کہا یہ جعفریؔ نے جب کہ…

تازہ ترین خبروں کے مطابق مسافر بس حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔ خبر پڑھنے والی خاتون زخمیوں کے نام مع ولدیت بتا رہی تھیں۔ ایک زخمی بچی کا نام رُخسانہ ولد محمد شفیع بتایا گیا۔ ’وَلَد‘ کے لام کو ساکن پڑھنے کی غلطی عام ہوگئی ہے، سو یہ غلطی تو ہوئی، کیوں کہ خبر پڑھنے والی خاتون کو شاید کسی نے کبھی نہیں بتایا ہوگا کہ وَلَد کے لام پر زبر ہے۔ ہمارے برقی ذرائع ابلاغ میں شاید طے ہوگیا ہے کہ خبر خواں کو فقط نک سک سے درست ہونا چاہیے، تلفظ درست ہو یا نہ ہو، اس کا ابلاغ سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اب ذرائع ابلاغ میں صرف سنگھار ٹھیک کرنے والوں کوملازم رکھنا لازم سمجھا جاتا ہے۔ پہلے تلفظ ٹھیک کرنے والے زیادہ ضروری سمجھے جاتے تھے۔ ذوالفقار علی بخاری جب ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر تھے تو گھر میں بھی ریڈیو کی نشریات سنتے تھے اور ریڈیو پر بولنے والوں کے تلفظ پر توجہ رکھتے تھے۔ ریڈیو پاکستان نے نصراللہ خاں مرحوم اور دیگر کئی ماہرینِ زبان کو تلفظ کی تصحیح کا کام سونپ رکھا تھا۔ ریڈیو پر بولی جانے والی زبان اور ریڈیو پر ادا کیے جانے والے تلفظ کو سند سمجھا جاتا تھا۔ درست زبان اور درست تلفظ سے نشریاتی ادارے کا وقار بڑھتا ہے۔ اس کی وقعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خیر، فی الحال تلفظ کو ایک طرف رکھیے، یہ پوچھیے کہ کیا حادثے کی خبر تحریر کرنے والے مدیرِ خبر نے کبھی ’ولد‘ کے معنی جاننے کی بھی کوشش کی؟ غالباً نہیں کی۔ اگر کی ہوتی تو معلوم ہوجاتا کہ ’وَلَد‘ بیٹے کو کہتے ہیں اوراس خبر میں زخمی بیٹی کا نام رُخسانہ بنتِ محمد شفیع لکھ کر دینا چاہیے تھا۔

الفاظ ہی ذریعۂ اظہار ہیں اور الفاظ ہی ذریعۂ ابلاغ ہیں۔دیگر فنّی مہارتوں کی طرح لفظ کا درست تلفظ جاننا اور اصل معنی معلوم ہونا بھی پیشہ ورانہ مہارت کا حصہ ہے۔ لفظ اور اس کے معنی میں کیا ربط ہے، یہ آپ کے علم میں ہونا چاہیے۔ اگر آپ اس سے غفلت برتتے ہیں تو آپ اس منصب کے پوری طرح اہل نہیں۔ آپ مغربی ذرائع ابلاغ کی مہارتوں سے متاثر ہیں؟ کوئی حرج نہیں، متاثرین میں شامل رہیے۔ مگرذرا یہ بتائیے کہ کیا اہلِ مغرب بھی اپنی زبان کے ساتھ وہی کھلواڑکرتے ہیں جو آپ اپنی زبان کے ساتھ کیے جارہے ہیں؟

