مرحوم مشرقی پاکستان کا نام آتے ہی جگر کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔ بقول غالب (ایک لفظی تصرف کے ساتھ):
مشرقی پاکستان کا جو ذکر کیا تُو نے، اے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ، ہائے ہائے
اُس نسل کے بہت سے لوگ آج بھی موجود ہیں جنہوں نے بچشمِ خود اس قیامت کو دیکھا تھا، اُن کے لیے قیامت کی اِن گھڑیوں کو بھولنا کسی طور ممکن نہیں۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے ہوئے 53 واں سال آن پہنچا ہے، لیکن ملّتِ اسلامیہ بالخصوص پاکستان کے اس زخم سے روزِ اوّل ہی کی طرح خون رس رہا ہے۔ یہ زخم کبھی نہ مندمل ہونے والا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو پوری قوم اُس وقت سکتے میں آگئی تھی جب اسے یہ خبر ملی کہ افواج ِپاکستان نے بھارت کے سامنے ہتھیار پھینک دیے ہیں۔ قوم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ غازی یا شہید کے عقیدے پر یقین رکھنے والی دنیا کی بہترین سپاہ اتنی جلدی اور اس طرح سے دشمن کے سامنے ہتھیار پھینک سکتی ہے! ادھر اندرا گاندھی فاتحانہ انداز میں کہہ رہی تھی کہ ہم نے مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔
میر سپاہ نا سزا، لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیر نیم کش، جس کا نہ ہو کوئی ہدف
16 دسمبر 1971ء کو، مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والے، قراردادِ پاکستان پیش کرنے والے، 96 فیصد پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے والے اہلِ مشرقی پاکستان ہم سے خفا ہوکر جدا ہوگئے اور دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دولخت ہوکر رہ گئی۔ سقوطِ بغداد، سقوطِ غرناطہ، سقوطِ دہلی اور سقوطِ خلافتِ عثمانیہ… یہ وہ حوادث ہیں جن کے اثراتِ بد ’لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی‘ کے مصداق آج بھی ملت کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن سقوطِ مشرقی پاکستان کا،ان سب سانحات سے بڑھ کر ہے۔ مسلم افواج کی اتنی بڑی تعداد کے ہتھیار ڈالنے کے بعد دشمن کے اسیر بن جانے کی کوئی دوسری مثال مسلم تاریخ میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل چکا تھا اور مغربی پاکستان میں ملک ٹوٹنے اور فوج کے اسیر بننے پر صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔ ادھر حکمرانوں کی بے حسی اور بے حمیتی کا یہ عالم تھا کہ ملک توڑنے کا سب سے بڑا ذمہ دار یحییٰ خان بچے کھچے اور اجڑے پجڑے پاکستان پر اپنی صدارت قائم رکھنے پر مُصر تھا۔ سانحۂ مشرقی پاکستان تاریخ کا بڑا المیہ تھا لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ حکومتی سطح پر دور دور تک اس پرکوئی ندامت نظر نہیں آئی، اور نہ ہی اس سانحے کے اسباب و عوامل کو جاننے کی کوئی کوشش کی گئی۔ بہادر اور بالغ نظر قومی قیادت اپنی غلطیوں سے بھی طاقت کشید کرتی ہے۔ جرأت اور بہادری کے ساتھ غلطیوں کا اعتراف اور ادراک کرنے کے بعد ان کا ازالہ کرتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ کہ ہم پر طویل مدت سے اخلاقی طور پر مفلس اور بصیرت سے عاری قیادت مسلط رہی ہے جس نے ہمیشہ غلطیوں اور ماضی کو دفنانے کا رویہ جاری رکھا۔ لے دے کر سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ مرتب ہوئی تھی لیکن آدھی صدی گزرنے کے بعد بھی وہ آج تک خفیہ ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ زندہ قوموں کی بقاء اور ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی غلطیوں اور ناکامیوں سے کبھی آنکھیں نہ چرائیں بلکہ کھلی آنکھوں کے ساتھ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے کر ان سے سبق حاصل کریں، تاکہ مستقبل میں کسی دوسری غلطی کا امکان باقی نہ رہے۔ سانحۂ مشرقی پاکستان کے سارے ذمہ دار اِس دنیا سے جا چکے ہیں، اس کے باوجود اُن کے جرائم کو اس درجہ خفیہ رکھنے کا اہتمام سمجھ سے بالاتر ہے۔
