بجٹ کے بعد پورے ملک میں سیاسی احتجاج کی لہر
پاکستان عملی طور پر اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ اگرچہ اس سے ریاستی و حکومتی فیصلہ ساز یقیناً متفق نہیں ہوں گے، یا وہ لوگوں کے سامنے سچ بولنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم واقعی ایک بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں۔ یقیناً ہم بطور ریاست و حکومت اس بندگلی سے باہر نکلنا چاہتے ہوں گے، لیکن ہماری پالیسی، سوچ، فکر اور عمل درآمد کا نظام ہماری خواہش کے برعکس ہے۔ یہی وہ تضادات ہیں جن کا ہم بطور ریاست شکار رہے ہیں اور ہمیں اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ یا ریاستی و حکومتی طبقہ گمراہ رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن سچ واقعی بہت کڑوا ہے کیونکہ پاکستان میں موجود لوگ سیاسی، سماجی اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں، ان کی حالت دیکھنے کے لیے کوئی تیار نہیں اور سب نے عملی طور آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ ایک طرف لوگوں کے سامنے بدحالی کا چیلنج ہے تو دوسری طرف نہ صرف حکمران طبقہ لوگوں کے مسائل پر خاموش ہے بلکہ ان کی اپنی زندگیوں کا شاہانہ انداز جو ریاستی وسائل کی مرہونِ منت ہے لوگوں کے لیے مزید تکلیف دہ بن چکا ہے۔ اسی وجہ سے ہم مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور ہمیں مسائل کا حل معلوم بھی ہے، مگر اس حل پر حکمران طبقہ عمل کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں، اسی تضاد کی وجہ سے حکمرانوں اور عوام میں خلیج بھی بڑھ رہی ہے اور نفرت بھی۔ لیکن کوئی عام آدمی کی بات سننے کو تیار ہے اور نہ ہی اس کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہتا ہے۔
ہم تنہائی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ دنیا ہمارے داخلی معاملات سے آنکھیں بند کرلے اور جو کچھ ہم اُسے دکھا رہے ہیں اس کو وہ سچ مان لے۔ لیکن دنیا پاکستان کے داخلی معاملات کو اپنی آنکھ سے دیکھ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکہ میں کانگریس کی جانب سے 85 فیصد ارکان کی حمایت سے ایک قرارداد منظور کی گئی ہے جس میں پاکستان میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں ہراسانی، دھمکیوں، تشدد، من مانی حراست، انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن تک رسائی روکنے اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے پاکستان میں عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک اور اُن کی عملاً سیاسی یا انتخابی عمل سے بے دخلی پر سنگین تحفظات کا اظہار کیا ہے اور پورے ریاستی نظام کو چیلنج کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا ہمارے معاملات پر خاموش نہیں۔ پاکستان امریکہ کے ان اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے بقول یہ باتیں ہمارے داخلی معاملات میں مداخلت کے زمرے میں آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم خود بطور ریاست اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں اور اپنی تصویر کو دھندلا یا بدنما بناکر عالمی برادری میں پیش کررہے ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہماری سیاسی ساکھ یا انتخابی و حکومتی ساکھ کو دنیا میں قبول کرنے کے بجائے اس پر مختلف قسم کے سنگین الزامات لگائے جارہے ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا مجموعی ریاستی و سیاسی نظام عمران خان کے گرد گھوم رہا ہے اور اسی دائرۂ کار میں ہماری ریاست کو مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے۔
