چودھری غلام محمدؒ

(پیدائش: یکم اکتوبر 1916ء ۔ وفات 29 جنوری 1970ء)

چودھری غلام محمدؒ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان پر علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار صادق آتے ہیں:

مردِ حُر سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالمِ نو کی تصویر
اور جب بانگ ِ اذاں کرتی ہے بیدار اُسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر

چودھری غلام محمدؒ نے تعلیم سے فراغت کے بعد عملی زندگی کا آغاز غیر منقسم ہندوستان میں پڈعیدن ریلوے اسٹیشن میں ہیڈ کلرک کے طور پر کیا۔ ریلوے میں دورانِ ملازمت بیمار ہوئے تو ان پر بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ معالجوں نے گھر والوں کو بتایا کہ ان کو نارنگی کا جوس پلایا جائے تو امکان ہے کہ طبیعت سنبھل جائے۔ اُس زمانے میں نارنگی ناگپور سے آیا کرتی تھی۔ ریلوے میں اُن کے ساتھی ملازمین کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے ناگپور سے آنے والے کسی تاجر کے پارسل میں سے نارنگیاں نکالیں اور اُن کو اس کا جوس پلا دیا۔ چودھری غلام محمد صاحب کو افاقہ ہوا تو انہوں نے دریافت کیا کہ مجھے کیا چیز پلائی گئی تھی؟ ان کے گھر والوں نے بتایا کہ آپ کے دفتر کے ساتھی نارنگی لے کر آئے تھے اور انہوں نے اس کا جوس پلایا۔ یہ سنتے ہی چودھری صاحب نے اپنا ہاتھ گلے میں ڈالا اور قے کردی اور ان کو بلا کر کہا کہ یہ آپ نے کیا ظلم کیا کہ کسی کا مال اُس کی اجازت کے بغیر مجھے پلا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے، جن صاحب کا یہ مال تھا، اُن کو معذرت کا خط لکھا اور ساتھ اس کے پیسے اُن کو بھیجے اور کہا کہ آپ مجھے دنیا میں معاف کردیں، اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں تھا، یہ میرے ساتھیوں نے کیا جو میرے ماتحت کام کررہے تھے، اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا تو اس کی جواب دہی مجھے اللہ کے یہاں کرنی پڑے گی۔

ان کی شخصیت کے اس روشن پہلو نے نہ صرف ان کے ساتھیوں بلکہ اردگرد کے لوگوں اور ریلوے کے اعلیٰ حکام کو بھی بہت متاثر کیا۔ واضح رہے کہ ابھی چودھری صاحب کا جماعت اسلامی سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ جماعت اسلامی 1941ء میں قائم ہوئی تو کچھ ہی عرصے بعد چودھری غلام محمدؒ ریلوے کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر جماعت اسلامی میں باقاعدہ شامل ہوگئے۔ 1944ء میں وہ جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ (یہاں اس کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ اُسی زمانے میں ریلوے میں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما میاں محمد شوکتؒ کوٹری اسٹیشن پر ہیڈ ایگزامنر کے طور پر ملازم تھے۔ وہ بھی اُسی زمانے میں سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے اور واپس اپنے آبائی شہر سرہند شریف جاکر اُسی اسکول میں سائنس کے استاد مقرر ہوئے جہاں سے انہوں نے تعلیم حاصل تھی۔)

چودھری غلام محمدؒ کے بعد سندھ میں جن دو بھائیوں نے جماعت اسلامی کو منظم کیا اُن میں میاں محمد شوکتؒ اور اُن کے چھوٹے بھائی میاں محمد علیؒ کا کردار نمایاں رہا۔

چودھری غلام محمدؒ نے سندھ میں جماعت اسلامی کی دعوت کو عام کرنے میں اپنی زندگی کھپائی۔ انہوں نے مولانا جان محمد بھٹو جیسی علمی شخصیت کو جماعت اسلامی سے متعارف کرایا جس کی وجہ سے سندھ میں جماعت اسلامی کی دعوت کو عام کرنے میں بہت آسانیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ مولانا جان محمد بھٹو کے بعد سندھ میں دوسری بڑی اہم شخصیت لاڑکانہ کے مولانا جان محمد عباسی تھے جو جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ (مولانا جان محمد عباسیؒ کا خاندان تحریکِ پاکستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سرگرم حامی سمجھا جاتا تھا۔ ان کے والد بھی ایک بڑے عالم دین تھے۔)

چودھری غلام محمدؒ کے اہم کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے خاکسار تحریک کے تعلیم یافتہ اور بیدار مغز رہنما محترم محمد شفیع نظامانی جیسی شخصیت کو مولانا مودودیؒ کی کتابوں سے روشناس کرایا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے علاقے میں شاہ ولی اللہ کالج کے قیام کے لیے چودھری صاحب کو ضلع حیدرآباد سے آگے بارو چو باغ اسٹیشن کے قریب اپنی دو سو ایکڑ سے زیادہ زمین ہدیہ کی۔ اس کے لیے ادارۂ تعمیر ملت قائم کیا گیا۔ شفیع نظامانی صاحب کی درخواست پر اس ادارے کا صدر چودھری غلام محمدؒ کو بنایا گیا جو اپنی وفات تک اس منصب پر فائز رہے۔ شاہ ولی اللہ کالج کے پہلے پرنسپل پروفیسر محمد سلیمؒ تھے جنہوں نے ایک بڑے سرکاری کالج کی ملازمت کو اس کے لیے خیرباد کہا۔ شاہ ولی اللہ کالج سے فارغ ہونے والے طلبہ اپنے نام کے ساتھ ’’منصوری‘‘ لکھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کالج قائم ہونے کے بعد اس علاقے کا نام ’’منصورہ سندھ‘‘ رکھا گیا تھا۔ اس کالج میں مولانا جان محمد بھٹوؒ مستقل قیام پذیر رہے۔ وہ ایک طرح سے اس ادارے کے نگراں تھے۔ پروفیسر محمد سلیم جماعت اسلامی سے وابستہ علمی شخصیات کے علاوہ جماعت اسلامی سے باہر کی بھی کئی علمی شخصیات کو بطور استاد لے کر آئے جن میں ایک بڑا نام مفتی ولی حسن ٹونکیؒ کا بھی تھا۔ ’’لغات القرآن‘‘ کے مؤلف مولانا عبدالرشید نعمانیؒ کا شمار بھی شاہ ولی اللہ کالج کے سرپرستوں میں رہا۔ انہوں نے اپنے بیٹے عبدالشہید کو وہاں حصولِ علم کے لیے بھیجا، بعدازاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کیا اور یہیں سے پروفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔

چودھری غلام محمدؒ کو اللہ تعالیٰ نے ہمہ جہت صفات اور اوصاف سے نوازا تھا۔ وہ کم گو لیکن اپنے شخصی اوصاف، اور عملی زندگی میں ہمہ وقت لوگوں کی خدمت میں مصروف رہنے کی وجہ سے جماعت اسلامی سے باہر کے حلقوں میں بھی ایک محترم شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے۔ یہاں اس کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ مرحوم جنرل ایوب خان کے زمانے میں کراچی میں این ایس ایف سے تعلق رکھنے والے طلبہ رہنمائوں نے بھوک ہڑتال کی جن میں بائیں بازو کے معروف طالب علم رہنما مختار رضوی مرحوم بھی شامل تھے۔ بہت سے سیاسی رہنمائوں نے ان کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ جب ان کی حالت غیر ہونے لگی تو لوگوں نے چودھری غلام محمدؒ سے درخواست کی کہ آپ کوشش کرکے دیکھیں، تو چودھری صاحب فوراً آمادہ ہوگئے اور وہاں اپنے ساتھ جوس لے کر آئے، اُن سے کہا کہ میری لاج رکھیں اور بھوک ہڑتال ختم کردیں، میں آپ کے مطالبات کی حمایت میں آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ جس پر طلبہ نے بھوک ہڑتال ختم کردی۔ حالانکہ کسی کو امید نہ تھی کہ بائیں بازو کے لوگ جماعت اسلامی کے کسی رہنما کے کہنے پر بھوک ہڑتال ختم کردیں گے۔

مختار رضوی نے کہا تھا کہ میں اُن (چودھری غلام محمد) کو دیکھ کر انکار کی جرأت ہی نہ کرسکا۔ چودھری صاحب نے بھی اپنے وعدے کے مطابق طلبہ کے مطالبات کی حمایت میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔

چودھری غلام محمدؒ سراپا ایثار کیش آدمی تھے، فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے مارشل لا نے سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے کے ساتھ اُن کے دفاتر بھی بہ حق سرکار ضبط کرلیے تھے (ایسا کسی اور مارشل لا میں نہیں ہوا)۔ جماعت اسلامی کا دفتر پاکستان چوک کے قریب حقانی چوک پر تھا جو جماعت اسلامی کے ایک رکن، اُس وقت گیمن پاکستان کے چیف انجینئر انشاء اللہ خان کی اہلیہ نے انہیںجماعت اسلامی کے دفتر کے لیے عطیہ کیا تھا جو کہ خاصی قیمتی پراپرٹی تھی۔ 1962ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا ختم کرکے سیاسی جماعتوںکو بحال کیا تو جماعت اسلامی کے پاس اپنے دفتر کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، چودھری غلام محمد صاحب نے آرام باغ روڈ پر واقع اپنا فلیٹ جس میں وہ رہائش پذیر تھے، خالی کرکے جماعت اسلامی کا دفتر قائم کرنے میں ایک دن بھی نہیں لگایا اور خود ناظم آباد میں کرائے کے مکان میں منتقل ہوگئے جہاں 1967ء میں اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہونے تک رہائش پذیر رہے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے ذاتی مکان میں منتقل ہونے سے پہلے جماعت اسلامی کراچی کے اجتماعِ ارکان میں اپنے مکان پر ہونے والے تمام اخراجات کی تفصیل اور اس کے لیے وسائل کا حساب پیش کیا تو جماعت اسلامی کے ارکان نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں کہ آپ نے جماعت اسلامی سے تو کوئی پیسہ نہیں لیا۔ اُس پر اُن کا جواب تھا کہ کراچی کے امیر جماعت کی حیثیت سے یہ میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے ساتھیوں کو اپنے مالی معاملات کے بارے میں خود باخبر رکھوں۔

چودھری غلام محمدؒ جماعت اور جماعت سے باہرکے حلقوں میں بھی ایک بالغ نظر سیاست دان کے طور پر جانے پہچانے جاتے تھے، جو بین الاقوامی حالات خصوصاً مشرق وسطیٰ اور اسلامی ممالک میں چلنے والی تحریکوں سے پوری طرح باخبر رہتے اور وہاں دین کے احیا کے لیے کام کرنے والی تحریکوں سے قریبی ربط و ضبط رکھتے۔ بعض حضرات انہیں جماعت اسلامی کا ’’وزیر خارجہ‘‘ بھی کہتے تھے۔ اس میں کیا شک کہ وہ گفتگو اور تحریر میں نہایت سلیقے اور سوچ بچارکے بعد زبان کھولتے اور قلم اٹھاتے۔ انہوں نے انڈونیشیا کی آزادی کے بعد پہلے وزیراعظم ڈاکٹر محمد ناصر کے ساتھ 1960ء کے عشرے میں مشرق وسطیٰ کا دورہ کرنے کے بعد ’’مڈل ایسٹ کرائسز‘‘ کے نام سے انگریزی میں کتاب لکھی، جسے محترم پروفیسر خورشید احمد نے نظرِ ثانی کے بعد شائع کیا تھا، وہ اس کا عملی ثبوت ہے کہ انہیں دنیا کو وسیع تناظر میں دیکھنے کا کس قدر ملکہ حاصل تھا۔ وہ بین الاقوامی اور عالم اسلام کے معاملات کے ساتھ ملک کی داخلی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ 1954ء میں پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اسمبلی توڑ کر 1954ء کا دستور نافذ ہونے سے پہلے ہی ختم کرنے کا ارتکاب کیا حالانکہ دستور ساز اسمبلی تمام مراحل مکمل کرنے کے بعد دستور کی منظوری کا اعلان کرچکی تھی۔ ملک غلام محمد نے یہ کہہ کر شب خون مارا کہ اس پر گورنر جنرل کے توثیقی دستخط موجود نہیں۔ اور اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس محمد منیر نے یہ کہہ کر غلام محمد کے اس عمل کو دوام بخشا کہ تیکنیکی بنیاد پر سندھ چیف کورٹ کو یہ کیس سننے کا اختیار حاصل نہیں۔ واضح رہے کہ سندھ چیف کورٹ نے ملک غلام محمد کے مذکورہ اقدام کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