ُوَلَد‘ اسمِ مذکر ہے۔ وَلَد کا مطلب ہے بیٹا، بچہ، لڑکا، پوت یا پسر۔ ’احمد وَلَد محمود‘ کا مطلب ہے محمود کا بیٹا احمد۔ وَلادت کے معنی ہیں بچہ جننا یا پیدائش ہونا۔ ولادت کے عمل میں مشارکت کی وجہ سے باپ کو والد کہتے ہیں اور ماں کو والدہ۔ ماں باپ دونوں کا ذکر کرنا ہو تو انھیں ’والدین‘کہا جاتا ہے۔ ’والد‘ کی جمع ’والدون‘ یا ’والدان‘ ہے اور والدہ کی جمع ’والدات‘۔ والد کا تلفظ تو غالباً باپ کے ڈر سے سب ہی کا ٹھیک ہوجاتا ہے، مگر ’والدہ‘ بولتے ہوئے ولادت شدگان لام کو ساکن کردیتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ ماں کا لاڈ پیار بچوں ہی کو نہیں، اُن کے تلفظ کو بھی بگاڑ دیتا ہے۔ پس اے بگڑے بچو! والدہ کے لام کو زیر کے ساتھ ادا کیا کرو۔ جن لوگوں نے پاکستان ٹیلی وژن کارپوریشن سے نشر ہونے والے ترکی ڈرامے ’ارطغرل غازی‘ کے اُردو مکالمات سنے ہیں اُن کو اس ڈرامے میں والدہ کا صحیح تلفظ سننے کو ملا ہوگا۔

جس کی بھی ولادت ہوجائے وہ ’مولود‘ ہوتا ہے۔ جو نیا نیا تولد ہوا ہو ’نومولود‘ ہوتا ہے۔ مولود کی جمع ’موالید‘ ہے۔ ’تَوَلُّد‘ کا مطلب بھی پیدائش ہے۔ مگر یہ لفظ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ دیکھیے شیخ امام بخش ناسخ اپنی پیدائش کا رونا کیسے رو رہے ہیں:

رہے کیوں کر نہ دل ہر دم نشانہ ناوکِ غم کا
کہ ہے میرا تولّد ہفتمِ ماہِ محرم کا

چلیے محققین کی ایک مشکل توآسان ہوئی کہ ناسخؔ سات محرم کوتولُّد ہوئے تھے۔ ’تولد ہونا‘ کی ترکیب خوب استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے پیدا ہونا۔ پیدائش کے لیے ’تولید‘ کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ مولوی نورالحسن نیر مرحوم فرماتے ہیں کہ ’’دکن میں صفرے کی تولید زیادہ ہوتی ہے‘‘۔ شاید اسی وجہ سے دکن میں حکیموں کی تولید بھی زیادہ ہوتی ہے۔

’میلاد‘ کے معنی ہیں پیدائش کا وقت یا پیدا ہونے کا زمانہ۔ ہمارے مسیحی بھائی عیدِ میلادِ مسیح ؑمنایا کرتے تھے۔ اُن کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی عید میلاد النبیؐ منانا شروع کردیا۔’میلاد‘ مسلمانوں کے ہاں اب ایک اصطلاح بن چکی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے: ’’کل ہمارے ہاں میلاد ہے‘‘ تو اس سے مراد ایسی مذہبی مجلس ہوگی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کا ذکرکیا جائے۔ امیرؔ کہتے ہیں:

ہے فضل جہان پر خدا کا
میلاد ہے شاہِ انبیاؐ کا

بالعموم خواتین ہی میلاد پڑھتی ہیں۔ مرد تو جلسۂ سیرت النبیؐ منعقد کیا کرتے ہیں۔ مگرسیرتِ پاکؐ پر کتنا عمل کرتے ہیں یا اسے اپنی سیرت کا حصہ کس حد تک بناتے ہیں؟ یہ نہ پوچھیے۔ ’مولِد‘ جائے ولادت یا پیدا ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد ’وطن‘ لیا جاتا ہے۔ پیدائش کے وقت یا زمانے کو بھی مولِد کہا گیا۔ ناسخؔ کہتے ہیں:

