کنزرویٹو پارٹی کے 14 سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوگیا
برطانیہ میں 4 جولائی 2024ء کو منعقدہ انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کے 14 سالہ دورِ اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ سابق وزیراعظم رشی سونک نے ماہ مئی میں چند معاشی اشاریوں کی بہتری پر ایک جوا کھیلا اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا جس کے بارے میں یہ پیش گوئی کی گئی کہ یہ اقدام کنزرویٹو پارٹی کی ہار کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ تاہم سیاسی، معاشی، داخلی اور بین الاقوامی معاملات پر بدترین کارکردگی کی وجہ سے ووٹرز نے مجموعی طور پر کنزرویٹو پارٹی کے خلاف ووٹ دیا اور کنزرویٹو پارٹی کو گزشتہ ایک سو سال کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانوی پارلیمان کی 650 نشستوں میں سے 412 لیبر پارٹی نے حاصل کیں جوکہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں 211 زیادہ ہیں۔ سابقہ حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی اپنی 251 نشستیں کھو بیٹھی اور اسے صرف 121 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی، جبکہ سب سے حیرت انگیز کارکردگی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے دکھائی جس نے 72 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ گزشتہ پارلیمان میں اس کے پاس صرف 8 نشستیں تھیں۔ اسکاٹ لینڈ کی حکمران جماعت اسکاٹش نیشل پارٹی کو بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ محض 9 نشستوں پر کامیاب ہوپائی، اسے گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اِس مرتبہ 39 نشستیں کم ملیں۔ اسی طرح اس الیکشن میں بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں نے حصہ لیا جن میں اکثریت مسلمان امیدواروں کی تھی کہ جو دونوں بڑی پارٹیوں کی فلسطین پالیسی کے خلاف دونوں سے مطمئن نہیں تھے، اور انہوں نے خود براہِ راست الیکشن میں حصہ لیا۔ تاہم اس میں بھی ایک امید افزا بات یہ ہے کہ مسلمان برطانیہ میں مین اسٹریم سیاسی دھارے میں شامل ہوکر اپنی بات سامنے لے کر آرہے ہیں اور اس کے مظاہر 7 اکتوبر کے بعد سے برطانیہ میں دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن اس میں ایک بدقسمتی یہ رہی کہ مسلمانوں کی تنظیموں میں سوائے مسلم کونسل آف برٹین کے، کوئی بھی مسلمان ووٹرز اور امیدواروں کو سمت دینے میں ناکام رہی۔ نتیجتاً مسلم اکثریتی علاقوں سے کئی مسلم امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہوئے اور جیت کسی تیسرے کی ہوئی۔ اسی طرح غزہ کے مسئلے پر مسلسل آواز بلند کرنے والوں کو بھی.. جن کا تعلق کسی بھی جماعت سے تھا.. اسی زمرے میں ڈال دیا گیا۔ مشرقی لندن کے علاقے الفورڈ سے جہاں مسلم اکثریتی ووٹرز ہیں، ایک نوجوان فلسطینی نژاد خاتون امیدوار لیئم محمد نے آزاد حیثیت میں الیکشن حصہ لیا، ان کے مدمقابل لیبر پارٹی کے امیدوار محض 528 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے، جبکہ کنزرویٹو پارٹی نے بھی کمالِ ہوشیاری سے یہاں مسلم امیدوار کاز رضوی کو ٹکٹ دیا جنہوں نے 9619 ووٹ حاصل کیے، اور یوں دو مسلمانوں کے درمیان ووٹ کی تقسیم ہوئی اور لیبر پارٹی کے Wes Streeting کامیاب قرار پائے۔ ایسی ہی صورت حال لندن کے علاقے وائٹ چیپل اور Bethenal Green میں دیکھنے میں آئی جہاں بنگلہ دیشی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہاں سے لیبر پارٹی کی امیدوار روشن آراء علی تھیں جن کو لیبر پارٹی کی اسرائیل نواز پالیسیوں کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا تھا، ان کے مدمقابل آزاد امیدوار امام اور کمیونٹی لیڈر اجمل مسرور تھے، جبکہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے یہاں سے ایک مسلم امیدوار روبینہ خان کو ٹکٹ دیا۔ اصل مقابلہ یہاں لیبر پارٹی اور آزاد امیدوار کے درمیان تھا، لیکن یہاں پر آزاد امیدوار اجمل مسرور محض 1689 ووٹوں سے شکست سے دوچار ہوئے جبکہ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی روبینہ خان نے 4777 ووٹ حاصل کیے۔ گوکہ کہ یہاں مسلم امیدوار ہی کامیاب ہوا لیکن لیبر پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف ووٹ کی وجہ سے لیبر پارٹی کا گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں 40 فیصد ووٹ بینک کم ہوا۔ یہ صورت حال مجموعی طور پر پورے برطانیہ کے مسلم اکثریتی حلقوں میں رہی کہ جہاں لیبر پارٹی کو مسلم ووٹرز کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بڑی مشکل سے اپنی نشستیں بچانے میں کامیاب ہوسکی، جبکہ بہت سی نشستیں مسلم آزاد امیدواروں نے لیبر پارٹی سے چھین لیں۔ واضح رہے یہ وہ نشستیں تھیں جو لیبر پارٹی کی محفوظ نشستیں سمجھی جاتی تھیں۔ لیسٹر سے شیڈو منسٹر جون ایش ورتھ کو مسلم آزاد امیدوار شوکت آدم کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح ڈیوس بری، بیٹل لے، برمنگھم پیری بار، اور بلیک برن کی لیبر کی روایتی نشستوں پر مسلم آزاد امیدواروں نے لیبر پارٹی کو شکست دی۔
لندن کے ہی علاقے ازلنگٹن سے لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جرمی کوربن، کہ جن کو مبینہ طور پر اسرائیل کی حمایت نہ کرنے پر پارٹی سے فارغ کردیا گیا تھا، آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے لیبر پارٹی کے امیدوار Praful Nargund کو تقریباً 8 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ جرمی کوربن نے کھل کر غزہ پر جارحیت کی روزِ اوّل سے مذمت کی ہے، لہٰذا ان کو مسلم ووٹرز کا اعتماد بھی حاصل رہا۔
الیکشن 2024ء میں مجموعی طور پر 23 مسلم امیدوار کامیاب ہوئے جو کہ اب برطانیہ کی پارلیمان کا حصہ ہیں۔ برطانیہ کی تاریخ میں یہ مسلمانوں کی ریکارڈ تعداد ہے جوکہ ایوانِ زیریں میں پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ اس سے قبل 2019ء کے الیکشن میں 19 مسلمان رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔ لہٰذا بظاہر ووٹ کی تقسیم کے باوجود مسلمانوں نے پارلیمانی سیاست کے پہلے مرحلے میں ایک قدم آگے بڑھایا ہے۔ برطانوی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب مسلم ووٹرز نے براہِ راست پانچ نشستوں پر لیبر پارٹی کو شکست دی اور اپنے آزاد امیدوار کامیاب کروائے۔
برطانیہ کی سیاست میں 7 اکتوبر کے بعد سے جو تبدیلی پیدا ہوئی ہے اس پر جنگ بندی کے حامی عناصر اگر سیاسی حکمت عملی درست طور پر وضع کرتے تو اس نومنتخب پارلیمان میں جنگ بندی کے حامی کم از کم 100 کے قریب نشستیں حاصل کرسکتے تھے۔ تاہم اب بھی کارکردگی کو برا نہیں کہا جاسکتا۔
برطانیہ کی پارلیمان جس کو ”مدر آف پارلیمنٹ“ بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں آج بھی نئی پارلیمانی روایات کی امین ہے۔ اس الیکشن میں 650 اراکین پارلیمنٹ میں سے صرف 300 ایسے ہیں جو دوبارہ منتخب ہوئے، جبکہ 335 ایسے اراکین ہیں جو زندگی میں پہلی بار اس ایوان کا حصہ بنیں گے، جبکہ 15 ایسے اراکین ہیں جو ایک وقفے کے بعد دوبارہ اس پارلیمان کے ساتھ ہوں گے۔ گویا قدیم و جدید کا حسین امتزاج اس پارلیمان میں موجود ہوگا کہ جہاں اکثریت پہلی بار منتخب ہونے والوں کی ہوگی۔ اسی طرح 22 سالہ نوجوان رکن پارلیمان سے لے کر 71 سالہ اراکین تک اس پارلیمان کا حصہ بن چکے ہیں۔
