لالۂ صحرائی معاصر نعتیہ منظر نامے کی وہ بڑی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنی عمر کا ایک نمایاں حصہ اِس صنف کی آبیاری میں صرف کیا خصوصاً پایانِ عمر کی منزلوں میں ان کی زیادہ توجہ نعت گوئی کی طرف رہی۔ انھی سالوں میں دوسری ادبی و علمی مصروفیات کے ساتھ انھوں نے زیادہ تر نعت ہی کو اپنے قلبی مشاہدات و واردات کو حصہ بنایا اور اس ضمن میں کتابوں پر کتابیں لکھیں۔ ان کی نعتیہ شاعری کا نمایاں محّرک اُن کی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ والا تبار سے عقیدت اور آپؐ کے پیغام و تعلیمات سے محبت کا جذبہ ہے۔ دوسرے نعت گو شاعروں سے لالۂ صحرائی کی انفرادیت اسی جذبے کے وفور کے سبب ہے۔
لالۂ صحرائی کی نعت کا انداز علمی ہے عوامی نہیں۔وہ نعتیہ مجالس اور میلاد کی محافل کے شاعر نہیں تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیوں کو نعت سے آباد کیا اور ایک اہم فرض کی طرح کارِ نعت میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جذبے کے اسی وفور کے ساتھ استعمال کیا جو نعت کے ذیل میں ان کی جداگانہ شناخت بنا، خصوصاً غزوات رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے ان کی نعت گوئی ایک اہم نعتیہ دستاویز کا درجہ رکھتی ہے جو کسی وقتی تاثر کا ردّعمل نہیں بلکہ ایک منضبط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ غزوات کا تذکار اگرچہ سیرت و نعت کا ہمیشہ سے موضوع رہا ہے اور اس حوالے سے ہر دور میں بعض طویل نظمیں بھی لکھی گئی ہیں، قدیم جنگ ناموں سے شاہنامہ اسلام (حفیظ جالندھری) تک غزوات نگاری کی ایک مستقل روایت موجود ہے مگر عہد ِحاضر کے نعت نگاروں میں غزوات کا شعری تذکار لالۂ صحرائی ہی کا خاصہ ہے۔
زیر نظر کلیات میں بہ یک کتاب ان کی ساری مساعی اور کار نعت کا حجم دیکھ کر ان کی شعری قدوقامت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ یہ کلیات وقت کی ایک اہم ضرورت تھا۔ اگرچہ ان کے الگ الگ نعتیہ مجموعے بھی اہلِ ذوق سے خراج تحسین حاصل کر چکے ہیں اور ان پر ملک بھر کی جامعات میں تحقیقی و تنقیدی کام ہو رہا ہے (کچھ کام مکمل بھی ہو چکے ہیں)مگر اس کلیات کی اشاعت سے اس کام کو نہ صرف تقویت ملے گی( اور ریسرچ سکالر کو لالۂ صحرائی کی کتابوں تک رسائی میں آسانی ہو جائے گی) بلکہ بہ حیثیتِ مجموعی کے نعتیہ اثاثے کے تخمینہ کا سامان بھی بہم ہو گا۔ یوں ان کی نعت کے فکری اور فنّی محاسن کے مطالعات کے نئے نئے زاوئیے سامنے آئیں گے۔
گذشتہ سالوں میں جناب حفیظ تائب ،حافظ مظہرالدین، جناب ریاض سہروری اور بعض دوسرے نعت گو شاعروں کے کلیات شائع ہوئے ہیں۔ لالۂ صحرائی کا یہ کلیات اس اثاثے میں ایک خوش گوار اضافہ ہے۔ کلّیات جہاں شاعروں کی تخلیقی کارکردگی کے مظہر ہوتے ہیں، وہاں بہ حیثیت ِمجموعی کسی خاص صنف،میلان، روّیے اور شعری قدر کی رفتار کاپیمانہ بھی ہوتے ہیں۔ نعت کی صنف جو بڑے عرصے تک بعض ناقدین کے نزدیک ادبی صنف کے طور پر زیادہ درخوراعتنا نہیں سمجھی گئی، معاصر ادبی منظر نامے میں ایسے سلسلہ ہائے کلیات ہی کے سبب اپنا صحیح مقام حاصل کر رہی ہے۔ اس کلیات میں درج ذیل مجموعے شامل ہیں:
حمد:
قلم سجدے
نعت:
لالہ زار نعت، باران نعت، غزوات رحمتہٌ للعالمینؐ (صدارتی ایوارڈ یافتہ)، پھولوں کے لیے پھول، گلہائے حدیث،نعت ستارے،نعت دھنک،نعت سویرا، نعت صدف،نعت چراغاں،نعت کہکشاں، نعت چمن،نعت ہلارے،نعت شفق