چودھری غلام محمدؒ اُن چند شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے مولانا ظفر احمد انصاری کی قیادت میں مولوی تمیزالدین کو اُس وقت کے گورنر ملک غلام محمد کا اقدام عدالت میں چیلنج کرنے کے لیے آمادہ کیا اور اس کے لیے وسائل جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل میاں طفیل محمد مرحوم نے فراہم کیے تھے۔ اس وفد میں ڈاکٹر الٰہی علوی (سابق صدرڈاکٹر عارف علوی کے والد)، پاکستان مسلم لیگ کے جوائنٹ سیکرٹری منظر عالم اور بار کے سیکرٹری شامل تھے۔ ان کا جماعت اسلامی سے باہر کے حلقوں میں بھی کس درجہ احترام تھا اس کا مظہر اُن کے جنازے کا یہ منظر ہے کہ وہاں اے کے بروہی جیسی شخصیت جنازے کے پاس زمین پر بیٹھی زاروقطار رو رہی تھی۔

غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ مرحوم (ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے استاد) تو چودھری غلام محمدؒ کو اپنا مربی کہا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کراچی میں کئی بار غلام حسین عباسی ایڈووکیٹ کے ہاں قیام پذیر بھی رہے۔ ویسے مولانا عام طور پر نقی نواب مرحوم اور پروفیسر عبدالغفور کے ہاں قیام فرمایا کرتے تھے۔

اگر 1958ء کا مارشل لا نہ لگتا تو کراچی سے چودھری غلام محمدؒ کی نگرانی میں روزنامہ ’’قاصد‘‘ کے نام سے اخبار نکالنے کی تمام تیاریاں مکمل تھیں جس کے ایڈیٹر کے لیے اُس وقت روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر یوسف صدیقی مرحوم کا نام سامنے آیا تھا۔ جب کہ نیوز ایڈیٹر کے طور پر احمد اسحاق مرحوم کا نام طے پایا تھا۔ واضح رہے کہ ان کے چھوٹے بھائی عارف اسحاق اپنے انتقال تک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے۔ یوسف صدیقی مرحوم زندگی بھر چودھری غلام محمدؒ کو یاد کرتے ہوئے رو دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’میرا بھائی بہت جلد رخصت ہوگیا۔‘‘ چودھری غلام محمدؒ کی وجہ سے پاکستان سے کئی طلبہ مکہ مکرمہ اور عراق کی جامعہ میں اسکالرشپ پر حصولِ تعلیم کے لیے گئے۔ ان میں سے کئی مکہ مکرمہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد امریکہ اور دیگر مغربی ممالک گئے۔

