پارلیمنٹ اور سیاسی تعطل کی فضا میں اولمپکس کا انعقاد کیسا رہے گا
گزشتہ ہفتے ہونے والے انتخابات نے فرانس کو بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے۔ لوگ یہ سوچ سوچ کر پریشان تھے کہ کہیں میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی اقتدار میں نہ آجائے۔ پہلے مرحلے میں نیشنل ریلی نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور یوں دوسری جنگِ عظیم کے بعد پہلی بار فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔
دوسرے مرحلے کی پولنگ نے بازی پلٹ دی۔ لی پین کی ساری امیدیں دم توڑ گئیں۔ وہ سمجھ ہی نہ پائیں کہ یہ سب ہوا کیسے! پہلے مرحلے کی پولنگ میں نیشنل ریلی کی بھرپور کامیابی کو دیکھتے ہوئے بائیں بازو کی جماعتوں نے مل کر پاپولر فرنٹ بنالیا۔ یہ فرنٹ کامیاب رہا ہے۔
حتمی انتخابی نتائج کے مطابق فرانسیسی پارلیمنٹ میں پاپولر فرنٹ کی 182، صدر ایمانویل میکراں کی جماعت کی 163، اور نیشنل ریلی کی 143 نشستیں ہیں۔
معلق پارلیمنٹ کے ساتھ فرانس سیاسی غیر یقینی کے دور میں داخل ہوا ہے۔ کوئی بھی سیاسی اتحاد اِتنی واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکا کہ اپنے طور پر حکومت بناسکے۔ ایسی صورتِ حال کے لیے یہ موقع بہت نامناسب ہے کیونکہ 26 جولائی سے پیرس میں اولمپک گیمز شروع ہورہے ہیں۔ ان گیمز کے تمام معاملات کی نگرانی پر مامور وزیرِ داخلہ کی پوزیشن انتہائی کمزور ہوگئی ہے۔
پارلیمنٹ میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کی واضح اکثریت نہ ہونے سے فرانسیسی سیاست کے لیے ایک ایسا بحران پیدا ہوسکتا ہے جس سے چھٹکارا پانا آسان نہ ہوگا۔ قوم پریشان ہے کہ اب کیا ہوگا؟ انتخابات نے تو تمام معاملات کو، بلکہ ملک کو بند گلی میں لا کھڑا کیا ہے۔ فرانسیسی پارلیمنٹ میں کوئی پارٹی نہیں جیت سکی ہے بلکہ اتحاد جیتے ہیں۔ تین نظریاتی اتحاد کامیاب ہوئے ہیں اور ہر ایک بہت سی جماعتوں پر مشتمل ہے۔ اِس کے نتیجے میں مفادات کا خطرناک تصادم پیدا ہوگا۔
اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ حکومت کی تشکیل اور اولمپکس کے انعقاد کا ہے۔ اس حوالے سے تیاریاں تو کی جاچکی ہیں تاہم سوال یہ ہے کہ اب ذمہ داریاں کسے سونپی جائیں گی؟ صدر میکراں کا مرکز پسند بلاک بھی الجھنوں سے دوچار ہے۔ آئین مزید ایک سال تک کسی الیکشن کی اجازت نہیں دیتا۔
ژاں لک میلینچوں کی انقلاب پسند جماعت ایل ایف آئی کی قیادت میں قائم بائیں بازو کا دی نیوپاپولر فرنٹ (این ایف پی) 577 نشستوں کے ایوان میں نمایاں ترین ہے تاہم فیصلہ کن اکثریت سے وہ بہت دور ہے۔
کون سا سیاسی اتحادی کتنی نشستیں جیتے گا یہ تو پورے یقین سے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا، تاہم ایک بات بہت پہلے سے دکھائی دے رہی تھی اور محض تجزیہ کار ہی نہیں بلکہ عوام بھی اندازہ لگا چکے تھے کہ پارلیمنٹ معلق ہوگی، اُس میں کسی بھی فریق کی فیصلہ کن اکثریت نہیں ہوگی۔
جون میں یورپی پارلیمنٹ کے الیکشن میں نیشنل ریلی کی کامیابی کے بعد صدر میکراں نے قبل از وقت انتخابات کی کال دی تھی۔ اُنہیں امید تھی کہ فرانس کے لوگ دوسری جنگِ عظیم کے بعد انتہائی دائیں بازو کی پہلی حکومت کے قیام کے خوف سے اُنہیں ووٹ دیں گے۔
صدر میکراں کے نصف خدشات ہی درست ثابت ہو پائے ہیں۔ فرانس کے لوگوں نے نیشنل ریلی کو بھی پچھاڑ دیا ہے، تاہم صدر میکراں کی مرکز پسند حکومت کو واضح اکثریت دینے سے گریز کیا ہے۔
