتر میں تشریف لے چلیں، مٹھائی بھی آجائے گی۔ فرمانے لگے: مٹھائی کھانے کے بعد مبارک باد دی جائے گی۔ میں تو ناظم اعلیٰ سے اچھی طرح واقف تھا مگر وہ مجھے نہیں جانتے تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ اپنائیت اتنی بھلی لگی کہ زندگی بھر کبھی بھلا نہ سکا۔ انگریزی زبان سے شدبد پر بھی ناظم اعلیٰ محترم نے تحسین فرمائی اور خوشی کا اظہار کیا۔ پھر مٹھائی منگوائی گئی جو سب ساتھیوں نے مزے سے کھائی، مگر منور صاحب نے تو محض چکھی یا یوں کہیے کہ صرف ٹیسٹ (Test) کی۔ آپ کے ساتھ وہ نشست بڑی یادگار تھی۔
خواتین یونیورسٹی مہم اس دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے اہم منصوبوں میں سرفہرست تھی۔ لاہور میں اس مہم کی نگرانی کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی۔ میں نے اپنے دوستوں کی ایک ٹیم تیار کی اور ہم نے ہر حکومتی ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اخبارات و رسائل میں بھی اس کے بارے میں تحریریں اور بیانات بھیجے جاتے جو مناسب انداز میں شائع ہوجاتے۔ اُس زمانے میں مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس لاہور میں ہوتا تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ جتنے زیادہ سے زیادہ ایم پی ایز سے مل سکیں، ان تک اپنا پیغام پہنچائیں۔ بیشتر ارکان پیپلزہائوس میں ارکانِ اسمبلی کے لیے مختص سرکاری رہائش گاہوں میں قیام پذیر ہوتے تھے۔ جماعت اسلامی کے رکن محمود اعظم فاروقی صاحب کی رہائش بھی وہیں ہوتی تھی۔ ہم نے وہاں رہنے والے تقریباً ہر رکن اسمبلی تک اپنی دعوت اور تحریری منشور پہنچایا۔
جن ا رکان سے ملاقات ہوئی ان میں سے صرف ایک رکن اسمبلی نے ہماری اس تجویز کی مذمت کی اور سخت لہجے میں حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ یہ تھے چودھری انور عزیز از ضلع نارووال! آپ موجودہ سیاسی راہنما دانیال عزیز کے والد تھے۔ جملۂ معترضہ کے طور پر یہ عرض ہے کہ جب کئی سال بعد جماعت کے نظم میں صوبے اور مرکز کی ذمہ داریوں پر میرا تقرر ہوا تو کئی مواقع پر چودھری صاحب کسی مسئلے پر تعاون کے لیے فون کرتے تو فرماتے ’’میں آپ کا گوجر بھائی چودھری انور عزیز بات کررہا ہوں…‘‘ انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کا گوجر بھائی ان سے جب پہلی بار ملا تھا تو اس سے کیسے لب و لہجے میں گفتگو فرمائی تھی۔ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان میںکئی خوبیاں بھی تھیں۔
پیپلزہائوس کے لان میں مختلف جگہوں پر کئی ارکان اسمبلی سردیوںکے موسم میں دھوپ کا مزا اٹھا رہے ہوتے تھے۔ چودھری صاحب بھی ایک جگہ اپنی اہلیہ محترمہ اور چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہماری بات سن کر انھوں نے فرمایا ’’یہ کیا فضول کام آپ نے شروع کردیا ہے، خواتین یونیورسٹی کی کیا ضرورت ہے! بچیاں موجودہ یونیورسٹیوں میں بہت اچھی تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ خوامخواہ ایک نئی یونیورسٹی کا مطالبہ کھڑا کرنے کے بجائے آپ لوگ اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔‘‘ چودھری صاحب کی اہلیہ نے جو کسی یورپی ملک سے تعلق رکھتی تھیں، چودھری صاحب سے پوچھا ’’یہ نوجوان کیا کہتے ہیں؟‘‘ تو آپ نے اُسے ہمارے مطالبے کے بارے میں انگریزی میں بتایا۔ اس نے سن کر قہقہہ لگایا کہ آج کے دور میں بھی یہ لوگ اتنے قدامت پرست ہیں۔ محترمہ میم صاحبہ کی بات اُن کی تہذیب کے مطابق اپنی جگہ ٹھیک تھی۔ ہمارامطالبہ بھی اپنی جگہ درست تھا کیوںکہ ہم اس جدت پسندی کے خلاف ہیں جو ہمارے بنیادی عقائد و اقدار اور اصول و ضوابط کی جگہ مغرب کی بے خدا تہذیب اور تمدن کے اصول و ضوابط ہمارے اوپر مسلط کرنا چاہتی ہو۔
منڈی بہاء الدین سے رکن اسمبلی جناب باطی بوسال اپنے علاقے کے وڈیروں میں سے تھے۔ پیپلزہائوس لان کے اندر موصوف نے اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ حقے کی محفل سجا رکھی تھی۔ انھوں نے ہمارا گرم جوشی سے استقبال کیا اور اپنی مخصوص جٹکی زبان میں ہماری تجویز کی تائید کی۔ پھر فرمایا ’’ہلا منڑ دعا کریااے‘‘ ۔ یعنی اچھی بات ہے، آپ دعا کیجیے۔ ہم جانتے تھے کہ بوسال صاحب ہماری دلجوئی کے لیے یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں، ورنہ حکومتی مؤقف کے خلاف کچھ کہنا ان کی لغت میں کبھی تھا ہی نہیں۔ پھر بھی یہ ان کی خوش اخلاقی اور مروت تھی کہ ہمارا خیال رکھا۔ کئی اور ارکان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جن کے دوران بہت مفید تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ سیالکوٹ سے ایم پی اے خواجہ محمد صفدر اپوزیشن لیڈر تھے۔ انھوں نے بھی ہماری کاوش کو بہت سراہا اور ہمارے حق میں اخباری بیان بھی جاری کیا۔
محمد حمزہ ایم اے جو گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ایم پی اے تھے، بڑے نفیس اور خوش اخلاق سیاست دان تھے۔ وہ آزاد ممبر کے طور پر منتخب ہوئے تھے اور اپوزیشن کے اہم ارکان میں سے تھے۔ اسمبلی میں ان کی کارکردگی بہت مؤثر ہوتی تھی۔ انھوں نے ہماری بہت حوصلہ افزائی فرمائی اور اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی۔ جناب حمزہ کے بیٹے (جو اسلامی جمعیت طلبہ میں بھی رہے) اسامہ حمزہ 2024ء کے انتخابات میں گوجرہ سے بطور آزاد امیدوار ایم این اے کامیاب ہوئے ہیں۔ آپ سنی اتحاد کونسل کے پارلیمانی گروپ میں شامل ہیں۔ بہت سے ارکان سے ملاقاتوں کا تصور اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔ کئی ارکان سے اسمبلی ہال کے باہر اور لابیز میں بھی ملاقاتیں ہوئیں اور ان سے اپنے مطالبات کے حق میں آواز اٹھانے کی درخواست کی۔ دراصل یہ ایک اتمام حجت تھا، ورنہ ان لوگوں کا حال تو یہ تھا کہ ان کی زبانیں حکمرانوں کے سامنے گنگ ہوجاتی تھیں۔ چند باضمیر لوگ محموداعظم فاروقی صاحب کے ساتھ بہرحال اس موقع پر اسمبلی کے فلور پر بھی ہمارے مطالبے کے حق میں بولے تھے۔ (جاری ہے)