معروف ماہرِ تعلیم اور ادیب پروفیسر حزب اللہ آئی سومرو

سندھ کے چھوٹے شہروں، دیہات اور قصبات میں بہت ساری ایسی علمی اور ادبی شخصیات ہیں جنہوں نے علم اور ادب کے فروغ میں نمایاں حصہ لیا ہے۔ ایسی ہی معروف شخصیات میں سے ایک پروفیسر حزب اللہ آئی سومرو بھی ہیں جن کے والدِ گرامی کا نام نامی الٰہی بخش سومرو ہے اور اسی نسبت سے انہوں نے اپنے ادبی نام میں ’’آئی‘‘بھی شامل کررکھا ہے۔ پروفیسر صاحب موصوف تعلقہ اور ضلع خیرپورمیرس کے ایک گوٹھ پھلوائن میں 15 مئی 1966ء کو پیدا ہوئے، البتہ اسکول کے ریکارڈ میں ان کی تاریخ پیدائش 11 مئی 1969ء درج ہے۔ انہوں نے پرائمری تعلیم تو اپنے گوٹھ کے مقامی اسکول ہی سے حاصل کی، البتہ میٹرک 1984ء میں ہائی اسکول پریالو، انٹر (میڈیکل) 1986ء میں سپیریئر سائنس کالج خیرپور، بی اے 1989ء اور ایم اے اسلامک کلچر میں 1991ء میں کیا۔ انہوں نے پی ٹی سی، سی ٹی اور بی ایڈ کے امتحانات بھی علی الترتیب 1989ء، 1992ء اور 1994ء میں پاس کیے، اور پھر ساتھ ہی قرأت، ترجمۂ قرآن، فقہ اور چار کورس بائیبل میں بھی پاس کیے۔ پروفیسر صاحب کثیرالمطالعہ شخصیت کے حامل ہیں اور انہوں نے مختلف موضوعات کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام، عیسائیت اور ہندومت کا بھی اچھا خاصا مطالعہ کررکھا ہے۔ ایک دل چسپ اور قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کے والدِ گرامی جو قبل ازیں صرف مڈل کلاس پاس تھے، انہوں نے مسجد اسکول میں ملازمت ملنے کی ضرورت کے تحت 1984ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا، اور اُسی برس پروفیسر حزب اللہ آئی سومرو نے بھی میٹرک کے امتحان میں کامیابی حاصل کی، یعنی پدر اور پسر نے ایک ہی سال میں میٹرک کیا اور والد نے سی گریڈ، جب کہ بیٹے نے گریڈ بی میں امتحان پاس کیا۔ والدِ گرامی نے ہی اپنے اس صاحبزادے کو قرآن پاک بھی پڑھایا جس کو آگے چل کر علم و ادب کا ایک تابندہ اور درخشندہ ستارہ بننا تھا۔ پروفیسر موصوف کی کامیاب تعلیمی، علمی اور ادبی زندگی کے پس پردہ ان کی شبانہ روز کی جانے والی محنتِ شاقہ کی جھلک صاف اور نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ والد صاحب ہی نے ان کو انگریزی بھی پڑھائی۔ وہ اپنے خاص اساتذہ میں اپنے والدِ گرامی، مشتاق احمد لاکھو، محمد مرید جلبانی، علی احمد شاہ، عبداللہ شیخ، نیاز محمد بلوچ، حافظ حبیب اللہ میمن، مشتاق حسین چنا، غلام رسول میمن، منظور احمد گھانگرو، نثار احمد جونیجو، محمد علی لُند کو آج بھی عقیدت، عزت اور احترام سے یاد کیا کرتے ہیں۔ ان کے خلوص اور جذبے کے بہت معترف ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ میں اپنے دوست وسیم اسحاق کو کچھ ترجمہ قرآن پڑھانے کی وجہ سے استاد بھی سمجھتا ہوں۔ ہم جماعتوں میں حبیب اللہ بلوچ (حبیب ساجد)، محمد احمد مغل (احمد مغل معروف گلو کار)، وسیم اسحاق، ڈاکٹر ظفر جتوئی، مولانا اسد اللہ شیخ (خطیب جامع مسجد صدیق اکبر خیرپور)، ڈاکٹر نریش کمہار، میر ذوالفقار تالپور، گل حسن پھلپھوٹو کے نام اہم ہیں۔

ان کی شادی 1985ء میں اپنی کزن قمر سومرو سے ہوئی۔ چار بیٹے زوہیب اللہ (ایم فل اسکالر)، شعیب اللہ (مرحوم)، حبیب اللہ اور نجیب اللہ پیدا ہوئے، اور ان کی چار ہی بیٹیاں بھی ہیں جن کے نام سدرہ، نفیسہ، عروسہ اور ساجدہ ہیں۔