ایک دنیا کی نظریں فرانس کے الیکشن پر تھیں کیونکہ ایک طرف تو انتہائی دائیں بازو کا مقدر دیکھنا تھا اور دوسری طرف یہ بھی دیکھنا تھا کہ معلق پارلیمنٹ اور سیاسی تعطل کی فضا میں اولمپکس کا انعقاد کیسا رہے گا۔ انتخابی ماحول اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں نے پیرس اولمپکس کو دُھندلا دیا ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے بھی زیادہ پریشان کن ثابت ہو رہا ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی پیرس میں ہنگامے پُھوٹ پڑے۔ کئی علاقوں میں توڑ پھوڑ ہوئی، گاڑیوں اور دکانوں کو آگ لگادی گئی۔ صورتِ حال اس قدر بگڑی کہ فسادات پر قابو پانے میں مہارت رکھنے والے پولیس کے دستوں کو طلب کیا گیا۔ ہنگامہ آرائی نیشنل ریلی پارٹی کے کارکنوں نے کی تھی کیونکہ شکست اُن سے ہضم نہیں ہو پائی تھی۔
وزیرِ داخلہ جیرالڈ ڈارمینن اولمپکس کی سیکورٹی کے انچارج ہیں۔ اب خود اُن کا منصب خطرے میں ہے کیونکہ وزیراعظم گیبریل ایٹل بھی منصب چھوڑنے کا ذہن بناچکے ہیں۔
صدر میکراں نے وزیراعظم گیبریل ایٹل سے کہا ہے کہ فی الحال وہ اپنے منصب پر فائز رہیں اور معاملات کی نگرانی کرتے رہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سیاسی تعطل بہت زیادہ ہے۔ نئے وزیراعظم کا انتخاب آسان نہ ہوگا۔
فرانس کی یونیورسٹی آف فرانسے کومٹے میں تاریخ اور کھیلوں کے پروفیسر پال ڈائچی کہتے ہیں کہ اولمپکس کے منتظمین اس لیے زیادہ پریشان ہیں کہ جرائم، دہشت گردی اور فسادات کا خطرہ موجود ہے۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ کا منصب کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں وزیر داخلہ کے بدلے جانے سے معاملات بگڑ جائیں گے۔
انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے ہنگامہ آرائی اور انتہائی بائیں بازو کے عناصر کے جشنِ فتح نے سیکورٹی کے حوالے سے خدشات بڑھا دیے ہیں۔ فرانسیسی حکومت نے اولمپکس کی تیاریوں پر 2 ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ان کھیلوں کا کامیاب انعقاد متعلقہ ملک کے لیے سرمایۂ افتخار ہوا کرتا ہے۔
نئی فرانسیسی پارلیمنٹ میں دی نیو پاپولر فرنٹ، ایل ایف آئی، دی سوشلسٹ پارٹی، گرینز اور کمیونسٹ پارٹی مضبوط ترین فریق ہوں گے۔ یہ لوگ ریٹائر منٹ کی عمر کم کرنا چاہتے ہیں۔ صدر میکراں نے 2023ء میں ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی تھی۔ اس کا مقصد بہبودِ عامہ پر سرکاری اخراجات گھٹانا تھا۔
ژاں لک میلینچوں نے، جو خاصے سخت گیر لیڈر ہیں، صدر میکراں سے کہا ہے کہ اُن کے اتحاد سے وزیر اعظم مقرر کریں اور مکمل این ایف پی پروگرام نافذ کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ این ایف پی حکومت کے لیے تیار ہے اس لیے تاخیر کی گنجائش نہیں۔ عوام سے جو وعدے کیے ہیں وہ بھی تو پورے کرنے ہیں۔ فرانس 24 کے مطابق میلینچوں کا کہنا ہے کہ اُن کے اتحاد کی فتح نے ملک میں جمہوریت کو بچالیا ہے۔ اب لازم ہے کہ اِس اتحاد کو حکومت سازی کا موقع دیا جائے۔
بائیں بازو کے فتح یاب اتحاد میں بیشتر نہیں چاہتے کہ میلینچوں خود وزیراعظم بنیں۔ این ایف پی کے اندر اور اُس سے باہر بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ بعض معاملات میں بائیں بازو والوں کو کمپرومائز کرنا پڑے گا۔
فرانس کے وزیراعظم گیبرل ایٹل کے لیے یہ صورتِ حال بہت غیر یقینی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کو بہت عجیب صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ایوان کے اندر تین اتحاد کامیاب ہوئے ہوں اور کوئی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ گیبریل ایٹل کا کہنا ہے کہ جب تک ضرورت ہوگی تب تک وہ اپنے منصب پر رہیں گے کیونکہ منصب اچانک چھوڑ دینے سے سیاسی تعطل میں اضافہ ہوگا۔ ویسے وہ استعفیٰ تو دے ہی چکے ہیں، صدر میکراں نے اُن سے کام کرتے رہنے کو کہا ہے۔