روزِ مولِد سے نہیں عیش و طرب قسمت میں
رمز یہ ہے کہ بشر ہوتے ہیں گریاں پیدا

بشر تو پیدا ہی روتے پیٹتے ہوتے ہیں، خواہ بحیثیت وَلَد پیدا ہوں یا بحیثیت بنت۔ ’وَلَد‘ کی جمع ’اولاد‘ ہے۔ مگر اُردو میں لفظ ’اولاد‘ کا اطلاق مذکر مؤنث سب پر ہوتا ہے۔ عربی میں ایسا نہیں ہے۔ جو لباس لڑکوں کے لیے ہوتا ہے اُسے دنیائے عرب کے دُکان دار’’لِلاولاد‘ بتاتے ہیں، اور جو چیز لڑکیوں کے لیے ہو وہ ’لِلبنات‘ کہلاتی ہے۔ ’ولید‘ بچے کو کہتے ہیں۔ اس کی مؤنث ’ولیدہ‘ ہے۔ مرغی کی کنیت عربی میں ’اُم الولید‘ یعنی ’بچوں کی ماں‘ہے، ٹھیک ہی ہے، کیوں کہ اس دُکھیا کے بہت سے انڈے کھا جانے کے باوجود بکثرت بچے تولُّد ہوتے ہیں۔

وَلَدِیَّت کا مطلب باپ کا نام ہے، مگر اس سے مراد خاندان، گھرانا اور نسل بھی لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کسی کی ولدیت ’نامعلوم‘ لکھنا گالی سمجھا جاتا ہے، مگر مغرب میں کسی کی ولدیت نامعلوم ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی، بلکہ اب تو وہاں کسی سے اُس کی ولدیت دریافت کرنا غیر اخلاقی عمل گردانا جاتا ہے، جب کہ ’غیر اخلاقی عمل‘ کو ’انسانی حقوق‘ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ سنا ہے وہاں دستاویزات میں باپ کی جگہ ماں کا نام لکھنے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ والد تو ہر مولود کا ایک ہی ہوتا ہے، خواہ معلوم ہو یا نامعلوم، مگر باپ کئی ہوسکتے ہیں۔ ہمارے ایک استاد اپنے حق میں ایک قول سنایا کرتے تھے۔ تصدیق نہیںکہ یہ قول کس کا ہے:’’تیرے تین باپ ہیں، پہلا وہ جس نے تجھے جنا، دوسرا وہ جس نے تجھے علم دیا، اور تیسرا وہ جس نے تجھے اپنی بیٹی دی۔ تینوں میں افضل وہ ہے جس نے تجھے علم دیا‘‘۔

مشتاق احمد یوسفی نے ’’خاکم بدہن‘‘ کے مضمون ’’چند تصویرِ بتاں‘‘ میں ’’اکبر اعظم‘‘ کا شہزادہ سلیم سے دلچسپ مکالمہ تحریر کیا ہے:

’’اکبر: (آستین اور تیوری چڑھا کر) اے خاندانِ تیموریہ کی آخری نشانی! اے ناخلف مگر (کلیجہ پکڑکے) اکلوتے فرزند! یاد رکھ، میں تیرا باپ بھی ہوں اور والد بھی!‘‘

یہ ڈرامائی انکشاف اپنی جگہ۔ مگر باپ بنا بھی لیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لیا جاتا ہے۔ سید محمد جعفری کے زمانے میں نواب شاہ کے کسی قصاب نے شہریوں کو گدھے کا گوشت کھلا دیا تھا۔ اس پر انھوں نے غزل کہی کہ ’’گدھے کا گوشت کھلایا کھلانے والوں نے … تو بوجھ دُگنا اُٹھایا اُٹھانے والوں نے‘‘۔ اس غزل کے مقطعے میں جعفری صاحب فرماتے ہیں:

کہا یہ جعفریؔ نے جب کہ تم گدھے نہ بنو
تو اس کو باپ بنایا بنانے والوں نے

باپ بنانے والوں نے سوچا ہوگا کہ واہ! یہ کتناہوشیار گدھا ہے جو ہم سے کہتا ہے کہ ’’تم گدھے نہ بنو!‘‘