تباہ حال معیشت کی راکھ پرآزادکشمیر کا ایک اور بجٹ برائے بجٹ

آزادکشمیر کا مالی سال2024-25ء کے لیے 264.033 بلین کا بجٹ قانون ساز اسمبلی سے منظور کرلیا گیا۔ اِس بار حکومتی حلقوں اور ان کے صعوبت کاروں یا سہولت کاروں کی پوری کوشش تھی کہ بجٹ کسی قسم کی بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا جائے کیونکہ جب بحث شروع ہوتی ہے تو بات سے بات نکل آتی ہے اور مقطع میں’’سخن گسترانہ‘‘ بات کا آجانا بھی یقینی ہوتا ہے۔ طویل بحث اور تقریروں کے باعث ماحول گر م ہوجاتا ہے اور اس گرمیِ بازار میں دونوں طرف سے سچ بھی مصلحت اور احتیاط کے پیمانوں سے چھلک پڑتا ہے۔ حکومتی حلقوں کی اس کوشش کے باوجود کچھ راہنما جن میں سابق وزیراعظم راجا فاروق حیدر خان بھی شامل تھے، بجٹ پر بحث کا دروازہ کھولنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ حکومت اپنی غزل سنا کر جوابِ آں غزل سننے سے کنی کترا جائے۔ یہ کوشش آخر کامیاب ہوگئی اور بجٹ پر بحث کا دروازہ کھل گیا، اور حکومت کے اتحادی راہنمائوں کو بھرپور بحث کا موقع مل گیا، یہ الگ بات کہ کچھ راہنمائوں نے بحث سے پراسرار انداز میں اجتناب برتا۔ جب بحث چل ہی پڑی تو پھر وزیراعظم انوارالحق کو بھی بھرپور انداز میں اپنی غزل سنانا پڑی۔ انہوں نے آزادکشمیر میں احتساب کی باتیں کرکے کچھ سیاسی راہنمائوں کو بین السطور پیغام دے کر اپنے جامے میں رہنے کا اشارہ دیا۔ بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی ایک بار پھر وزیراعظم انوارالحق کے چل چلائو کی باتیں شروع ہوگئیں۔

وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے بجٹ اسمبلی میں پیش کیا۔ بجٹ میں جاریہ منصوبوں کے لیے 62 فیصد، جبکہ نئے منصوبہ جات کے لیے 38 فیصد مختص کیے گئے ہیں۔ تنخواہوں میں گریڈ ایک تا سولہ تک پچیس فیصد، جبکہ گریڈ سترہ سے بائیس تک بیس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

حالیہ چند برسوں میں آزادکشمیر میں تین وزرائے اعظم تبدیل ہوچکے ہیں اور ہر وزیراعظم اپنا اپنا بجٹ پیش کرچکا ہے۔ یہ وزیراعظم چودھری انوارالحق حکومت کا بجٹ ہے جس میں ان کی سوچ وفکر اور ویژن کو سمونے کی کوشش نمایاں نظر آتی ہے۔ بجٹ کسی بھی حکومت کی آمدن اور خرچ کا تخمینہ ہوتا ہے۔ حکومت بھی ایک گھر کی طرح اپنے وسائل کو سامنے رکھ کر سال بھر کا بجٹ تیار کرتی ہے۔ یہ اندازہ کبھی غلط بھی ثابت ہوتا ہے جس کی وجہ سے حکومتوں کو منی بجٹ لانا اور قرض لینا پڑتا ہے مگر پھر بھی کسی حد تک حکومت کے اخراجات اور آمدن کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوجاتا ہے۔ یوں تو وفاقی بجٹ بھی اب الفاظ کا گورکھ دھندا ہی ہوتا ہے، مگر اس کے باوجود لوگوں کی نظریں کسی حد تک اس بجٹ پر مرکوز رہتی ہیں۔ مہنگائی، تنخواہوں وغیرہ کے معاملات کے لیے لوگ وفاقی بجٹ کی طرف متجسسانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں، جبکہ آزادکشمیر کے بجٹ کے ساتھ تو عام آدمی کا کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ عام آدمی کی زندگی پر مثبت یا منفی انداز میں اثرانداز ہی نہیں ہوتا۔ یہ بجٹ محکمہ مالیات کی بیوروکریسی تیار کرتی ہے اور وزیر خزانہ اسمبلی میں ایک طویل کتاب پڑھ کر بجٹ خطاب فرماتے ہیں۔ خطاب کا پہلا حصہ تحریکِ آزادیِ کشمیر کو اجاگر کرنے کے دعووں سے مزین ہوتا ہے، دوسرے حصے میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کی تفصیل اور وسائل کی مختلف محکموں میں تقسیم کا حساب کتاب ہوتا ہے۔ اِس بار کی بجٹ تقریر کی خاص بات یہ ہے کہ پہلی بار یہ تقریر مقبوضہ کشمیر اور تحریکِ آزادی کے ذکر سے خالی اور عاری تھی۔ شاید آزادکشمیر کا نوجوان اب ان دعووں کو سننے میں دلچسپی نہیں رکھتا، اسی لیے اس روایت کو پہلی بار بدل دیا گیا، جس پر یہ محاورہ صادق آتا ہے کہ ’’گھر میں نہیں دانے، اماں چلیں بھنانے‘‘۔

آزادکشمیر کی اپنی حالت یہ ہے کہ اس کی جامعات فنڈز کی کمی کے باعث دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑی ہیں۔ سیاسی بھرتیوں اور اقرباء پروری نے ان جامعات کو ملازمین کے ٹائی ٹینک بنا دیا ہے مگر ان کو چلانے کے لیے فنڈز موجود نہیں، کچھ یہی حالات میڈیکل کالجوں کے ہیں۔ آزادکشمیر کو قدرت نے بے پناہ وسائل عطا کررکھے ہیں۔ یہاں کا بجٹ کارآمد صرف اسی صورت میں کہلا سکتا ہے جب آزادکشمیر میں پن بجلی کے منصوبوں بالخصوص منگلا ڈیم اور نیلم جہلم جیسے منصوبوں کی رائلٹی اس بجٹ کا حصہ ہو۔ آزادکشمیر سے لوٹی جانے والی معدنیات اس بجٹ کا حصہ ہو۔ ٹیکسوں کا دائرہ وسیع ہو۔ آزادکشمیر میں کوئی صنعت نہیں،کاروبار نہیں، یہاں سب سے بڑی صنعت سرکاری ملازمت ہے۔ سرکاری ملازمین کی فوجِ ظفر موج قومی خزانے پر بوجھ ہی ہوتی ہے۔ نئے تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں تو اس کا مقصد تعلیم کو عام کرنا نہیں بلکہ بھانجوں، بھتیجوں اور اس کے تلچھٹ پر پارٹی ورکروں کو نوکریاں دینا ہوتا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام سے یہی مقاصد حاصل کیے۔ یہ غیر پیداواری شعبہ ہے جس میں بھرتی ہونے والے معمولی سا ٹیکس دے کر تاحیات بھاری معاوضے وصول کرتے ہیں۔ ہر حکومت اس ٹائی ٹینک میں اضافہ ہی کرتی ہے۔ وزیراعظم، صدر، وزراء اور بیوروکریٹ اپنے بھانجوں، بھتیجوں کو دھڑا دھڑ خلافِ میرٹ بھرتی کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومتیں آزادکشمیر کے وسائل میں اضافے کی تدابیر اختیار کریں۔ اس ریاست کو پیراسائیٹ اور بوجھ بنانے کے بجائے ہائیڈل کے شعبے میں خودکفالت کی راہ اپنائیں۔ معدنیات، سیاحت اور دوسرے شعبوں میں انقلابی اقدامات کریں۔ سیاحت کے شعبے میں پوٹینشل ہونے کے باوجود کوئی حکومت تاحال اس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکی۔ ایک طرف بنجوسہ، تولی پیر، نیلم، لیپا جیسے سیاحتی مراکز کی طرف ہر سال ملک بھر سے سیاحوں کی آمد بڑھتی جارہی ہے، تو دوسری طرف حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولتے جا رہے ہیں۔ حکومت سیاحوں کے لیے ڈھنگ کے گیسٹ ہائوس اور ہوٹل تعمیر نہیں کرسکتی۔ اس شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر ہی آگے آرہا ہے، مگر پرائیویٹ سیکٹر کو سیاحوں کو سہولتیں دینے سے زیادہ ان کی جیبوں میں دلچسپی ہوتی ہے۔

جب تک آزادکشمیر کی حکومتیں بیوروکریسی کے بجٹ سے دامن چھڑا کر اپنے وسائل میں اضافہ کرتے ہوئے بجٹ تیار نہیں کرتیں اور اس کام میں بیرونِ ملک بسنے والے کشمیریوں کو مالی اور ذہنی طور شریک نہیں کرتیں اُس وقت تک یہ بجٹ محض رسم وروایت ہی رہے گا۔ آزادکشمیر کا وزیر خزانہ بجٹ تقریر پڑھنے کے جرم کا سزاوار ہی رہے گا۔