’’اُس صبح کے انتظار میں۔ خواب بننے والوں کی داستان‘‘ محمد انور عباسی (پ:1940ء) کا ایک سوانحی رپورتاژ ہے، جسے بجا طور پر ان کی آپ بیتی، تحریک بیتی اور جگ بیتی یا نظریاتی کشمکش کی دلچسپ اور فکر انگیز روداد بھی کہا جاسکتا ہے۔ انور عباسی ضلع باغ، آزاد کشمیر کے ایک گاؤں نیلا بٹ میں پیدا ہوئے، یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد حصولِ تعلیم کے لیے کراچی گئے۔ 1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی۔کام (آنرز) اور اس کے بعد اسی یونیورسٹی سے ایم۔ اے معاشیات اور ایم۔ اے اسلامیات کی اسناد حاصل کیں۔ بعد ازاں سعودی عرب میں سعودی ہولندی بنک میں بیس سال تک چیف اکائونٹنٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں۔ اس سے قبل ان کی درج ذیل پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں:
’’اشاریہ افکارِ مودودی‘‘، ’’انسانیت ہدایت کی تلاش میں‘‘، ’’بنک انٹریسٹ: منافع یا ربا‘‘، ’’دلیل کا دور‘‘، ’’متاعِ شامِ سفر‘‘(خود نوشت)
پیش نظر کتاب کا مقدمہ جناب احمد حاطب صدیقی (ابونثر) نے ’’وہ دن بھی آئے گا جس کے بہت دن خواب دیکھے‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے اور اس سوانحی رپورتاژ کا ایک جامع خلاصہ کچھ اس خوب صورتی سے قلم بند کیا ہے، گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ اسی خلاصے کو مزید اختصار کے ساتھ یہاں نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بہتر طور پر اس کتاب کا تعارف ممکن نہیں ہے۔
’’یہ کتاب ایک طرح کا سفرنامہ بھی ہے۔ سفر کا آغاز ’آرزوئے انقلاب‘ اور سنہ 1947ء کے خوں چکاں واقعات سے ہوتا ہے۔ پھرہوتے ہوتے سوچ کا یہ سفر ’بیم و رجا کے بھنور‘ کا شکار ہوجاتا ہے۔ مگر جیت بالآخر’’رجا‘‘کی ہوتی ہے، ’اُمید کی نئی کرن‘ جگمگا اُٹھتی ہے اور بالآخر یہ سفر ’’لاتقنطو‘‘ پر پہنچ کرختم ہوجاتا ہے۔ اس سفر میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں۔ سرابِ انقلاب، جستجوئے انقلاب اور جہدِ انقلاب۔ مسافر کا نام اس کتاب میں رحیم الدین ہے جو امتدادِ زمانہ اورگردشِ روزگار کے نتیجے میں بالآخر ’ماسٹر رحیم الدین‘ ہوجاتا ہے۔ رحیم الدین کا تعلق مرغزار و کوہسار میں واقع کسی الف لیلائی گاؤں سے ہے۔ گاؤں کی طرزِ معاشرت، کھیتی باڑی، تعلیم و تربیت، شادی بیاہ اورمریضوں کی عیادت حتیٰ کہ مرضِ موت کی علامات کو یاد رکھنے والے غریب الوطن رحیم الدین کے دل میں انقلاب کا بیج ہائی اسکول ہی میں بو دیا گیا تھا۔ مگر جب دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد رحیم الدین کو کراچی بھیج دیا گیا تب گویا انقلاب کی طرف پہلا قدم بڑھا۔ کراچی پہنچ کر رحیم الدین کو دفتر روزگار کے ذریعے سے ’’لکشمی بلڈنگ‘‘ میں واقع ایک سرکاری محکمے میں ٹائپسٹ کی نوکری مل گئی۔
