غالباً 1985ء کی بات ہے۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والی عظیم خاتون رہنما سیدہ زینب الغزالی مصر سے پاکستان تشریف لائیں۔ اُس وقت اُن کی عمر 68 برس تھی۔کراچی میں اُن کی قیام گاہ پرچنیدہ صحافیوں اور کالم نگاروں سے گفتگو کا بندوبست کیا گیا۔ سیدہ سے ایک سوال اس کالم نگار نے بھی کیا:
’’پاکستان اور مصر دونوں ممالک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی تحریک چل رہی ہے۔ آپ نے دونوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ فرمائیے کہ آپ کے خیال میں اسلامی انقلاب پہلے مصر میں برپا ہوگا یا پاکستان میں؟‘‘
جامعہ کراچی میں شعبۂ عربی سے فارغ التحصیل ہونے والے، ہمارے ہم جامعہ دوست ڈاکٹر حافظ احسان الحق ترجمان کے فرائض ادا کررہے تھے۔ حافظ صاحب سیدہ زینب الغزالی کے بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے اور یہ عاجز داہنی طرف براجمان تھا۔ سوال کا عربی ترجمہ سنتے ہی سیدہ نے تیزی سے اپنا رُخ پھیر کر سوال کرنے والے 29 برس کے لڑکے کو ایسی شفقت بھری شوخ مُسکراہٹ سے دیکھا جیسے کوئی نانی اماں اپنے نواسے کی شرارت سے لطف اندوز ہورہی ہوں۔ پھر یکایک اُن کے چہرے پر سنجیدگی طاری ہوگئی۔ فرمایا:
’’میرے بیٹے! اسلامی انقلاب پہلے مصر میں آئے گا نہ پاکستان میں۔ اسلامی انقلاب پہلے افغانستان میں آئے گا،کیوں کہ مسلمانانِ افغانستان نے جہاد کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا ہے‘‘۔
جہادِ افغانستان کاآغاز دسمبر1979ء میں روسی افواج کی افغانستان پر چڑھائی سے ہوا تھا۔ افغانیوں کا جہاد اگست 2021ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا تک جاری رہا۔ نصف صدی کے لگ بھگ جاری رہنے والے جہادِ افغانستان کے مطلوب و غیر مطلوب اثرات نہ صرف تمام مسلم دنیا پر مرتب ہوئے بلکہ افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کے بعد پیش آنے والے پے در پے واقعات نے پوری دنیا کا منظرنامہ تبدیل کردیا۔ استعماری طاغوتی قوتوں کی طرف سے بالخصوص مسلمانوں کے خلاف، طاقت کے اندھا دھند اورظالمانہ استعمال نے جدید ’مہذب دنیا‘کی وحشیانہ فطرت بے نقاب کرکے رکھ دی اور ڈھٹائی کی ایسی ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ بظاہر اب کسی تنازعے کا پُرامن حل ناممکن نظر آتا ہے۔ فلسطین میں غزہ کے نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ اسرائیل کی بہیمیت اور اس کی کھلی درندگی کی عالمی طاقتوں کی طرف سے علانیہ سرپرستی نے ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس سوائے غلامی یا جہاد کے کوئی متبادل راستہ اب ہے ہی نہیں۔
امتِ مسلمہ اس وقت واضح طور پر دو طبقات میں منقسم ہے۔ ایک مقتدرطبقہ جس نے ’غلامی‘ کو علی الاعلان قبول کرلیا ہے، دوسرا عام مسلمانوں کا طبقہ جو ظلم، جبر، درندگی اور طاقت کے آگے سرجھکاکرذلت بھری غلامانہ زندگی بسر کرنے کے بجائے بساط بھر مقابلہ کرکے عزت کے ساتھ شہادت کی موت کو گلے لگانے کو تیار ہے۔ غزہ کے مسلمان اس دوسرے طبقے کی امت میں موجودگی کا عملی ثبوت ہیں۔ فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، مگر اُن کی استقامت میں کمی نہیں آرہی ہے۔ اُن کے عزم اور ولولے میں بھی روز بروز اضافہ ہی ہورہا ہے۔
مجاہدینِ فلسطین کی استقامت کا سبب بھی وہی ہے جس کی نشان دہی سیدہ زینب الغزالی نے آج سے اُنتالیس برس پہلے کی تھی کہ ’’… اُنھوں نے جہاد کی حلاوت کا ذائقہ چکھ لیا ہے‘‘۔ یہ وہی ذائقہ ہے جو پہلے پہل صحابہ کرام رضی اللہم اجمعین نے چکھا تھا۔ یہ حلاوت قرآنِ مجید کی تلاوت سے پیدا ہوئی تھی۔ غزہ کے مجاہدین کا بھروسا بھی اللہ کے سوا کسی طاقت پر نہیں۔ ’’حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘ کا نعرہ غزہ کے ہر مردوزن اور بچے کی زبان پر ہمہ وقت رہتا ہے۔ قرآن سے اُن کا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے اپنے مکانوں کے کھنڈرات پر بیٹھے تلاوت کرتے ہوئے بچوں کی بہت سی تصاویر اور وڈیوز زمانے بھر کو دکھا دی ہیں۔ مساجد تباہ کردی گئی ہیں، مگر نمازِ باجماعت تباہ نہ کی جا سکی۔ کھنڈرات ہی پرجماعت ہورہی ہے۔
مجاہدین تک قرآنی تعلیمات کی ترسیل میں ڈاکٹر ادہم الشرقاوی نے بھی حصہ لیا ہے۔ ادہم الشرقاوی فلسطینی ادیب، ناول نگار اور خطیب ہیں۔ 1980ء میں لبنان کے شہر صور میں پیدا ہوئے۔ لبنان یونیورسٹی بیروت سے عربی ادب میں ایم فل کی سند حاصل کی۔ اب تک پچیس کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ ان کے مختصر اور پُراثر خطبات عوام اور مجاہدین میں انتہائی مقبول ہیں۔ ان خطبات میں الشرقاوی قرآنی آیات کے حوالے سے سبق آموز اور دل میں اتر جانے والے نکات بیان کرتے ہیں۔ اُن کی کتاب ’’رسائل من القرآن‘‘کی اہلِ فلسطین، بالخصوص فلسطینی مجاہدین میں بے حد پزیرائی ہوئی ہے۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی کسی ایک آیت کو لے کر نہایت مختصر الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ مسائل کی کثرت اور وسائل کی قلت کے باوجود قرآنی احکام پر عمل پیرا ہوکر ہم کامیابی کے رستے پر کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اکثر تشریحات صرف ایک صفحے پرمحیط ہیں یا زیادہ سے زیادہ دو تین صفحات پر۔ اس سے زیادہ نہیں۔ ان تشریحات کے مطالعے سے قاری کے عزم، ارادے، ہمت، حوصلے اور ولولے میں اضافہ ہوتا ہے۔
جناب ابوالاعلیٰ سید سبحانی نے اصل عربی کتاب کا ترجمہ نہایت سلیس، رواں، بامحاورہ اور شگفتہ اُردو میں کرکے اُردو خواں قارئین تک اس قیمتی سرمائے کو نہایت خوبی اور خوش اُسلوبی سے منتقل کردیا ہے۔ اس وقت راقم الحروف کے مطالعے کی میز پر جو کتاب موجود ہے وہ اسلامک پبلی کیشنز (پرائیوٹ) لمیٹڈ، منصورہ، ملتان روڈ ، لاہور نے جون 2024ء میں شائع کی ہے۔ عنوان ہے: ’’رسائل من القرآن‘‘ (قرآنی تعلیمات)۔کتاب پر مقدمہ عالم اسلام کے مشہور محقق اور مصنف ڈاکٹر عنایت اللہ اسد سبحانی نے تحریر فرمایا ہے۔ اصل کتاب کا تعارف کرانے کے بعد مولانا عنایت اللہ سبحانی لکھتے ہیں:
’’یہ کتاب عربی زبان میں ہے، اُردو قارئین کے لیے اس سے استفادہ کرنا ممکن نہیں، خوشی کی بات ہے کہ عزیزی ابوالاعلیٰ سید سبحانی کو اس ضرورت کا احساس ہوا، اور انھوں نے اسے اُردو کا خوب صورت جامہ پہنا دیا۔‘‘(ص: 7)
مصنف نے جس طرح چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی حقیقتیں سمو دی ہیں، جناب ابوالاعلیٰ سید سبحانی نے بھی ترجمے میں اس اسلوب کو برقرار رکھنے کا کمال دکھایا ہے جو آسان کام نہیں۔اصل کتاب کا وہ دل نشیں اندازِ بیان، جو قاری کے دل میں اُترکر اُن باتوں کی طرف متوجہ کردیتا ہے، جن کی طرف بالعموم توجہ نہیں جاتی، ترجمے میں بھی پایا جاتا ہے۔نمونے کے طور پر کتاب سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس اقتباس سے آپ نہ صرف مصنف کے پیرایۂ اظہار کا اندازہ لگا سکیں گے بلکہ ترجمے کی خوش اُسلوبی بھی آپ کے سامنے آجائے گی۔
سورۂ توبہ کی آیت نمبر117 میں بتایا گیا ہے کہ ’’اللہ نے نبیؐ اور اُن مہاجرین و انصار پر رحمت کی نظر کی جنھوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبیؐ کا ساتھ دیا۔‘‘ مصنف نے صرف ایک ٹکڑے ’’اَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہٗ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرۃِ‘‘ (جنھوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبیؐ کا ساتھ دیا)کو عنوان بنا کر لکھا:
’’یہ آیت غزوۂ تبوک کے تناظر میں نازل ہوئی۔
یہ غزواتِ نبیؐ میں سب سے مشکل غزوہ تھا۔
شدید گرمی کا موسم تھا۔
چلچلاتی دھوپ تھی۔
صحرا میں آگ برس رہی تھی۔
اس لشکر کو’ تنگی والے لشکر‘ کا نام دیا گیا،
کیوں کہ اس وقت اتنی فراوانی نہیں تھی کہ بھرپور طریقے سے جنگی تیاری ہوسکے۔
اللہ رب العزت نے اس مشکل وقت کو تنگی کے وقت سے تعبیر کیا ہے۔
وقت بہت تیزی سے گزر جاتا ہے۔
حالات ہوا کی تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔
اطاعت کے کاموں کا اجر ریکارڈ میں چلا جاتا ہے۔
اور معصیت کا وبال بھی ریکارڈ میں چلا جاتا ہے۔
صحابۂ کرامؓ مشکل وقت میں ایک دوسرے کو نصیحت اور تلقین کیا کرتے تھے:
یہ دن گزر جائیں گے اور ہمارا اصل ٹھکانہ تو جنت ہے!‘‘ (ص: 60)
کتاب کی طباعت دیدہ زیب ہے۔ سرورق سادہ اورپُرکشش ہے۔ کل صفحات 288 ہیں۔ قیمت درج نہیں۔ آپ اس واٹس ایپ نمبر پر اپنا پتا بھیج کر گھر بیٹھے کتاب منگوا سکتے ہیں:
0322-4673731