آٹھواں یومِ شہادت:برہان وانی… نئے موسموں اور نئی رُتوں کا پیام بر

اس نوجوان نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کے استخوان پر لرزہ طاری کرکے مزاحمت کی تاریخ کو نیا عنوان دیا

کشمیر کے نوجوان ہیرو اور پوسٹر بوائے کہلانے والے برہان وانی کا آٹھواں یوم شہادت دنیا بھر میں آباد کشمیریوں نے منایا۔ آزادکشمیر اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں تقریبات منعقد کرکے برہان وانی کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے ایک خصوصی وڈیو پیغام کے ذریعے برہان وانی کے مشن کی تکمیل کا عزم دہرایا۔ مظفرآباد میں شہدا فائونڈیشن کے زیراہتمام ایک بڑے جلسے میں مقررین نے برہان وانی کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا اور انہیں کشمیری نوجوانوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا۔ برہان وانی کشمیر میں جدید مزاحمت اور جدید طرزِ مزاحمت کے بانی ہیں۔ اس نوجوان نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھارت کے استخوان پر لرزہ طاری کرکے مزاحمت کی تاریخ کو نیا عنوان دیا۔

1994ء میں کشمیر پر طاری شبِ دہشت میں جنوبی کشمیر کے ترال قصبے کے نواحی علاقے میں محمد مظفر وانی کے گھر ایک بچے نے جنم لیا۔ ایک مخصوص کلچر اور مخصوص اصطلاحات کو سنتے سنتے جوانی کی دہلیز پر پہنچنے والا یہ بچہ برہان مظفر وانی بن کر شبِ ظلمت میں جگمگا اُٹھا۔ کسے خبر تھی کہ مظفر وانی کے گھر پیدا ہونے والا یہ بچہ عنفوانِ شباب کو پہنچتے ہی کشمیر کی ایسی مزاحمت کا عنوان اور پہچان بنے گا جو بھارت کے سیکولرازم، جمہوریت اور چمک دمک کے دعووں کو پیوندِ خاک کرکے رکھ دے گی۔ 1994ء میں ترال کے سبزہ زاروں سے شروع ہونے والی یہ کہانی جولائی2016ء میں ککرناگ میں بظاہر اختتام کو پہنچی، مگر بائیس سال کا یہ نوجوان اپنے لہو سے ہر کشمیری کے دل میں غصے اور انتقام کا الائو روشن کر گیا۔ یہ آگ اُس وقت تک سلگتی رہے گی جب تک کشمیری اپنی منزل تک نہیں پہنچتے۔

برہان وانی کی جرأت، بہادری اور مقبولیت کو تاریخ کے بے شمار کرداروں سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ اسے کشمیر کا چی گویرا بھی کہا گیا اور رابن ہڈ بھی… پوسٹر بوائے بھی لکھا گیا اور مردِ امن اور مردِآہن بھی۔ اسے کوئی بھی نام دیا جائے حقیقت یہ ہے کہ برہانی وانی کشمیر کے مایوس اور پژمردہ دلوں میں آزادی کی جوت جگانے والا مسیحا ٹھیرا۔ مایوسی اور مزاحمانہ جذبات کے حالات کے اسی صحرا میں چلتے چلتے برہان وانی سولہ برس کی عمر کو پہنچا تو ایک روز گھر کی آسائشوں کو چھوڑ کر ککر ناگ کے جنگلوں میں جا بسیرا کیا۔ کمانڈو وردی میں جدید ہتھیاروں اور نوخیز ساتھیوں کے جھرمٹ میں برہان وانی کی تصاویر سوشل میڈیا میں آتے ہی وائرل ہونے لگیں۔ ایک مجاہد کمانڈر کی شبیہ ہونے کے باوجود برہانی وانی کشمیر میں رحم دلی اور دوستانہ رویّے کا حامل، اور ایسی لوک داستان کا کردار بن گیا جس کا وجود اسی مٹی کی خوشبو سے اُٹھا تھا۔ برہان مظفر وانی کے حوصلوں کو توڑنے اور مقبولیت کو روکنے کے لیے بھارتی فوج نے ایک منظم حکمتِ عملی کے تحت اُس کے بڑے بھائی خالد مظفر وانی کو شہید کردیا۔ خالد وانی کسی تنظیم سے وابستہ تھا، نہ کسی جہادی کارروائی میں شریک۔ برہان کے حوصلے توڑنے کی یہ کوشش اکارت گئی اور وہ مسلسل کشمیر کے اُفق پر حریت کا سورج بن کر طلوع ہوتا چلا گیا۔ وہ ہمالیہ سے بلند حوصلوں کا مالک بن چکا تھا۔ سوشل میڈیا کے کامیاب استعمال نے برہان کی شخصیت اور پیغام کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ککرناگ کے جنگلوں میں وردی پوش برہان کی تصاویر نوجوانوں کے جذبات میں بجلیاں بھر دیتیں، برہان وانی ٹویٹر کے ذریعے نوجوانوں کو تحریکِ آزادی میں شمولیت کی دعوت دیتا تو نوجوان بے ساختہ اس راہ کا پتا معلوم کرنے لگتے۔ وہ امرناتھ یاتریوں کو بے خوف وخطر ہوکر اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے کو کہتا تو ہندو یاتری بھارتی حکومت اور فوج سے زیادہ اُس کی ضمانت معتبر جان کر پورے اعتماد سے مذہبی رسوم ادا کرتے۔ آٹھ جولائی کو جب وادیِ گل پوش میں بے داغ سبزے کی بہار جوبن پر تھی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ برہان وانی بھارتی فوج کے ساتھ تصادم میں شہید ہوگئے ہیں۔ لمحہ بھر کو کشمیری مبہوت ہوکر رہ گئے اور پھر وہ دیوانہ وار گھروں سے نکل کر ککرناگ کی طرف چل پڑے۔ بھارتی فوج نے رکاٹیں کھڑی کرکے لوگوں کو اس سمت جانے سے روکنے کی تدابیر اپنائیں، مگر مشتعل اور غم زدہ لوگ ان رکاٹوں کو روندتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ برہان وانی کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور اس دوران شہید ہونے والوں کی تعداد درجن سے اوپر جا چکی تھی۔ یہ کشمیر کی تحریک کا وہ خوش نصیب شہید ہے جس کا نام اقوام متحدہ کے ایوانوں میں اُس وقت گونجا جب اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان لیڈر برہان وانی کشمیرکی نئی نسل کا نمائندہ ہے۔

برہان وانی کشمیر میں داخلی مزاحمت، جدوجہد اور بہادری کا ایک ایسا نشان ہے جس کی شہادت کشمیریوں کی تحریک اورآنے والی نسلوں کو ولولۂ تازہ دیتی رہے گی۔ برہانی وانی کی شہادت کے بعد حالات پر بھارت کا کنٹرول کلی طور پر ختم ہوگیا اور اس مسئلے کا حل 5 اگست 2019ء کے فیصلے کے ذریعے نکالنے کی سعیِ لاحاصل کی گئی جس کے تحت مقبوضہ ریاست کی شناخت اور الگ حیثیت چھین لی گئی، مگر اس کے بعد بھارت کے لیے مسائل کا ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا۔ پانچ سال ہوگئے ہیں، اس پنڈورا باکس سے مشکلات کی بلائیں نکل کر بھارت کو خوف زدہ کررہی ہیں۔