فرانس کے آئین کی رُو سے وزیراعظم کا تقرر صدر کو کرنا ہوتا ہے، تاہم پارلیمنٹ بھی حکومت سے کہہ سکتی ہے کہ کام چھوڑ دے۔ صدر کسی ایسی شخصیت کو منتخب کرتا ہے جسے پارلیمنٹ قبول کرسکے۔ اس وقت فرانس کی پارلیمنٹ جس حالت میں ہے اُس میں کسی بھی شخص کے لیے وزیراعظم کی حیثیت سے اعتماد کا ووٹ لینا انتہائی دُشوار گزار مرحلہ ہوگا۔ وسیع تر اتحاد فرانس کی تاریخ میں رہے نہیں، مگر اِس وقت یہی ایک راستہ بچا ہے جس پر چل کر سیاسی نظام کو بچایا جاسکتا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے الیکشن میں سوشلسٹ لسٹ کے لیڈر رافیل گلکز مین کہتے ہیں کہ ہم منقسم اسمبلی میں ہیں اور ہمیں دانش مندانہ طرزِ فکر و عمل اختیار کرنا ہے۔ صدر میکراں کے اتحادی اور سابق وزیر فرانکوئی بائرو کا کہنا ہے کہ واضح اکثریت کا زمانہ گیا اور اب ہر ایک کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی ہے۔
صدر میکراں کے دور کے سابق وزیراعظم ایڈورڈ فلپ کہتے ہیں کہ حکومت سازی کے لیے بائیں بازو سے ڈیل کرنا ہی پڑے گی تاہم وہ خود ایل ایف آئی کے ساتھ کام کرنے کے حق میں نہیں۔
ایک مشکل یہ بھی ہے کہ بائیں بازو کا اتحاد حکومت میں اُسی وقت شامل ہوگا جب اُس کا ایجنڈا نافذ ہوگا۔ وہ کہہ چکا ہے کہ اگر اُس کا پروگرام قبول نہ کیا گیا تو حکومت میں شمولیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
بہت سے معاملات میں تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان غیر معمولی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ عام آدمی کی اجرت، سرکاری ملازمین کی تنخواہ، ٹیکس، پنشن اور ماحول دوست سرمایہ کاری کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر آنا بہت مشکل ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کو مزید سیاسی تعطل سے بچانے کے لیے فی الحال ایک عارضی نوعیت کی حکومت تشکیل دے دی جائے اور پس پردہ مذاکرات کے ذریعے وسیع البنیاد، توانا تر مخلوط حکومت کی راہ ہموار کی جائے۔ ویسے صدر میکراں نے اس حوالے سے اب تک جو کوششیں کی ہیں وہ ناکام رہی ہیں۔
برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق صدر میکراں چاہیں تو مختلف شعبوں سے ماہرین کو لے کر ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کریں، تاہم فرانس کی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا نہیں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نگراں حکومت بناکر وزیرِاعظم گیبریل ایٹل سے کہا جائے کہ کام جاری رکھیں۔
عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ایسی معلق پارلیمنٹ میں ٹھوس اور پائیدار مخلوط حکومت کا قیام کسی بھی اعتبار سے کوئی آسان مرحلہ نہ ہوگا۔ صدر میکراں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر سیاسی تعطل و انتشار برقرار رہا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی میعاد ختم ہونے سے پہلے مستعفی ہوجائیں۔ اب چاہے جو بھی ہو، فرانس مخلوط حکومتوں کے دور میں داخل ہوچکا ہے اور ایسا فرانس کی سیاست میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔
انٹرنیشنل سوسائٹی آف اولمپک ہسٹورینز کے صدر ڈیوڈ والیچینسکی کہتے ہیں کہ فرانس کی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے اُس سے اولمپکس کی شان و شوکت بھی متاثر ہوگی۔ پھر بھی اُنہیں یقین ہے کہ جب اولمپکس شروع ہوں گے تب سیاسی تعطل پس منظر میں چلا جائے گا۔