چودھری غلام محمدؒ نے ہی ڈھاکہ سے روزنامہ ’’سنگرام‘‘ اور کراچی سے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے اجراء میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ (واضح رہے کہ روزنامہ جسارت ملتان سے ادارہ اردو ڈائجسٹ کے تحت نکلا تھا اور کراچی سے اس کے لیے چودھری غلام محمد صاحب نے ’’آزاد پیپرز لمیٹڈ‘‘ کے نام سے ادارہ نقی نواب صاحب کی چیئرمین شپ میں قائم کیا تھا، اور اس کے لیے انہوں نے محترم الطاف حسن قریشی سے فاران کلب کے نائب صدر سید مقدس علی کی قیام گاہ پر مشاورت کی تھی۔ کراچی سے جسارت نکلا، اس کے چیف ایڈیٹر بھی جناب الطاف حسن قریشی ہی رہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد الطاف حسن قریشی صاحب نے جسارت کا ڈیکلیریشن آزاد پیپر لمیٹڈ کے نمائندے سید ذاکر علی صاحب کے نام منتقل کردیا تھا۔)

آخر زمانے میں جب چودھری غلام محمد صاحب کی طبیعت خراب تھی تو ایک دن اچانک اپنے گھر سے چلے گئے۔ گھر والے پریشان کہ کہاں چلے گئے! بہت دیر بعد جب وہ رکشے میں واپس آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آپ کہاں چلے گئے تھے، آپ کی تو طبیعت خراب ہے؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ایک مخیر صاحب نے جن سے میں نے روزنامہ ’’سنگرام‘‘ ڈھاکہ کے لیے تعاون کی درخواست کی تھی تو انہوں نے کہا تھا کہ میں ضرور تعاون کروں گا مگر شرط یہ ہے کہ آپ خود تشریف لائیں، تو میں وہاں چلا گیا تھا اور انہوں نے جو رقم دی وہ بینک کے ذریعے ڈھاکہ بھجوا کر واپس آگیا۔ یہ ان کی خصوصیت تھی کہ وہ اپنے ایسے معاونین جو خیر کے کام میں اپنا نام پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے، اُن کا نام ظاہر کرنے سے گریز کرتے تھے۔ کیوںکہ وہ بہت پُرآشوب دور تھا اور حکومتِ وقت ایسے لوگوں کی ٹوہ میں رہتی تھی جو حکومت کے ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے تھے۔ اس ناچیز کو ایک ذاتی تجربہ بھی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں ایک جلسے میں حکومت مخالف نعرے لگانے پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کئی کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اُن کی ضمانت کے لیے جماعت اسلامی کے کئی ارکان نے اپنے گھروں کے کاغذات ضمانت کے طور پر عدالت میں پیش کیے تو عدالت نے حکومت کے دبائو پر انہیں قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ضمانت کے لیے کیش جمع کرائیں۔ اتنی رقم کسی کے پاس بھی موجود نہیں تھی۔ جب چودھری غلام محمدؒ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس ناچیز کو جوڑیا بازار کے ایک تاجر حاجی احمد حاجی کریم کے نام چٹھی دے کر بھیجا کہ ان طلبہ کی آپ ضمانت کروا دیں۔ انہوں نے فوراً اپنے منیجر کو بینک سے کیش نکلواکر میرے ساتھ سٹی کورٹ بھیجا اور ان کی ضمانت کروائی۔ وکیل کے طور پر کوئی فیس لیے بغیر میجر (ریٹائرڈ) سلیم حقانی (حسین حقانی کے والد) اور راجا حق نواز مرحوم پیش ہوئے۔

چودھری غلام محمد صاحب نے ہی کراچی میں حلقۂ صحافت اور لیبر ونگ بھی قائم کیا۔ اس لیبر ونگ نے جہاں بہت سے صنعتی علاقوں میں مزدوروںکے لیے کام کیا وہیں پی آئی اے میں لیفٹ کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے ’’پیاسی‘‘ کو منظم کیا۔ لیبر ونگ میں ملک محمد شفیع صاحب کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

چودھری غلام محمد کے دور میں جماعت اسلامی کا ایک اہم کارنامہ ’’مُٹھی آٹا اسکیم‘‘ بھی تھا۔ جماعت اسلامی کے کارکن ہر ہفتے لوگوں کے گھروں میں ایک کنستر رکھ جاتے تھے جس پر لکھا ہوتا تھا: ’’جب آپ اپنے گھر والوں کے لیے آٹا گوندھیں تو ایک مٹھی آٹا اس کنستر میں اُن کے لیے بھی ڈال دیں جن کے گھروں میں آج آٹا نہیں ہے۔‘‘ یہ اسکیم اتنی کامیاب رہی کہ سعود آباد جیسے پسماندہ علاقے میں بھی ہر ہفتے 40 من آٹا جماعت اسلامی کے کارکن مستحق گھروں میں پہنچایا کرتے تھے۔

