یوم شہادت 25 اکتوبر1963ء
گوجرہ سے مغرب کی جانب کوئی چھے سات کلومیٹر دور ایک گائوں کا ایک ویران سا قبرستان ہے، کچھ عرصہ قبل وہاں تیس سے زیادہ قبریں تھیں مگر اب دس بھی باقی نہیں ہیں۔ ان بچی ہوئی قبروں میں دو قبریں پہلو بہ پہلو ہیں، ایک میں ماں اکیس سال سے، دوسری میں بیٹا پچیس سال سے ابدی نیند سورہا ہے۔
اللہ بخش اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ تھا تو معمولی پڑھا لکھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص مہربانی سے اُسے اپنے بتائے ہوئے سیدھے راستے کا شعور دے دیا تھا۔ اس نے عمر کی چوبیس بہاریں ہندوستان (لدھیانہ) میں دیکھیں اور اسی سال وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے حاصل کیے گئے ملک پاکستان اپنے والدین اور بیوی بچوں سمیت چلا آیا۔
اللہ بخش نے اپنی اصول پرستی اور فطرتِ سلیم کی وجہ سے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں میں اپنا مقام بہت جلد پیدا کرلیا۔ گائوں کے فیصلوں اور پنچایت وغیرہ میں وہ اہم کردار ادا کرنے لگا۔ گائوں کے لوگ بھی چھوٹے چھوٹے مسائل اسی کے سامنے پیش کرنے لگے۔ اپنی محدود سی دنیا کا وہ ایک اہم رکن بن گیا۔ اس کی دوستی کا معیار دین داری تھا۔ مذہب پسند اور ایمان دار لوگ ہی اس کے تعلق دار تھے۔ ان کے علاوہ بھی وہ دعوتِ حق کے فریضے سے کبھی دست بردار نہ ہوا۔ گائوں چھوٹا ہونے کی وجہ سے مسجد میں مستقل امام نہیں تھا اس لیے وہ نماز بھی پڑھاتا اور بچوں کو قرآن اور اخلاق کا درس بھی دیتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ گائوں کے ہر طبقے میں ہردلعزیز اور معزز و محترم تھا۔
اللہ بخش کی دعوتِ حق میں شمولیت
اس کا مسلک دعوتِ حق تھا۔ اس نے دیکھا کہ شہر میں بھی بہت سے لوگ اس کے ہم مسلک ہیں، وہ بھی ان میں شامل ہوگیا اور انھی لوگوں کے شانہ بشانہ چلنے لگا۔ ان لوگوں کا طریقہ تھا کہ اپنی تربیت کے لیے کچھ عرصے بعد اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ یہ مرحلہ بڑے پیمانے پر ہوتا تو زیادہ لوگ آتے۔ وہ ان کے ساتھ چلتا رہا۔ ایک دفعہ اس نے پروگرام بنایا کہ وہ بھی اس اجتماع میں شریک ہو جہاں دعوتِ حق کے علَم بردار فروغِ دین کے لیے ملک بھر سے جمع ہورہے تھے، اس غرض سے وہ اپنی بیٹی کو لے کر لاہور پہنچ گیا۔
تحریکِ اسلامی کے رہنما کا قول تھا کہ اگر تم لوگوں کے راستے میں رکاوٹ نہ آئے تو سمجھ لو کہ تمہارا راستہ مشکوک ہے۔ بہرحال اب کے ایسی رکاوٹ آئی کہ راستے کے بالکل سیدھا ہونے کا واضح ثبوت مل گیا۔ ان کا لیڈر جب تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو حکومتی غنڈوں نے ہنگامہ کردیا، یہ کرائے کے غنڈے تھے جنہیں ہر قسم کے سرکاری تحفظ کا یقین دلاکر اجتماع الٹنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ قناتیں گرانے، کرسیاں توڑنے، آگ لگانے اور شور مچاکر ہوائی فائرنگ کرنے لگے۔ ہرطرف ہلچل مچ گئی۔ ایک غنڈے کی گولی دعوتِ حق کے متلاشی دیہاتی کے سینے میں پیوست ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں یہ دیہاتی اپنا فرضِ زندگی نبھاکر دنیا سے رخصت ہوگیا، لیکن قاتل کو اِس دنیا میں بھلا کون پکڑنے والا تھا! سنا ہے لوگوں نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا تھا مگر اس نے چھوڑ دیا تھا۔
میں اس وقت عمر کے ایسے حصے میں تھا جب مجھے شعور نہیں تھا، تاہم میری چشمِ تصور اس سفید پوش شخص کو آج بھی سڑک پر خون میں لت پت دیکھتی ہے۔ جب وہ گائوں سے گیا تھا تو مجھ سمیت پانچ بیٹوں کو چھوڑ کر گیا تھا۔ ایک بیٹی تھی جو اس کے ساتھ تھی۔
محمد انور فرزند اللہ بخش شہید کہتے ہیں کہ جب والد اللہ بخش گائوں سے جماعت اسلامی کے اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور گئے تھے تو ہم ایک عام دیہاتی مسلمان کے بیٹے تھے مگر جب وہ شخص پلٹا تو مرتبہ شہادت پر فائز ہوچکا تھا، اب ہم عام دیہاتی کے نہیں بلکہ اللہ بخش شہید کے بچے تھے جو 25 اکتوبر 1963ء کو جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں سرکاری غنڈوں کی گولی کا نشانہ بنا تھا۔ وہ ہماری تعلیم و تربیت کے لیے خود تو زندہ نہ رہے مگر جان دے کر ہمیں نشانِ منزل دے گئے۔
(راوی: محمد انور (فرزند اللہ بخش شہید)انتخاب، تدوین اور تلخیص: محمود عالم صدیقی ، ماخوذایشیاء لاہور، 30 اکتوبر 1988ء)
نفسیات غلامی
سخت باریک ہیں امراض امم کے اسباب
کھول کر کہئے تو کرتا ہے بیاں کوتاہی!
دین شیری میں غلاموں کے امام اور شیوخ
دیکھتے ہیں فقط اک فلسفہ روباہی!
ہو اگر قوت فرعون کی در پردہ مرید
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی!