بھارت کے ممتاز جریدے ”انڈیا ٹو ڈے“ کی رپورٹ
آج کی دنیا میں زندگی کے تمام ہی معاملات سوشل میڈیا کی نذر ہوکر رہ گئے ہیں۔ زندگی کا کون سا پہلو یا گوشہ ہے جو سوشل میڈیا کی دسترس میں نہیں؟ ٹیکنالوجی کے محاذ پر غیر معمولی رفتار سے جاری رہنے والی پیش رفت نے معاملات کو سُلجھایا بھی ہے اور اُلجھایا بھی ہے۔
ہم ابھی کل تک جن معاملات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ رونما ہورہے ہیں اور ہماری زندگی پر اس حد تک اثرانداز ہورہے ہیں کہ ہم کسی بھی طور چشم پوشی نہیں کرسکتے۔
فی زمانہ ہر معاملہ گھوم پھر کر ہٹس، لائکس، سبسکرائبنگ اور فالوئنگ کے چوراہے پر آجاتا ہے۔ لوگ ہر معاملے کو، ہر چیز کو، زندگی کے ہر پہلو کو صرف اور صرف اِس بات سے جانچنے اور تولنے لگے ہیں کہ سوشل میڈیا میں وہ کس حد تک وائرل ہوا ہے، لوگوں کو کس حد تک بھایا ہے۔ صرف اور صرف اس بات کی اہمیت رہ گئی ہے کہ کوئی چیز ٹرینڈ کررہی ہے یا نہیں۔ کوئی بھی چیز کتنی ہی معقول ہو، اگر لوگوں نے اُسے قبول نہیں کیا، اُس کا اثر قبول نہیں کیا تو اُسے بے وقعت، بے توقیر گردانا جاتا ہے۔
کسی بھی ویب سائٹ کے لیے سب سے بڑی چیز ہے زیادہ سے زیادہ ہٹس اور لائکس کا آنا۔ ہر اُس ویب سائٹ کو کامیاب گردانا جاتا ہے جس کے سبسکرائبرز اور فالوورز کی تعداد زیادہ ہو۔ ہر وہ پوسٹ کامیاب ہے جس کے ہٹس ہزاروں یا لاکھوں میں ہوں۔ کوئی بھی چیز چاہے جتنی معقول ہو، اگر وہ ہٹس نہ لا پائے، لائکس کی منزل سے دور رہے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ قابلِ قبول نہیں۔
ایسے میں یہ بات زیادہ حیرت انگیز نہیں سمجھی جانی چاہیے کہ لوگ کسی نہ کسی طور مارکیٹ کو ”کیپچر“ کرنے کے چکر میں کسی بھی حد سے گزرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سیلیبرٹیز کی حماقتوں کو نمایاں کرکے بیان کرنا اب ٹرینڈ کا درجہ رکھتا ہے۔ شوبز اور کھیلوں کی دنیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات ہی اب معیار ٹھیری ہیں کیونکہ اُن سے متعلق خبریں بھرپور ذوق و شوق اور جوش و خروش سے پڑھی جاتی ہیں۔ کوئی اداکارہ اپنی حریف اداکارہ کے بارے میں بے ڈھنگی بات کہہ دے تو خبر بنتی ہے۔ کھیلوں کی دنیا سے متعلق خبریں کھیل کے میدان کی کارکردگی سے زیادہ اندرونی سیاست کو پیش کررہی ہوتی ہیں۔ کھیلوں میں اب کھیل کم اور تنازعات زیادہ ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ویب سائٹس چلانے والے ادارے، یوٹیوبرز اور بلاگرز، وِلاگرز بھی کھیل سے زیادہ کھلواڑ کو اہمیت دیتے ہیں۔ عام آدمی کو یعنی سوشل میڈیا کے صارفین کو بے ڈھنگے، لایعنی اور غیر منطقی معاملات میں اُلجھادیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین اب مارکیٹ بن چکے ہیں۔ اس مارکیٹ سے اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے لیے لوگ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی کسی جواز کے بغیر اُن ممالک کے بارے میں ستائشی انداز سے لکھے جن سے ہماری کسی بھی طور گاڑھی نہیں چھنتی۔ پرنٹ میڈیا کے زمانے میں اس بات کو کسی بھی طور قبول نہیں کیا جاتا تھا کہ کوئی امریکہ اور یورپ کو بھی بلا جواز طور پر سراہے۔ اور بھارت؟ اُس کے بارے میں تو کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں ہوسکتی تھی کہ کوئی کُھل کر سراہے اور وہ بھی کسی ٹھوس جواز کے بغیر۔ یہ سوشل میڈیا کے زمانے کا کمال ہے کہ اب بھارت کو بھی کُھل کر سراہا جارہا ہے۔ کیوں؟ صرف مارکیٹ میں اپنا شیئر حاصل کرنے کے لیے۔
بھارت کے معروف جریدے ”انڈیا ٹوڈے“ نے گزشتہ دنوں ایک خصوصی رپورٹ شائع کی جس میں اُس نے بتایا کہ پاکستان کے بہت سے یوٹیوبرز اور وِلاگرز بھارت کی ستائش پر مبنی وڈیوز اپ لوڈ کررہے ہیں۔
کوئی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کی پیش رفت کو سراہنے پر تُلا ہوا ہے تو کوئی بھارتی کرکٹ ٹیم کے گُن گارہا ہے۔ کسی کو بھارتی معاشرت اچھی لگ رہی ہے اور کسی کو بھارتی سیاست میں بہت کچھ دکھائی دے رہا ہے۔ بھارت نے حال ہی میں خلائی تحقیق کے پروگرام کے حوالے سے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اُنہیں پاکستانی یوٹیوبرز اور وِلاگرز جی بھر کے سراہتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انڈیا ٹوڈے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت کے گُن گانا حیرت کی بات نہیں کیونکہ پاکستانی یوٹیوبرز اور وِلاگرز کو بھارتی سوشل میڈیا مارکیٹ میں سرایت کرنا ہے۔ بھارت کو سراہے بغیر وہ بھلا کیونکر بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی آنکھوں کے تارے بن سکتے ہیں؟
حال ہی میں منعقد کیے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کی کارکردگی اور بھارتی کھلاڑیوں کی ”انسانیت“ کی ستائش پر مبنی وڈیوز بھی پاکستانی یوٹیوبرز اور وِلاگرز نے جی بھر کے تیار کی ہیں۔ یہ وڈیوز بھارت میں بھی بہت بڑے پیمانے پر وائرل ہوئی ہیں۔
ایک پاکستانی یوٹیوبر نے اپنی وڈیو میں چند کرکٹ شائقین کا یہ بیان شامل کیا کہ بھارت کے بارے میں یہ تصور عام تھا کہ وہ شاید امریکہ سے ہار جائے اور پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرے۔ ایسا نہ ہوا اور بھارت نے امریکہ کو شکست دے دی۔ پاکستانی یوٹیوبر نے اِسے بھارت کا ”بڑپّن“ قرار دیا۔
اس حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا کہ یہ بھارت ہی تھا جس نے 2019ء کے (50 اوور والے) کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کو ایونٹ سے باہر کرنے کے لیے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کو مضبوط کیا تھا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم نے کئی مواقع پر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں اور اِس پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کی۔ 2019ء کے ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم نے جو کچھ کیا تھا اس پر تو خود بھارت کے باضمیر مبصرین اور تجزیہ کار بھی چیخ پڑے تھے اور کرکٹ کے بہت سے بھارتی شائقین نے بھی سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں بھارتی کرکٹ ٹیم کی عبرت ناک شکست کو پاکستان سے روا رکھی جانے والی کمینگی پر نازل ہونے والا عذاب قرار دیا تھا۔
پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو تھوڑا سا ”پُش“ کیے جانے پر امریکہ، یورپ اور بھارت کے گُن گانے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں کرتے۔ پاکستان کا خیال رکھنے میں چین سب سے آگے ہے۔ ٹھیک ہے، اُس کے اسٹرے ٹیجک مفادات بھی ہیں، تاہم اس کے باوجود وہ پاکستان کے لیے آؤٹ آف دی وے جاکر بہت کچھ کرتا ہے۔ عام پاکستانی چین کو سراہنے کے معاملے میں خِست کا مظاہرہ کرتا ہے اور امریکہ و یورپ سمیت ہر اُس ملک کو سراہتا ہے جو پاکستان کا بیڑا غرق کرنے کے درپے رہتا ہو۔
پاکستان کے بہت سے یوٹیوبرز نے بھارت کے گُن گاکر لاکھوں ویوز کمائے ہیں۔ یوٹیوبر شیلا خان نے بھارت کے حق میں تیار کردہ ایک وڈیو کو اپنے یوٹیوب چینل نائلہ پاکستانی ری ایکشن پر اپ لوڈ کیا اور ایک ہی دن میں تین لاکھ ویوز کے مزے لوٹے۔
انڈیا ٹوڈے لکھتا ہے کہ بھارتی باشندوں کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ غیر بھارتی انہیں سراہیں، اُن کی کامیابیوں کے خوب گُن گائیں، مگر جب کوئی پاکستانی اُنہیں سراہتا ہے تو اُن کی خوشی قابلِ دید ہوتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان جس نوعیت کے تعلقات رہے ہیں اُس کی روشنی میں بھارت کو سراہنے والے پاکستانی الگ ہی دکھائی دیتے ہیں اور اُنہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق پاکستان میں بہت سے ذہین لوگوں نے یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ اگر مال بنانا ہے تو بھارت کی ستائش میں زمین آسمان کے قلابے ملاؤ اور جہاں تک ہوسکے وڈیوز اور وِلاگ بناکر اپ لوڈ کرتے رہو۔ بھارت کے حق میں تیار کی جانے والی وڈیوز، وِلاگز اور ویب سائٹ پوسٹس راتوں رات لاکھوں ویوز کی حامل ٹھیرتی ہیں۔ ایسے پاکستانی یوٹیوبرز کی ایک کھیپ تیار ہوچکی ہے جو بھارت کے گُن گاکر اپنی وڈیوز اور وِلاگز کو بھرپور مقبولیت سے ہم کنار کروا رہے ہیں، اور یوں اُن کے لیے غیر معمولی مالی منفعت کی راہ بھی ہموار ہورہی ہے۔
انڈیا ٹوڈے لکھتا ہے کہ یو ٹیوب پر ’’پاکستانی ری ایکشن آن انڈیا‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ 5500 یوٹیوب چینلز پر 84 ہزار سے زائد وڈیوز ہیں۔ نومبر 2023ء میں انڈیا ٹوڈے نے انٹرنیٹ پر جو وڈیو چینل تلاش کیے تھے اُن میں اب ایک ہزار کا اضافہ ہوچکا ہے۔ نومبر سے اب تک اِسی ہیش ٹٰیگ کے ساتھ پانچ ہزار سے زائد وڈیوز اپ لوڈ کی گئی ہیں۔
بھارت سے متعلق اور بھی کئی ہیش ٹیگ ہیں جن کے تحت وڈیوز اپ لوڈ کی جارہی ہیں۔ یوٹیوب پر شارٹ وڈیوز تلاش کرنے نکلیے تو بھارت سے متعلق ہیش ٹیگ لکھنے پر پاکستانی یوٹیوبرز کی تیار کردہ بہت سی وڈیوز سامنے آنے لگتی ہیں۔
پاکستانی یوٹیوبرز نے پاکستان میں بھارت کو سراہنے کی ایک باضابطہ تحریک شروع کردی ہے۔ یوٹیوب کا معاملہ یہ ہے کہ جو دِکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر پاکستان اور انڈیا کے بارے میں چند کی ورڈز لکھ کر دیکھیے، چند لمحات میں ہزاروں وڈیوز دکھائی دیں گی جو پاکستان میں تیار کی گئی ہیں اور اُن میں بھارت کی توصیف و ستائش میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ پاکستانی ٹی وی ڈرامے بھی اس معاملے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکہ کے خلاف بھارتی ٹیم کی فتح کے فوراً بعد بھارت کو سراہنے والی پاکستانی وڈیوز کا سیلاب سا آگیا۔