منظومات:حُرمتِ قلم یہ کلّیات عقیدت نگاری کے حوالے سے پندرہ سولہ مجموعوں اور ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔
ہمارے ہاں کلّیات عام طو رپر تین طریقوں سے مرتب کیے جاتے ہیں۔
۱-کسی شاعر کی چھپنے والے کتابوں کی ترتیب سے: یعنی جس طرح شاعر کی کتابیں چھپتی ہیں،ا نھیں بعینہٖ اسی طرح تاریخی ترتیب سے جمع کردیا جاتاہے ۔علامہ اقبالؒ کے کلیات اردو اور فارسی میں یہی ترتیب روا رکھی گئی ہے۔
۲-صنف وار ترتیب: یعنی شاعر کی کتابوں میں سے حمد، نعت، غزل، نظم، رباعیات وغیرہ کو جداگانہ طور علاحدہ کر کے مرتب کر دیا جاتا ہے۔ یوں کلیات میں شاعر کے کلام کی صنف وار جمع آوری کر دی جاتی ہے۔
۳-کتاب وار اور صنف وار جمع آوری کے علاوہ کلیات کی ایک اور ترتیب یہ ہوتی ہے کہ اس میں شاعر کے تخلیقی اثاثے کے ساتھ اس کی شخصیت اور فکروفن کے حوالے سے ملنے والے مضامین کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔
زیر نظر کلیات پہلی طرح کا کلیات ہے جس میں شاعر کے شعری مجموعوں کو ان کی اشاعتی ترتیب کے لحاظ سے جمع کر دیا گیاہے(سوائے حمد یہ کتاب’ قلم سجدے‘ کے۔۔۔کہ عقیدت نگاری کی مسلمہ روایت کے مطابق اسے پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے)۔ ان کے ساتھ کتابوں کے حوالے سے دستیاب اہلِ قلم کی آرا مضامین اور دیباچوں کو بھی متعلقہ کتابوں میں حسبِ سابق شامل کر لیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے اس کلیات کا پایہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ لالۂ صحرائی کے سکالرز کو جہاں ان کی مجموعہ ہائے کلام دستیاب ہوں گے، وہاں ان کے حوالے سے کچھ تنقیدی و تحقیقی مواد بھی مل جائے گا ۔ واضح ہو کہ لالۂ صحرائی کے فکروفن کے بارے میں حال ہی میں ایک ضخیم کتاب بعنوان: یاد نامہ لالۂ صحرائی چھپی ہے جسیــ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مرتب کیا ہے۔اس کتاب میں لالۂ صحرائی کے حوالے سے مختلف تنقیدی و تحقیقی مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ان مضامین کے لکھنے والی شخصیات میں وہ اہل قلم بھی ہیں جنھوں نے لالۂ صحرائی کے ساتھ زندگی کا ایک حصہ گزار۔ ان میں ان کے معاصر نعت گو بھی ہیں،اساتذہ ٔفن اور اہل علم بھی۔۔۔۔ ان کی تحریریں وہ معاصر گواہیاں ہیں جن کو روشنی میں لالۂ صحرائی کا مطالعہ ایک معیار آشنا اسلوب اور وقار آمیز مقام و مرتبہ کا حامل قرار پاتا ہے۔
ہر ادب پارہ پندرہ ،بیس سال بعد اپنے مطالعے اور جائزے میں اپنے قاری کو بعض نئے مفاہیم سے آشنا کراتا ہے۔ہم جیسے نئے نعت نگاروں کو ماضی قریب کی نامور نعت گو شخصیات (جناب عبدالعزیز خالد،جناب حفیظ تائب، جناب حافظ مظہرالدین،جناب حافظ لدھیانوی ،جناب حافظ افضل فقیر اور جناب لالۂ صحرائی) کے کلام کا مطالعہ فکر و اظہار کے نئے نئے اسالیب سے متعارف کروا سکتا ہے۔اخلاص نژاد رفتگاں کی ارواح اپنے کلام کے ذریعے اخلاص جُو قارئین پر اپنا باطن منکشف کرتی ہیں۔شرط یہ ہے کہ ان کے کلام کو نیک نیتی اور برکت طلبی کے لیے پڑھا جائے ورنہ سرسری اور ریاکارانہ مطالعہ کیا جائے تو اخلاص سرشت تحریریں اپنی معنویت آشکار نہیں کرتیں ، قاری سے پردہ کر لیتی ہے اور اپنے فیضان کو چھپا لیتی ہیں۔