اب رحیم الدین نے نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامیہ کالج کراچی میں داخلہ بھی لے لیا۔ کالج کی زندگی میں اُسے ’سرابِ انقلاب‘ کی ایک جھلک دکھائی دی۔ روسی سوشل ازم، چینی سوشل ازم اور بھٹو صاحب کے اسلامی سوشل ازم کے تصورات کو سمجھنے کا موقع ملا۔ رحیم الدین ’جستجوئے انقلاب‘ میں غلام احمد پرویز کی بزمِ طلوعِ اسلام تک بھی جا پہنچا۔ رحیم بزمِ طلوعِ اسلام کی ہفتہ وار نشستوں میں باقاعدگی سے جانے لگا۔ لٹریچر کے مطالعے اور بزم کے ارکان کی اُٹھک بیٹھک سے مترشح ہوتا تھا کہ واقعی ان کے پیش نظر معاشرے میں ایسی تبدیلی لانا مقصود ہے جہاں غریب کی بھی شنوائی ہوگی۔ ارکانِ بزم کا جوش و جذبہ بھی قابلِ دید تھا۔ مگر رحیم مشکل میں پڑ گیاکہ پاس والی مسجد میں اذان ہورہی ہوتی ہے اور یہاں سے کوئی نماز کے لیے نہیں اٹھتا۔ نہ صدرِ بزم اس کی طرف توجہ دلاتے ہیں، نہ خود مسجد کا رُخ کرتے ہیں۔ اس کا کوئی واضح جواب نہیں ملا۔
رحیم نے کالج سے فارغ ہوکر کراچی یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم۔ اے کرلیا۔ مولانا مودودی سے تعارف تو علمائے کرام کے ایک فتوے سے ہوا تھا جو انتخابات کے دوران میں اُسے حاصل ہوا تھا۔انتخابات کا ہنگامہ ختم ہوا تو سب سے پہلے اُن کے خلاف فتوے کی کتاب اُٹھائی اور اس میں درج مودودیؒ کی کتابوں کا حوالہ تلاش کرکے اصل کتابیں پڑھنی شروع کیں۔ اُس کے دل میں انقلاب کی مچلتی ہوئی تڑپ اور جوانی کے جوش کو مولانا مودودی کے لٹریچر نے مہمیز دی اور رحیم الدین جماعت میں شامل ہوگیا۔ لیکن جماعت میں شمولیت کے بعد بھی رحیم کی آزادانہ بحث و مباحثہ کی عادت نہیں گئی۔ چناں چہ کتاب کے آخر میں بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی انقلابی جماعت کی سیاسی ناکامیوں پر جدول، سوال ناموں، جائزاتی و تجزیاتی نقشوں اورخطوطِ منحنی کی ترسیمات کی مدد سے، جماعت کی حکمتِ عملی اور طرزِعمل پر نقد و نظر کیا گیا ہے۔ تجاویز پیش کی گئی ہیں اور تنبیہات کی گئی ہیں۔ تاہم مایوس کُن حالات دیکھ کر بھی رحیم الدین نے اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
ماسٹر رحیم الدین کو اُمید کی یہ کرن اُن نوجوانوں میں دکھائی دی جو کالج اور جامعات میں اسلامی انقلاب کے نصب العین کے شعور کے ساتھ نصابی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں اور مستقبل میں تحریک کی کمان سنبھالیں گے۔ دینی مدارس میں بھی دین کے انقلابی تصور کا رجحان عام ہورہا ہے۔ اُس نے سوچا جو کام اُس کے دور کی نسل نہیں کر سکی ایک دن آئے گا کہ یہ نئی پود کر دکھائے گی۔‘‘
ماسٹر عبدالرحیم کی یہ داستان ہر باشعور نظریاتی کارکن کی آپ بیتی ہے، جس میں غور و فکر کا بہت سامان موجود ہے، بالخصوص نسل ِنو کے لیے اپنے ماضی سے اچھوتے انداز میں با خبر رہنے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ازبس ضروری ہے۔