1990ء میں نقل مکانی کرکے اپنے گائوں سے شہر خیرپور میرس میں آن بسے اور تاحال یہیں رہائش پذیر ہیں۔ 1978ء میں سندھی زبان میں چھپنے والے بچوں کے معروف رسالے ’’گل پُھل‘‘ سے اپنے ادبی سفر کا جو آغاز کیا تھا وہ تاحال جاری و ساری ہے۔ بعدازاں پھر تو بے تحاشا لکھا اور بہت زیادہ اپنے ہر من پسند موضوع پر لکھتے رہے۔ رسالہ ’’گلڑا‘‘ (شکارپور) میں بھی بہت سارے مضامین اور کہانیاں لکھیں۔ مزاحیہ شاعری کا آغاز 1996ء سے کیا۔ ان کے مطابق 1992ء میں سندھی ادبی سنگت (جو سندھی ادبا کے مشترکہ پلیٹ فارم کے بجائے نام نہاد ترقی پسندوں کی ایک تنظیم تھی) میں رکنیت نہ ملنے کی وجہ سے ’’علم دوست ادبی سنگت‘‘ کا قیام عمل میں لائے جس کے موصوف بانی چیئرمین بھی ہیں اور اسی تنظیم کے زیراہتمام مختلف شہروں میں پروگرامات کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا، اور یہ واحد ادبی تنظیم ہے جس میں کسی خاتون کو عہدۂ صدارت ملا، جس کے بعد ہی ’’سندھی ادبی سنگت‘‘ نے بھی اپنی تنظیم میں جوائنٹ سیکرٹری کے لیے خاتون کا عہدہ رکھا جس کا صاف اور واضح مطلب تو بظاہر یہی ہے کہ نام نہاد ترقی پسندوں کی مذکورہ تنظیم میں مرکزی صدارت یا سیکرٹری جنرل کے عہدے کے لیے عورت لائق ہی نہیں ہے۔ ’’سندھی ادبی سنگت‘‘ میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے روزنامہ ’’کاوش‘‘ کے معروف سلسلے ہائیڈ پارک اور دیگر اخبارات، رسائل اور جرائد میں تنقیدی حوالے سے لکھنا شروع کیا۔ یاد رہے کہ تنقید پر 2010ء میں ’’سندھی ادبی سنگت‘‘ کولاب جیئل اور 2011ء میں ’’مہران ادبی سنگت‘‘ شکارپور کی جانب سے بھی انہیں تنقید اور تحقیق پر نمایاں کام کرنے پر ایوارڈز سے نوازا گیا۔ تحقیقی مضمون بزبانِ سندھی ’’سندھ جون ذاتیون‘‘ گلڑا نامی رسالے میں لکھنے سے آغاز کیا۔ اردو میں تحقیق پر مبنی مضمون لکھنے کا آغاز 1985ء میں وفاقی شرعی عدالت کی طرف دیے گئے عنوان ’’توہینِ رسالت کی سزا موت ہے‘‘ پر شرعی حوالہ جات کے ساتھ لکھ کر کیا۔ بعدازاں وینجھلو، نئین زندگی، عبرت میگزین، سندھو میگزین، ڈات میگزین سمیت متعدد رسائل و جرائد میں لاتعداد علمی، ادبی، تعلیمی اور تحقیقی مضامین لکھے۔

بھٹائیؒ اور سچل سر مستؒ کو مذہب بیزار پیش کرنے کی بنا پر محمد موسیٰ بھٹو کی جانب سے رغبت سے تصوف پر بھی لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور سچل،بھٹائی اور بیدل پر مقالے پڑھنا شروع کیے، مضامین اور کتابیں لکھیں۔ 2018ء میں سچل سرمست یادگار کمیٹی سے تصوف پر سچل ایوارڈ ملا جو خالصتاً میرٹ پر ملا، نہ کہ بعض حضرات کو دوستی پر عطا کردہ ایوارڈ کی طرح سے ملا۔