عمران خان کی سیاسی اہمیت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ ان کے مقابلے میں ان کے سیاسی مخالفین کی مدد سے جو سیاسی بندوبست اسٹیبلشمنٹ نے کیا تھا وہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ پورے ملک میں حالیہ بجٹ کے بعد مایوسی بڑھی ہے اور ہر طرف ملک میں احتجاج کی بات کی جارہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں روزانہ کی بنیاد پر اضافے نے واقعی لوگوں کو پریشان کردیا ہے ۔ پہلے ہی کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے جو معاہدہ ہونے جارہا ہے وہ بہت خوفناک ہوگا اور اس کا براہِ راست اثر عام آدمی پر مزید معاشی بوجھ کی صورت میں پڑے گا جس کا وہ متحمل نہیں ہوسکے گا۔ پہلے ہی جون کے بجلی کے جو بل آئے ہیں انہوں نے لوگوں کی چیخیں نکال دی ہیں، اور ابھی لوگ اس پر ماتم کناں تھے کہ ایک بار پھر بجلی کی قیمت 7 روپے 12پیسے فی یونٹ بڑھادی گئی ہے اور تین سو سے زائد یونٹ استعمال کرنے والوں پر فکسڈ ٹیکس بھی عائد کردیا گیا ہے، اور گھریلو صارفین کو ٹیکس ملا کر بجلی 65 روپے فی یونٹ سے بھی زیادہ میں ملے گی۔ وفاقی وزیر خرانہ نے اعتراف کیا ہے کہ اس فیصلے سے بوجھ عملاً عوام پر پڑے گا، مگر بے بسی سے انہوں نے بھی اپنے ہاتھ کھڑے کردیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ لوگ ٹیکس کیوں دیتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ ٹیکس کے بدلے بنیادی انسانی حقوق یا بنیادی ضروریات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ ہورہا ہے کہ حکومت ہم سے زور اور جبر کی بنیاد پر ٹیکس تولے رہی ہے مگر سہولیات دینے یا ہماری زندگیوںمیں آسانی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ ٹیکس غریب عوام سے وصول کرنا چاہتی ہے اور اس کے بدلے میں عوام کو نہیں بلکہ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ کو مراعات دینا چاہتی ہے۔ اس بجٹ میں جس بہیمانہ انداز میں امیر اور طاقت ور طبقے کو ٹیکس نیٹ سے نکالا گیا ہے اور جس اندازسے ان کو ریلیف دیا جارہا ہے اس سے عام آدمی میں غصہ اور بغاوت پیدا ہورہی ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ٹیکس ہم دیں اور مراعات کسی اور طاقت ور طبقے کو ملیں! سچی بات یہ ہے کہ ہمارا حکمرانی کا نظام آہستہ آہستہ اپناجواز کھوبیٹھا ہے اور اس کی ساکھ ختم ہوگئی ہے۔ عملی طور پر یہ ملک طاقت ور سیاسی اور غیر سیاسی اشرافیہ کا ہے اور عام آدمی کا اس نظام میں کوئی حصہ نہیں۔ لوگوں کی آمدنی اور اخراجات میں تیزی سے جو عدم توازن پیدا ہوا ہے اس سے پورا نظام ایک بڑے سیاسی و معاشی انتشار کا شکار ہورہا ہے۔ لوگ باقاعدہ چیخ و پکار کررہے ہیں کہ ہم کیسے بجلی کے بل ادا کریں؟ اور مسئلہ محض بجلی کے بلوں تک محدود نہیں بلکہ اس بجٹ میں جتنے زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں اس سے پیٹرول، ڈیزل، گیس اورکھانے پینے سمیت دیگر اشیا کی قیمتوں میں70سے 100فیصد اضافہ ہوگیا ہے اور حکمران طبقے کے یہ تمام دعوے باطل ہوگئے کہ ہم نے مہنگائی پر قابو پالیاہے اور ملک درست طور پر معاشی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حکمرانوں کے دعووں اور عوامی سطح پر موجود حقائق میں ایک بڑی خلیج پیدا ہوگئی ہے۔ ایک طرف پہلے ہی ملک میں سیاسی بحران ہے، اور جس انداز سے سیاسی مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے حالات مزید خراب ہورہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف پنجاب کابینہ کی جانب سے ملک سے غداری کے مقدمات یا ان کی سفارشات ظاہر کرتی ہیںکہ ہمارا حکمران طبقہ سیاسی مسائل کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے طاقت کی بنیاد پر حل کرنا چاہتا ہے۔ ایک طرف مفاہمت کی باتیں اور دوسری طرف سیاسی دشمنی کا کھیل… اس طرزِعمل میں مفاہمت کے کوئی امکانات نہیں ہوں گے، بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے، جس کے نتیجے میں مزید محاذ آرائی، ٹکرائو اور تنائو سمیت دشمنی کا کھیل غالب ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاستی و حکومتی نظام میں ایسے افراد غالب آگئے ہیں جو کسی بھی صورت میں عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ مفاہمت کے حامی نہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی عائد کردی جائے تاکہ عمران خان کی سیاست کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ کیا پابندی سے واقعی پی ٹی آئی ختم ہوجائے گی! ایسا ممکن نہیں لگتا۔ اس سے قبل 8 فروری کے انتخابات میں بلے کے نشان سمیت بطور جماعت انتخابات سے بے دخلی، سیاسی و انتخابی سرگرمیوں پر پابندی، اور تمام ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی ایک حقیقت کے طور پر سامنے موجود رہی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو سیاسی سطح پر اپنی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں عدالتی حکم کے باوجود ان کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور عدالتی حکم عدولی پر عدالتیں بھی خاموش نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے چیف جسٹس پر ہی عدم اعتماد کردیا اور کہا کہ ہمیں اُن پر اعتماد نہیں اور وہ ہمارے مقدمات پر قانون اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کررہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ ان واقعات سے ہم کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں، اور اس کا خمیازہ ہم بطور قوم بھگت رہے ہیں۔
کورکمانڈر کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف آپریشن عزم استحکام پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ اسی تناظر میں حکومت نے اس اہم مسئلے پر کُل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں پی ٹی آئی کو بھی دعوت دی جارہی ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بھی ملک کے وسیع ترمفاد میں اس کانفرنس میں اپنی جماعت کی شمولیت کی حمایت کی ہے۔ خواجہ آصف کے بقول آپریشن ہر صورت میں کیا جائے گا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر کُل جماعتی کانفرنس کی ضرورت کیوں؟ کیونکہ ابھی تک عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی اس آپریشن پر تحفظات کا اظہار کررہی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ اس اہم مسئلے کو بحث کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے اور پارلیمانی جماعتوں کی حمایت سے مشروط کیا جائے۔ کورکمانڈر کانفرنس میں اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ آپریشن عزم استحکام پر بلاوجہ تنقید کی جارہی ہے، ان کے بقول دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے یہ وقت کا اہم تقاضا ہے، ریاستی اداروں کے خلاف سازش اور ڈیجیٹل دہشت گردی قبول نہیں کی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ آپریشن ناگزیر ہے تو تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر کیونکر آگے بڑھا جارہا ہے؟ اور خاص طور پر جب خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والی اہم جماعتیں اس پر تحفظات کا اظہار کررہی ہیں تو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اگر تمام فریقین کو اعتماد میں لیے بغیر آگے بڑھا گیا تو آپریشن کی کامیابی کے امکانات محدود ہوں گے اور پہلے سے موجود سیاسی تقسیم مزید گہری ہوسکتی ہے۔ اگر سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں اپنی قومی فیصلہ سازی میں جمہوری عمل کو ہی تقویت دینی چاہیے۔ لیکن کیونکہ ہم ہائبرڈ پلس نظام میں جی رہے ہیں تو جمہوریت کا عمل کمزور نظر آتا ہے اور فیصلہ سازی طاقت ور افراد یا حلقوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اس طرح یہ نظام کس طرح آگے بڑھ سکے گا؟ پہلے ہی ہم نے اپنے نظام میں کئی طرح کے ڈیڈلاک پیدا کردیے ہیں اور مزید پیدا کررہے ہیں، اس طرح آگے بڑھنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ہم پہلے سے موجود مسائل کو مزید بڑھا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ہم پر سخت تنقید کی جارہی ہے، لیکن ہم بطور فیصلہ ساز بضد ہیں کہ وہی کچھ ہوگا جو ہم کرنا چاہتے ہیں، اور سب کو ہمارے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا۔ یہی وہ سوچ اور فکر ہے جو بنیادی طور پر ہمارے ریاستی و حکومتی نظام کو کمزور کررہی ہے اور ہم آگے بڑھنے کے بجائے خود کو بھی اور ملک کو بھی پیچھے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ حالانکہ اس وقت قومی سیاست یا معیشت میں جو دروازے بند ہیں ان کو کھولنے کی ضرورت ہے۔ بند دروازوں کی موجودگی میں ہم مسائل کو حل نہیں کرسکیں گے بلکہ اس کا نتیجہ قومی سطح پر ایک بڑے ردعمل کی صورت میں سامنے آئے گا جو مزید نئے مسائل پیدا کرے گا۔ مسائل کا حل روایتی اور دشمنی کی بنیاد پر ممکن نہیں اور معاملات کا حل غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی ممکن بنایا جاسکے گا۔