اپنی کارکردگی کے لحاظ سے پاکستان کی سیاسی تاریخ اگرچہ جمہوری نظم حکمرانی کے تسلسل اور استحکام میں ناکامی سے دوچار رہی ہے، تاہم اس کا تجزیاتی مطالعہ دلچسپ اور سبق آموز ہونے کے ساتھ ساتھ افروایشیا کے اُن بیشتر ممالک کے سیاسی معاشروں کی تاریخ سے حیرت انگیز طور پر مشابہ بھی ہے جو جنگِ عظیم دوم کے بعدآزاد ہوئے۔
قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی پارلیمانی نظمِ حکمرانی کو پاکستان میں بھی اختیار کیا گیا، تاہم کبھی فوجی حکومتیں، کبھی نیم پارلیمانی حکومتیں اور کبھی پارلیمانی حکومتیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا حصہ بنیں۔ صورتِ حال کا یہ تناظر پاکستان کی سیاست کے دو بنیادی پہلوئوں کی طرف متوجہ کرتا ہے، پہلا تو یہ کہ ریاستی اداروں (بیوروکریسی اور فوج) کے اپنے متعین اختیارات سے تجاوز کرنے کے رجحانات نے سیاسی امور میں مداخلت کرتے ہوئے جمہوری سیاست میں تعطل پیدا کیا۔ دوسرا یہ کہ سیاست دانوں کو جب بھی اور جتنا بھی حکمرانی کا موقع ملا ان کی کارکردگی جمہوری اقدار کے فروغ کے بجائے اس سے انحراف کا باعث بنی۔
سیاست دانوں کو جب بھی جمہوری نظم میں کام کرنے کا موقع ملا، مطلوبہ اہلیت، موزونیت اور معیار کو پیش کرنے میں آخر کیوں ناکام رہے ہیں؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب پیشِ نظر کتاب ’’پاکستان: جمہوری سیاست اور سماج‘‘ کے فاضل مصنف نے پاکستان کی سماجی ساختیاتی ہیئت پر اثرانداز ہونے والے عوامل اور سیاست دانوں سے ان کے تعلق کی بنیاد پر تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
پیشِ نظر کتاب ڈاکٹر محمد سلیم شیخ کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جس پر انھیں جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ۔ڈی کی سند تفویض ہوئی ہے۔ ڈاکٹر شیخ درس و تدریس سے وابستہ رہے ہیں اور ایک معروف کالم نگار بھی ہیں۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ 8 ابواب اور 6 ضمیموں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے اپنی تحقیق کے دائرۂ کار کو 1947ء۔ 1977ء کے دوران پارلیمانی نظم حکمرانی کے تجربات تک محدود رکھا ہے۔
ڈاکٹر شیخ رقم طراز ہیں:
’’زراعت پر معیشت کا انحصار، دیہی آبادی کا زیادہ ہونا، تعلیمی پسماندگی، اور پست معیارِ زندگی جیسی روایتی معاشرے کی تمام خصوصیات کی موجودگی میں پاکستان میں بھی جمہوری سیاسی نظام کا اختیار کیا جانا کامیاب تجربہ ثابت نہ ہوسکا۔ ان خصوصیات کے باعث مختلف ادارے اور ان کی کارکردگی، پیداواری رشتے اور ان کا تعین، شعورِ عامہ، اخلاق اور شہری اقدار عمومی طور پر غیر جمہوری اور غیر سائنسی مزاج کے زیراثر ہیں۔ معاشرے میں موجود افقی اور عمودی امتیازات و اختلافات شدید نوعیت کے ہیں۔ مراعات یافتہ اقلیتی طبقے کو غیر مراعات یافتہ اکثریتی طبقے پر سماجی، اقتصادی اور سیاسی غلبہ حاصل ہے، اوراس غلبے نے پاکستانی معاشرے میں تبدیلیوں کے عمل کو انتہائی سست رفتار کردیا ہے۔ پاکستان میں موجود جاگیرداروں، وڈیروں، قبائلی سرداروں، خوانین اورامراء پر مشتمل مراعات یافتہ طبقات نے اپنی سماجی حیثیت کے بل بوتے پر سیاسی نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ لہٰذا جب بھی پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کو جاری ہونے کا موقع ملا اس طبقے نے سیاسی اداروں کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا اور جمہوری سیاسی نظام میں عوام کی شرکت کو غیر مؤثر اور مجہول رکھتے ہوئے عوامی مفادات کو نظرانداز کیا۔ اس عمل میں ان مراعات یافتہ طبقات کو ریاست کے دو اہم اداروں فوج اور بیوروکریسی کا تعاون بھی حاصل رہا۔ مفادات کے اشتراک نے فوج، بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے درمیان ایک ایسی تکون قائم کردی ہے جو پاکستان کے معاشرتی مزاج کے پس منظر میں حکومت واقتدار پر اپنی گرفت کو مضبوط کیے ہوئے ہے۔ اس گٹھ جوڑ کے باعث پاکستان میں جب بھی جمہوری سیاسی عمل کا آغاز ہوا تو وہ ’’عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے‘‘ کی مسلمہ جمہوری روایت کے بجائے خواص کی حکومت، خواص کے لیے، عوام کے ذریعے کے مظاہرے کے باعث جمہوری اقدار سے انحراف کا شکار ہوگیا۔
اس صورتِ حال کا استقرار جب تک رہے گا پاکستان میں جمہوری سیاست کا پنپنا ممکن نہیں۔ لہٰذا پاکستانی سیاست میں موجود اس ملاپ(NEXUS) یا گٹھ جوڑ کو کس طرح بے اثر کیا جائے اور وہ کیا اقدامات ہوسکتے ہیں جن کے کیے جانے سے پاکستان میں معاشرتی ترقی کو ممکن بناتے ہوئے جمہوری نظم حکمرانی کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوسکے، یہی اس تحقیق کے بنیادی مقاصد ہیں۔‘‘
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ ڈاکٹر شیخ کی ڈاکٹریٹ کے لیے کی جانے والی یہ تحقیق بنیادی طور پر ابتدائی تیس سالوں (1947ء۔1977ء) کے دوران پارلیمانی حکومتوں کی کارکردگی پر محیط تھی۔ تاہم اس کی کتابی شکل میں اشاعت کے پیش نظر اس تحقیق کو وسعت دیتے ہوئے اگلے تیس سالوں (1977ء۔2007ء) کے دوران پارلیمانی حکومتوں کی کارکردگی کو بھی اس تجزیے میں شامل کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو ماضیِ قریب تک کی سیاسی صورتِ حال کا ادراک ہو اور ان پر یہ آشکار ہوسکے کہ جس طرح ابتدائی تیس سالوں میں سیاسی سفر جمہوری اقدار سے انحراف کا شکار رہا اگلے تیس سالوں میں بھی پاکستان میں سیاست دائرے کا سفر ثابت ہوئی، نہ تو وہ اسباب و محرکات جو ابتدائی سالوں میں موجود تھے خاطر خواہ تبدیل ہوئے اور نہ ہی سیاست دانوں کے رویوں میں کوئی تبدیلی آسکی، لہٰذا نتائج جمہوری سیاسی اداروں کی ناپختگی کی صورت میں سامنے آتے رہے۔ آخر میں پاکستان میں پارلیمانی جمہوری سیاست کے مستقبل کے عنوان کے تحت مجموعی تجزیے کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔
اپنے موضوع پر یہ ایک عمدہ تحقیقی مقالہ ہے۔ پاکستان میں جمہوری اقدار سے انحراف کے تناظر میں حکومتوں کی کارکردگی کے تجزیے اور ان کے اسباب و محرکات سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے جس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