1987ء میں مسجد اسکول میں بطور استاد مقرر ہوئے۔ ٹھیک 27 برس کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کی جانب سے منعقدہ لیکچرار کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد 2015ء میں اسلامیات کے لیکچرار کے طور پر گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوکری میں تعیناتی ہوئی، بعدازاں گورنمنٹ سچل سرمست ڈگری کالج رانی پور میں تبادلہ ہوا، اور اب سپیریئر سائنس کالج خیرپور میں پڑھا رہے ہیں۔2006ء میں ضلعی حکومت خیرپور کی جانب سے انہیں ’’بیسٹ ٹیچر ایوارڈ‘‘، اور 2020ء میں المنظر ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے تعلیمی ایوارڈ بھی عطا ہوا، اس کے علاوہ شام کے نجی اسکولوں اور کالجوں میں طلبہ کو آسان سندھی، سندھی اور آسان اردو پڑھاتے رہے۔ 2015ء میں اے ایس پی سنگھار ملک کی خیرپور میں واقع سی ایس ایس کی اکیڈمی میں بھی امیدواروں کو اسلامیات پڑھائی۔ ان کے ہزاروں شاگرد (طلبہ و طالبات) ہیں جن میں سے متعدد اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں۔ قابلِ ذکر یہ ہیں: ڈاکٹر ساجد سیال، عشرت مجاہد کھوکھر، حنا ابڑو، ثاقب ذوالفقار ڈھوت، کامران پھپلپوٹو، علی رضا لاشاری، زبیر پیرزادہ، شہباز پیرزادہ، سجاد سومرو، نادر سومرو ایڈووکیٹ، شہاب ڈھوت ایڈووکیٹ۔ اسی طرح بہت سارے ادبی شاگرد بھی ہیں جن میں انور پردیسی، صفی اللہ آئی سومرو، خادم کلہوڑو، کفایت گل، محمد طارق مہیسر ایڈووکیٹ، عابد سومرو ایڈووکیٹ، عبدالخالق جلبانی، زوہیب اللہ سومرو، عدنان میمن، عارف ضیا، علی مخفی، زبیر سومرو، حسین جاگیرانی، شاہ محمد لاشاری، عدنان منگی اور دوسرے شامل ہیں۔

انہوں نے بہت سارے ادبی، سماجی، تعلیمی اور مذہبی رسالے بھی شائع کیے مثلاً روشنی، ڈات، ارم، نقاد، علم دوست، سومرا، استاد، روشنائی، جستجو، الفاروق سووینیر، شعور، کوک کے علاوہ فاروق اعظم کمیٹی کے رسالے عظمت ِصحابہؓ، ڈگری کالج ڈوکری کے میگزین لبِ دریا کے ایڈیٹر یا مرتب، سچل سرمست ڈگری کالج رانی پور کے تعلیمی خبر نامے ’’روشنی‘‘ اور کالج میگزین ’’سچل میگزین‘‘ میں بھی رہے اور اس وقت سپیریئر کالج کے خبرنامے ’’سپیریئر نامہ‘‘ کے ایڈیٹر بھی ہیں۔ ان کی تاحال چھوٹی بڑی 41 کتابیںبھی شائع ہوچکی ہیں جن میں سے چند قابلِ ذکر یہ ہیں: بزبانِ سندھی… ڈندنہ چھک عرف کھلٹ جو خزانو، (مزاحیہ شاعری کی ترتیب) شناختی کارڈ میں مذہب جو خانو، مخدوم شاہ عثمان قریشی، سچل جو فکر، ماٹھ کیان تہ فشرک، سچل جی گھڑولی وغیرہ۔ دس کتب کا مواد موجود ہے اور وہ اشاعت کی منتظر ہیں۔ یہ مذہب، فلسفہ، مزاح، تنقید، تاریخ وغیرہ کے موضًوعات پر ہیں۔ تنقید نگاری کی وجہ سے بہت سارے تلخ تجربات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف پروپیگنڈہ کیا گیا بلکہ ان کا سوشل بائیکاٹ بھی ہوا۔ عہدوں سے محروم رکھا گیا اور پبلشرز نے کتابیں شائع کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم ان کا علمی، ادبی اور تعلیمی سفر بدستور جاری و ساری ہے۔

پروفیسر موصوف کا قلم نظریۂ پاکستان اور دینِ اسلام کے مخالفین کے لیے گویا کہ ایک شمشیر بے نیام کی مانند کار فرما رہتا ہے۔ بے حد خوش اخلاق، مہمان نواز، ہمدرد طبع اور مخلص واقع ہوئے ہیں۔ اپنے شاگردوں، رشتے داروں اور دوست احباب میں بے حد ہر دل عزیز ہیں۔

پسندیدہ کتاب: قرآن مجید۔
پسندیدہ شخصیت: حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر فاروقؓ۔
پسندیدہ جرنیل: محمد بن قاسمؒ
پسندیدہ شاعر: شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ
پسندیدہ مصنف: ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ۔
پسندیدہ رنگ: سفید
پسندیدہ پھول: گلاب۔
پسندیدہ لباس: شلوار قمیص اور سندھی ٹوپی۔
پسندیدہ پھل : آم اور کھجور۔
پسندیدہ خوراک: آم، بھت (سفید ابلے چاول) اور دودھ یا بھت اور لسی۔
پیغام: وقت کا بہتر استعمال وقت پر اپنے امور سرانجام دینے میں ہے۔ سادہ زندگی میں امن و سکون کا راز مضمر ہے۔ تصنع، تکلف اور بناوٹ کے حامل کو تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