اس پارلیمان میں ریکارڈ تعداد میں خواتین منتخب ہوئی ہیں جن کی تعداد 263 ہے جوکہ ایوان کا 40 فیصد ہیں، جبکہ اس سے قبل یہ تعداد زیادہ سے زیادہ 220 رہی ہے۔ اس نومنتخب ایوان میں کنزرویٹو پارٹی کی ہار کے ساتھ ہی نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد اب کم ہوکر 27 فیصد رہ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اشرافیہ کی پارلیمان میں تعداد واضح طور پر کم ہوئی ہے، جس کا لامحالہ اثر پالیسیوں پر پڑے گا، اور الیکشن جیتنے کے ساتھ ہی نومنتخب وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے شعبہ صحت کی بحالی کے لیے اقدامات کا آغاز کردیا ہے، جبکہ اس سے قبل کنزرویٹو پارٹی کے سابق وزیراعظم رشی سونک شعبہ صحت کو پرائیوٹائز کرنے کا اعلان کرچکے تھے۔ اس کے علاؤہ جنگ بندی کی مہم الیکشن سے قبل ہی ایک بڑی کامیابی حاصل کرچکی ہے کہ جب دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور میں فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات کی، جوکہ 7 اکتوبر کے بعد دونوں پارٹیوں کی اندھا دھند اسرائیل حمایت میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔
اس پارلیمان سے عوام کو بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں جن میں داخلی مسائل یعنی معیشت اور بین الاقوامی مسائل جیسا کہ فلسطین کے معاملے میں حکومتی پالیسی پر تبدیلی نظر آنے کا امکان ہے۔
غزہ کے مسئلے نے اس الیکشن میں مسلمانوں کے لیے ایک عمل انگیز کا کردار ادا کیا، تاہم مسلمانوں کے ووٹ بینک کو تقسیم ہونے سے بچانے اور دیگر ہم خیال عناصر کو ساتھ ملانے میں تمام مسلمان تنظیمیں ناکام رہیں کیونکہ انہوں نے اس کو اپنا مسئلہ سمجھا ہی نہیں۔ مسلم کونسل آف برٹین نے حکومتی دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان ووٹرز کی رجسٹریشن سے لے کر ایشوز پر بریفنگ نے مسلمانوں کو ایک سمت تو ضرور دی لیکن اس سلسلے کو مسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان کسی ردعمل کی نفسیات کا شکار نہ ہوں اور مرکزی سیاسی دھارے میں رہ کر اپنے اختلافات کا جمہوری طور پر اظہار کریں۔
برطانیہ میں آئندہ آنے والے چند دن اس بات کو مزید واضح کریں گے کہ کیا یہ حکومت جو بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئی ہے آیا ان مسائل کو حل کر بھی پائے گی یا نہیں، ورنہ برطانوی ووٹرز کا غم و غصہ شاید اگلی بار کنزرویٹو کے خلاف غم و غصے سے بھی زیادہ ہوگا۔
برطانوی الیکشن کے نتائج، حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد اور حاصل کردہ نشستوں کی تعداد دیکھیں تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ محض 33 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی لیبر پارٹی 412 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی، جبکہ 23 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی کنزرویٹو پارٹی 121 نشستیں حاصل کرسکی۔ لبرل ڈیموکریٹس نے 12 فیصد ووٹ اور 72 نشستیں حاصل کیں۔ اس تناظر میں سب سے بدقسمت جماعت ریفارم یوکے رہی جس نے لبرل ڈیموکریٹس سے بھی زیادہ یعنی 14 فیصد ووٹ حاصل کیے لیکن اُس کے حصے میں محض 5 نشستیں آئیں۔