پچھلے ہفتے ڈاک کے ذریعے ایک کتاب موصول ہوئی، جو المیہ مشرقی پاکستان سے براہِ راست تعلق رکھنے والے پانچ افرادکے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔ (1) آغا محمد علی جو جنرل یحییٰ خان کے برادرِ بزرگ تھے اور اُس دور میں انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ اور بعد میں نیشنل سیکورٹی کے سربراہ رہے، (2)جنرل یحییٰ خان جو صدر مملکت اور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹرتھے، (3) جنرل گل حسن جو سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت بری فوج کی پلاننگ کے سربراہ تھے اورسانحہ مشرقی پاکستان کے فوری بعد فوج کے سربراہ مقرر ہوئے تھے، (4) ایئر مارشل رحیم، فضائیہ کے سربراہ، (5) میجر نادر پرویز جو سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی قید ی بنے تھے۔ برسوں پہلے یہ کتاب اُس وقت چھپی تھی جب بقول انٹرویو نگار ’’اخبارات بلکہ ہر مطبوعہ شے پر سنسرشپ کا یہ عالم تھا کہ قرآن پاک بھی بغیر سنسر کلرک کی کلیئرنس مہر کے چھپ نہیں سکتا تھا‘‘۔ اب یہ کتاب دوبارہ چھپی ہے۔ سنسر زدہ حصوں کو بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جنرل گل حسن کے انٹرویو پر بریگیڈیئر شمس الحق کا تبصرہ اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کے سابق افسر R.K.Yadav کی کتاب Mission R&awکے ایک باب ’’شیخ مجیب کا قتل‘‘ بھی شامل کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ115 صفحات پر محیط پیش لفظ بھی کتاب کا حصہ ہے۔ کہنے کو تو یہ پیش لفظ ہے، لیکن فی الحقیقت یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر مبنی ایک چشم کشا دستاویز اور ایک تحقیقی مقالہ ہے، جس میں ریاستوں اورسلطنتوں کے زوال کی پوری داستان تاریخی حوالوں سے بیان کی گئی ہے۔ یہ پیش لفظ ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھنے کا متقاضی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے ان انٹرویوز پر مختصر مگر بڑا جامع تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وہ (منیر صاحب) شخصیات سے ملتا ہے اور اپنے ننھے منے فقروں سے ایسی صورت پیدا کرتا ہے کہ شخصیات مفصل گفتگو پر آمادہ ہوجاتی ہیں۔ منیر کے سوالات مختصر لیکن خیال افروز اور اس حد تک اشتعال انگیز ہوتے ہیں کہ فریقِ ثانی اپنی گفتگو میں ایسے حقائق کا افشا کردیتا ہے جو قارئین کے لیے بالکل نئے ہوتے ہیں‘‘۔ ہمارے ہاں حقائق صرف چھپائے ہی نہیں جاتے بلکہ زیر زمین بہت گہرے دفنائے جاتے ہیں۔ کیسی ہی بڑی قیامت کیوں نہ گزر جائے لیکن عوام کو مکمل طور پر لاعلم رکھنے کا کڑا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان پر بھی اُس وقت کے حاکموں نے یہی کچھ کیا تھا، حد تو یہ ہے کہ تعلیمی نصاب میں مشرقی پاکستان کا نام ہی مکمل طور پر ممنوع قرار پا چکا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کی نسل لفظ ’’مشرقی پاکستان‘‘ ہی سے نابلد ہے۔ اس صورتِ حال میں یہ کتاب حبس میں تازہ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے کے مترادف ہے۔ اس کتاب کے مندرجات پر یک لفظی تبصرہ یہ ہے کہ یہ کتاب ’’چشم کشاانکشافات‘‘ کا مجموعہ ہے۔ انٹرویو نگاری میں منیر احمد منیر سب سے نمایاں نام ہے۔ انہوں نے یہ کتاب مرتب کرکے بڑی قومی خدمت انجام دی ہے۔ نہ صرف یہ کہ نئی نسل کو مشرقی پاکستان کی یاد دلائی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مؤرخ کو اس المیے کے متعلق مواد بھی مہیا کیا ہے۔ یہ کتاب ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے تاکہ وہ قائداعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کے توڑے جانے کے اسباب سے واقف ہو۔ یہ کتاب لازمی طور پر لائبریریوں کی زینت بننی چاہیے۔کتاب خوانی کے زوال کے اس دور میں اس کتاب کا شائع ہونا ایک بڑا کارنامہ ہے، جس پر منیر صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں۔
کتاب کے حصول کے لیے منیر احمد منیر صاحب سے0333-4332920 پررابطہ کیا جا سکتا ہے۔