اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین وزارتِ عظمیٰ کو ملک کا ذمہ دار ترین اور سب سے بااختیار منصب قرار دیتا ہے، چنانچہ اس منصب کا تقاضا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر موجود شخص اپنی گفتار و کردار میں نہایت ذمہ دارانہ طرزِعمل کا مظاہرہ کرے، اُس کا ایک ایک اقدام اور اُس کی زبان سے نکلنے والا ایک ایک لفظ اُس کے منصب کے تقاضوں کی عکاسی کرتا ہو، مگر اسے ملک و قوم کی بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز میں اس منصب پر فائز رہنے والوں کے قول و فعل میں اکثر و بیشتر اس ذمہ دارانہ طرزِعمل کی عکاسی عنقا ہوتی ہے، جس کے منفی اثرات اور نقصانات ملک و قوم کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ ماضی کی تاریخ کو کریدے بغیر ہم صرف موجودہ وزیراعظم کے کردار و گفتار ہی کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دعوے اور وعدے کرنے کے بادشاہ ہیں۔ ان کے بہت سے دعوے آج زبان زدِ عام ہیں، مثلاً زیادہ پرانی بات نہیں جب وہ ایک صاحب کے گلے میں کپڑا ڈال کر گلیوں میں گھسیٹنے اور اُن کا پیٹ پھاڑ کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے کے دعویدار تھے اور ایسا نہ کرنے پر لوگوں کو اپنا نام تبدیل کرنے کا اختیار دیتے تھے، مگر آج وہی صاحب وزیراعظم کے محبوب قرار پا چکے ہیں، جنہیں اپنی جماعت کے ووٹ دلوا کر ملک کے اہم ترین آئینی منصب پر بٹھا دیا ہے، اب کس میں ہمت ہے کہ جناب وزیراعظم سے ان کا نیا نام دریافت کرے! اپنے کپڑے بیچ کر صوبہ خیبر کے عوام کو سستا آٹا فراہم کرنے کا وزیراعظم کا وعدہ بھی خاصا مقبول ہوا تھا، مگر آج بھی اپنی تکمیل کا منتظر ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے جس کے وہ اُس وقت صدر تھے، ان کی قیادت میں تیار کردہ اپنے انتخابی منشور میں پاکستانی عوام سے دو سو یونٹ بجلی مفت دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر ان کے دوبارہ وزیراعظم بنتے ہی بجلی کے نرخ اتنی بار اور اتنے زیادہ بڑھا دیے گئے ہیں کہ غریب تو ایک طرف، اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگوں کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں، جب کہ وزیراعظم اور ان کے دیگر قائدین اپنا وعدہ پورا کرنے کے بجائے آئیں، بائیں، شائیں کرنے اور بغلیں جھانکنے میں مصروف ہیں۔
جنابِ وزیراعظم نے چند روز قبل قوم کو نوید سنائی تھی کہ آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہوگا۔ مگر اس کا کیا کیجیے کہ خود اُن کے وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب صاحب نے برطانوی جریدے ’’فنانشل ٹائمز‘‘ کو اپنے انٹرویو میں وزیراعظم کے اس دعوے کی تردید کردی ہے۔ وزیر خزانہ جو شاید وزیراعظم سے زیادہ بااختیار اور حقائق سے باخبر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان محصولات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرتا تو آئی ایم ایف سے مالی امداد حاصل کرنے پر مجبور ہوتے رہنا پڑے گا، ہم اس ماہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے کے لیے پُرامید ہیں مگر یہ ہمارا آخری فنڈ پروگرام نہیں ہوگا‘‘۔ اب عوام کس کی بات پہ یقین کریں، کس کا یقین نہ کریں… شکر ہے کہ وزیراعظم نے خود ہی عوام کی یہ مشکل دور کردی ہے اور کوئٹہ میں ’’کسان پیکیج‘‘ پر دستخطوں کی تقریب اور صوبائی کابینہ سے اپنے خطاب میں فرمایا ہے کہ’’ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی۔ تلخ اور کڑوے فیصلے نہ کیے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ قرضوں نے ہماری نسلوں کو بھی گروی رکھ دیا ہے، ان سے جان چھڑانے کے لیے وفاق، صوبے اور متعلقہ ادارے مل کر کام کریں گے تو آنے والی نسلیں دعائیں دیں گی، ورنہ اگر تین سال بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا‘‘۔ وزیراعظم کی غیرت اور ڈوب مرنے کی پریشانی اپنی جگہ، مگر اُن کی کابینہ کے وزیر خزانہ کا بہرحال اصرار ہے کہ آئی ایم ایف سے اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے جان چھڑانا ممکن نہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان جلسوں، پریس کانفرنسوں، سیمینارز اور ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں بجا طور پر بار بار یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ’’یہ کیسا نظام ہے جس میں مراعات یافتہ طبقہ سیاست دان، جج، جرنیل اور اعلیٰ بیوروکریسی کے ارکان مفت بجلی استعمال کریں اور عام آدمی بھاری بل ادا کرے! وسائل پر قابض اشرافیہ نے تعلیم برائے فروخت بنادی ہے، بھاری بھرکم بلوں نے غریبوں کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے‘‘۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ ’’پیٹرولیم مصنوعات پر ستّر روپے تک لیوی ٹیکس دراصل حکمرانوں کا غنڈہ ٹیکس ہے، اب قوم حکمرانوں کی مزید غلام نہیں بن سکتی، آئی ایم ایف کے غلام حکمران عوام پر بجلی کے بم گرانا بند کریں، جماعت اسلامی اس استحصالی نظام کو نہیں مانتی، ہم ملک بھر سے مظلوموں کو اسلام آباد میں جمع کرکے ظلم کے اس نظام کے خلاف دھرنا دیں گے اور ہمارا احتجاج مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔‘‘
وزیراعظم سے موجودہ صورتِ حال میں یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ وہ امیر جماعت اسلامی کے احتجاج اور انتباہ کو آسان نہ لیں۔ وہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں، جو مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور حکومتی استحصالی ٹیکسوں سے تنگ آچکے ہیں۔ ان ظالمانہ ٹیکسوں، بجلی اور گیس وغیرہ کے بلوں کو برداشت کرنا اب پاکستانی عوام کے بس سے باہر ہوچکا ہے، لاوہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ وزیراعظم کی دل پذیر تقریریں اب زیادہ دیر تک لوگوں کو بہلا نہیں سکتیں، وہ اپنے خطابات میں جو سبز باغ دکھا رہے ہیں، عملاً ان کا کوئی اقدام عوامی بہبود کے لیے کسی ٹھوس کاوش کی نشاندہی کرتا نظر نہیں آتا۔ عوام کے غیظ وغضب سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ وزیراعظم اور دیگر اربابِ اقتدار و اختیار اب باتیں کم اور کام زیادہ پر توجہ دیں… ورنہ ڈریں اُس سے جو وقت ہے آنے والا…! (حامد ریاض ڈوگر)