چودھری غلام محمد مرحوم نے ’’مکتب چراغِ راہ‘‘ اور ماہنامہ ’’چراغِ راہ‘‘ سید کاظم علی مرحوم کی شراکت میں قائم کیا تھا۔ ماہنامہ چراغِ راہ کے ایڈیٹر پروفیسر خورشید صاحب رہے۔ جنرل ایوب خان کا مارشل لا ختم ہونے کے بعد 1962ء میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلامک ریسرچ اکیڈمی (ادارہ معارف اسلامی) کراچی میں قائم کی جس کے صدر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ تھے اور نائب صدر مولانا ناظم علی ندویؒ، جب کہ میاں طفیل محمدؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا منتخب الحق قادری، ڈاکٹر الٰہی علوی، پروفیسر خورشید احمد، چودھری غلام محمدؒ اس ادارے کے رکن کے ساتھ ساتھ اعزازی سیکرٹری بھی رہے۔

اس ادارے کی ابتدا میں طویل عرصے تک ملک بھر سے اہلِ علم تین، تین ماہ کے لیے تشریف لایا کرتے تھے اور جدید تعلیم یافتہ تشنگانِ علم کو تفسیر، حدیث اور فقہ کے کورس کرواتے جس کا ذکر تفصیل کے ساتھ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسنؒ اپنے ایک انٹرویو میں کر چکے ہیں۔

ڈاکٹر ممتاز احمد مرحوم بھی اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں کام کرتے تھے۔ اس ناچیز کو اسلامی جمعیت طلبہ میں وہی لے کر آئے تھے اور جماعت اسلامی کے کسی جلسے میں پہلی بار 1964ء میں ککری گرائونڈ میں اپنے ساتھ لے کر گئے تو اس ناچیز نے یہ منظر دیکھا کہ چودھری غلام محمدؒ اپنے کارکنوں کے ساتھ جلسے میں دریاں بچھا رہے تھے، کچھ دیر کے بعد سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو چودھری غلام محمد صاحب ان کو لے کر اسٹیج پر پہنچ گئے۔ میرے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ جماعت اسلامی نے پوسٹر میں جو وقت جلسے کا لکھا تھا اس میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ ٹھیک اُسی وقت جلسہ شروع ہوا، اور جو مقرر وقت تھا اُس پر اختتام ہوا۔

یہ ناچیز اسلامی جمعیت طلبہ میں آنے سے پہلے این ایس ایف کا ایک عام کارکن تھا، اُس زمانے میں میرے ایک مرحوم دوست مجھے اپنے ساتھ جماعت اسلامی کی ایک تقریب میں لے کر گئے تھے، یہ زمانہ بھی چودھری غلام محمدؒ صاحب کا تھا۔ جماعت اسلامی کراچی نے پہلی میت گاڑی خریدی تھی جس کی تقریب سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے خطاب کیا جس کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں کہ ’’میں جماعت اسلامی کے کارکنوں کو یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ خدمتِ خلق کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں بلکہ خود مقصد اور قربِ الٰہی کے حصول ذریعہ ہے۔‘‘