ایسی وڈیوز کی بھی کمی نہیں جن میں بھارت اور پاکستان کا موازنہ کرکے بھارت کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کی طرف سے بھارت کے حق میں دیے جانے والے بیانات کی بنیاد پر بھی وڈیوز اور میمز کی بھرمار ہے۔
بھارت کے بنیادی ڈھانچے، شاپنگ مالز، فیکٹریز، کال سینٹرز، بڑے شہروں کے پُررونق علاقوں، سڑکوں، تقریبات، شوبز، اسپورٹس، تاریخی مقامات اور دیگر بہت سے آئٹمز کی وڈیوز پاکستانی یوٹیوب چینلز پر بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
بھارت کے شہروں کے بارے میں وڈیوز اپ لوڈ کرکے لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ اندازہ لگائیں کہ یہ وڈیوز کہاں کی ہیں۔ چند بھارتی شہروں کے پُررونق اور ہائی فائی علاقوں کی وڈیوز اپ لوڈ کرکے لوگوں کو حیران و پریشان کیا جاتا ہے اور پھر بتایا جاتا ہے کہ یہ یورپ ہے نہ گلف ریجن، بلکہ یہ تو ہمارا پڑوسی بھارت ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 11 کروڑ 10 لاکھ ہے۔ جنوری 2024ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ اب تک ٓآبادی کے 45 فیصد حصے میں سرایت کرسکا ہے۔
بھارت میں انٹرنیٹ کی مارکیٹ پاکستان کی انٹرنیٹ مارکیٹ سے کم از کم سات گنا یعنی 700 فیصد بڑی ہے۔ بھارت میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 75 کروڑ 15 لاکھ ہے۔ جنوری 2024ء تک بھارت کی آبادی میں انٹرنیٹ کے سرایت کرنے کا تناسب 52 فیصد سے زیادہ تھا۔ امریکہ، برطانیہ، خلیج کے عرب ممالک، یورپ اور آسٹریلیا میں آباد بھارتی باشندے اِن کے علاوہ ہیں۔
ایک امریکی سوشل میڈیا تجزیہ کار ویب سائٹ سوشل بلیڈ کے مطابق پاکستان کی صحافی ثنا امجد کی میزبانی میں قائم ایک یوٹیوب چینل کے سبسکرائبرز کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ ہے اور وہ ماہانہ 17 ہزار تا 26 ہزار ڈالر کماتی ہے، جبکہ ایک عام پاکستانی کی ماہانہ آمدنی زیادہ سے زیادہ 300 ڈالر تک ہے۔
پاکستانی یوٹیوبرز کی طرف سے بھارت کے بارے میں ستائشی وڈیوز کی اپ لوڈنگ ایسا معاملہ ہے جس پر بھارت میں بھی اب بحث ہونے لگی ہے۔ بہت سے ماہرین اس ٹرینڈ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی یوٹیوبرز بھارت کے گُن گاکر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
یہ سب کچھ بہت عجیب ہے۔ بھارت کے بارے میں ہمارے ہاں زیادہ سے زیادہ جاننے کا تجسس ہے جبکہ بھارت میں بھی لوگ پاکستان کے بارے میں پڑھنا چاہتے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محض کلکز کے چکر میں سبھی کچھ دائو پر لگادیا جائے۔ یہ تو متعلقہ اداروں کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ بھارت کے گُن گاکر اپنی جیب بھرنے کے چکر میں نئی نسل میں بھارت کے حوالے سے مرعوبیت کی ذہنیت کیوں پیدا کررہے ہیں۔