کسی عارف کا قول ہے (غالباً سید ہجویر المعروف داتا گنج بخش کا) کہ’’ وہ تصوف جو پابندِ شریعت نہیں وہ زندیق تو پیدا کرتا ہے صدّیقؓ نہیں۔‘‘ یہی بات نعت گوئی پر بھی پورا اترتی ہے اگر نعت گو خدا ترس،خوش خلق،آداب آشنا اور شریعت کا پابند ہو گا، اس کی نعت گوئی نہ صرف اس کے لئے نافع ہو گی بلکہ معاشرہ بھی اس کی برکت سے فیض یاب ہو گا، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کا پہلا مطالبہ اور تقاضا ان کی اطاعت ہی ہے۔ آپe کا تقلید کوش اور اطاعت رُو رہنا بھی نعت گوکے لیے سعادت کی بات ہے۔ اگر نعت گوئی کا مقصد شہرت و زرطلبی ہے تو نعت نگار یقینا خسارے میں ہے۔
لالۂ صحرائی کی زندگی جس انداز میں بسر ہوئی وہ ہم جیسے نعت کاروں کونصیب ہو جائے تو خوش قسمتی کی بات ہے۔ دینی شعائر کا احترام،اپنی تحریروں میں اسلام کے عقائد اور سر بلندی کے لیے تگ ودواوراپنے قلم کو اسی مقصد اور مشن کے لیے مصروف کار رکھنا ان کے شخصی اوصاف میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے نعت گوئی میں انھی سرمدی مقاصد کو پیش نظر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعت اصلاحی اور مقصدی اندازِ نعت کا رنگ ڈھنگ رکھتی ہے۔ محبتِ رسول صلی ا ﷲ علیہ وسلم تو خیر نعت کی تخلیق میں ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہی ہے اور آپؐ کی ذات سے شیفتگی اور عقیدت کے اظہا میں والہانہ پن نعت کی تاثیر میں اضافے کا موجب ہوتا ہے مگر اس محبت اور حُب کے ساتھ شریعت کی پابندی بھی ضروری ہے۔ نیز نعت کے لیے سیرت رسولؐ سے مضامین کا انتخاب اور موضوعات کی تلاش میں تفکر بھی ضروری ہے ۔شاعرجتنی ریاضت کرتاہے۔ اس کی نعت کا باطن فکری اور علمی طور پراتنہا ہی ثروت مند ہوتا جاتا ہے اور یہ کام حُبّ اطاعت نژاد ہی سے ہوتا ہے۔بحمدللہ لالہ صحرائی کو یہ دولت حاصل تھی۔ انھوں نے اپنی نعت کے فکری بنت (Texture)میں کئی ایسے مضامین شامل کیے ہیں جو ہماری میلاد یہ محافل میں نعتیں پڑھنے والے شاعروں سے مختلف ہیں۔ خصوصاً رسول اکرمؐ کے غزوات کے حوالے سے لالۂ صحرائی نے معاصر نعت کو ایک منفرد جہت دی ہے۔ سادگی ٔ اظہار کے ساتھ رزمیہ شکوہ اور رجزیہ آہنگ نے ان کی نعت گوئی میں ایک جداگانہ شان پیدا کی ہے جو خصوصی مطالعے کی متقاضی ہے۔
’’نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جُستجو‘‘
جناب لالۂ صحرائی نے مبدئِ فیاض سے بلا کا تنوّع اور کمال کا تسلسل پایا تھا۔ اگرچہ آغازِ کار ہی سے انھیں شعر اور اُس کے گوناگوں اسالیب سے دلچسپی تھی۔ مگر ابتداء ً اُن کا قلم نثر میں رواں ہوا۔ اُنھوں نے افسانہ بھی لکھا، خاکہ بھی اور ڈرامہ بھی۔ ترجمہ بھی کیا اور تبصرہ نگاری بھی۔ اس کے علاوہ اُن کے قلم سے مختلف مضامین، رپورتاژ اور سفرنامے بھی نکلے۔ یہ چند عنوان اُن کے تنوّع کی محض ایک جھلک ہیں۔ ورنہ انھوں نے انشائیہ، طنز و مزاح اور پاکستانیات کے میدان میں بھی تحریروں کا ایک ذخیرہ چھوڑا۔
نثر میں اُن کے اشہبِ قلم کی یہ جولانیاں اہل نظر سے داد پاتی رہیں۔ مگر ستر برس کی عمر کے بعد جب انھیں حرمین شریفین میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی تو انھوں نے بار بار یہ دعا مانگی کہ اُنھیں نعت کہنے کی توفیق ارزانی ہو۔ دعا مستجاب ہوئی اور ۱۹۹۱ء کی ایک صبح یکایک نعت کا چشمہ جیسے اُن کے قلب میں جاری ہو گیا۔ ایک ہی دن میں دس نعتیں تک کہنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور آئندہ دو سوا دو برس کے عرصے میں تقریباً ایک ہزار حمدیہ اور پانچ ہزار نعتیہ اشعار ہو گئے۔ آمد کا یہ وفور ۲۰۰۰ء میں اُن کی وفات تک تسلسل سے جاری رہا۔ جو پندرہ مجموعوں کی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔
(ڈاکٹر خورشید رضوی)