جنرل ایوب خان نے 1964ء میں جماعت اسلامی پر پابندی لگاکر مجلسِ شوریٰ کے تمام ارکان کو پابندِ سلاسل کردیا تھا، سپریم کورٹ نے اس پابندی کو غیر قانونی قرار دے کر جماعت اسلامی کو بحال کیا، اس کے بعد کراچی میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا مادرِ ملت کی حمایت میں پہلا انتخابی جلسہ تھا۔ (واضح رہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے جیل میں مقید ہونے کے باوجود مادرِ ملت کی حمایت کے فیصلے کا اعلان کردیا تھا اور جماعت اسلامی کے کارکن ملک بھر میں پوری دلجمعی کے ساتھ مادرِ ملت کی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ اس جلسے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جنرل ایوب خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آپ کہتے ہیں کہ میں نے مارشل لا اس لیے لگایا تھا کہ سیاست دان آپس میں لڑ رہے تھے، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے گھر کی حفاظت کے لیے بندوق بردار چوکیدار رکھے اور وہ یہ کہہ کر گھر پر قبضہ کرلے کہ گھر والے آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ جنرل ایوب خان صاحب! آپ کو ملک کی حفاظت کے لیے جو بندوق دی گئی تھی وہ آپ نے اس ملک کے شہریوں پر تان لی۔ آپ کے اس اقدام نے آپ کو ملک کی چوکیداری کے لیے بھی نااہل کردیا ہے۔ آپ محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں جس طرح کی زبان استعمال کررہے ہیں کیا وہ کسی مہذب آدمی کے لیے روا ہوسکتی ہے؟ میرے نزدیک تو آپ کا یہ فعل نہایت شرم ناک ہے۔‘‘ یہاں یہ ذکر غیر ضروری نہیں ہوگا کہ چودھری غلام محمدؒ ایوب خان کے دور میں ایک بار پہلے بھی اس جرم میں گرفتار ہوئے تھے کہ انہوں نے غلام احمد پرویز کا وہ خط شائع کیا تھا جو انہوں نے ایوب خان کو لکھا تھا کہ ’’آپ ہمیں فنڈ فراہم کردیں تو ہم جماعت اسلامی کا قلع قمع کردیں گے۔‘‘ یہ خط شائع کرنے پر چودھری غلام محمدؒ کے ساتھ اُس وقت کے جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات اسحاق صدیقی مرحوم اور ہوم ڈپارٹمنٹ میں جماعت کے ایک ہمدرد مسعود مسقطی بھی گرفتار ہوئے تھے۔ ایوب خان کے دور میں ہی چودھری غلام محمد صاحب پر بغاوت کا ایک مقدمہ بھی قائم ہوا تھا کہ انہوں نے بلوچ لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی جس میں سردار عطا اللہ خان مینگل، خیر بخش مری اور حسین شہید سہروردی کی بیٹی بیگم اختر سلیمان بھی شریک تھیں۔

چودھری غلام محمدؒ اپنے آخری بیرونی سفر سے کراچی تشریف لائے، اگرچہ اُن کی صحت بہت اچھی نہیں تھی تاہم اس ناچیز نے اُن سے درخواست کی کہ آپ فاران کلب میں جس کا یہ ناچیز اُس وقت اعزازی جنرل سیکرٹری تھا، عالم اسلام، اسلام کی نشاۃ ثانیہ، اسباب اور امکانات کے موضوع پر ایک لیکچر دیں۔ چودھری صاحب نے میری یہ درخواست قبول کی اور فاران کلب کے صدر عبدالرحمٰن چھاپرا مرحوم کی رہائش گاہ کے لان میں ایک گھنٹے سے زیادہ مفصل گفتگو فرمائی جو اُس وقت ریکارڈ کی گئی تھی مگر بدقسمتی سے وہ بعد میں ضائع ہوگئی۔ اس خطاب میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میری دلی خواہش اور تمنا تو یہ ہے کہ یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہو اور برصغیر بشمول پاکستان کو اللہ نے یہ اعزاز تو ضرور بخشا ہے کہ فکری رہنمائی کے لیے یہاں بہت کام ہوئے لیکن جب میں اللہ کی سنت پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اللہ نے یہ اعزاز آزاد قوموں کو بخشا ہے اور میری نگاہ میں اسلامی نشاۃ ثانیہ ترکی سے ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

چودھری غلام محمدؒ نے اپنی زندگی میں کبھی بلدیاتی، صوبائی یا قومی اسمبلی کا الیکشن نہیں لڑا لیکن انہوں نے 1958ء میں کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 100 ارکان کے ہائوس میں جماعت اسلامی کے 21 ارکان کو کھڑا کیا جس میں ایک کے سوا تمام ارکان کامیاب ہوئے جن میں پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، افتخار احمد، معروف سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی (جو اُس وقت جماعت اسلامی کے شعبہ خدمتِ خلق میں کام کرتے تھے) بھی شامل تھے۔

کراچی میں دارالحکومت قائم ہونے کی وجہ سے ملکی و بیرونی اہم شخصیات سے ان کا میل جول رہا جن میں علامہ سید سلیمان ندویؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی اعظم پاکستان محمد شفیعؒ، ڈاکٹر حمیداللہؒ اور بے شمار دیگر صاحبانِ علم شامل ہیں۔ مولانا ظفر احمد انصاری صاحب سے تو ان کا تعلق اتنا گہرا تھا کہ وہ کراچی میں ہوتے تو رات کو گھر جانے سے پہلے اُن سے ملنے کے لیے تشریف لاتے تھے۔ اگر کراچی یا ملک سے باہر ہوتے تو واپسی پر اُن کے پاس آتے اور پھر گھر جاتے تھے۔

1957ء میں جماعت اسلامی کے ارکان کا اجتماع ماچھی گوٹھ تحصیل صادق آباد میں چودھری غلام محمدؒ کی امارت میں ہوا۔ چودھری غلام محمدؒ کی خواہش اور میزبان سردار امین خان لغاری کے اصرار پر (جن کی فیکٹری میں یہ اجتماع ہوا تھا) مولانا انصاری بھی وہاں موجود تھے۔ مولانا انصاری کی خواہش تھی کہ جماعت میں جو اس وقت اختلاف ِرائے پایا جا رہا ہے وہ کسی طرح ختم ہو اور یکسوئی پیدا ہو۔ مسئلہ اُس وقت زیر بحث یہ تھا کہ کچھ بزرگوں کا یہ خیال تھا کہ دعوتی کام سیاسی کام کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے۔ اہم بات یہ تھی کہ بعض حضرات کا رجحان دعوت و تبلیغ کی طرف زیادہ تھا۔ اس کے حل کے لیے ایک تجویز یہ پیش ہوئی کہ مولانا اصلاحی کی قیادت میں ایک شعبہ دعوت و تبلیغ کا قائم ہو اور دوسرا سیاسی امور کا۔ اس کے لیے ملتان سے تعلق رکھنے والے باقر علی خان مرحوم کا نام سامنے آیا تھا۔ وہ اعلیٰ سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ کر جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تھے اور اُن کا اثر رسوخ بھی بہت تھا۔ ان کا انتقال ہوا تو پورا ملتان شہر ان کے سوگ میں بند رہا۔

چودھری غلام محمدؒ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے مولانا مودودیؒ کراچی تشریف لائے اور ناظم آباد میں نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا:

’’چودھری غلام محمد مرحوم نے جس جوش، محنت اور وقت و مال کی قربانی کے ساتھ دین کی خدمت کی ہے، اُس کی میں تعریف نہیں کرسکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں اور اس ملک کے لاکھوں باشندے گواہ ہیں کہ چودھری صاحب نے دین کی خدمت میں دانستہ کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اپنی حیات کا خطرہ مول لے کر انہوں نے یہ کام کیا۔ خرابیِ صحت کے باوجود انہوں نے بیرونی ملکوں کے سفر کیے۔ ان کی کوششوں سے افریقہ میں اسلامی مرکز قائم ہوا۔ چودھری صاحب فلسطین کے مسئلے پر تمام اسلامی ممالک میں رائے عامہ ہموار کرتے رہے۔ خدا کے یہاں اُس کے بندوں کی گواہی مقبول ہوتی ہے اور آپ سب گواہ ہیں کہ چودھری صاحب نے حتی الوسع دین کی خدمت کی۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان کی خدمات کو قبول کرے اور اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو وہ انہیں معاف کردے۔‘‘