جدید نفسیات انسان کو جبلتوں سے آگے پہچاننے پر آمادہ نظر نہیں آتی
فی زمانہ ’’نفسیات‘‘ کا لفظ اتنا عام ہوگیا ہے کہ کتوں، بلیوں کے لیے بھی استعمال ہونے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اقسام کی کتابوں میں ’’کتوں کی نفسیات‘‘ اور ’’بلیوں کی نفسیات‘‘ جیسی اصطلاحیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اس سے اور کچھ نہیں تو اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ نفسیات کا تصور کتنا عام ہوگیا ہے اور اس کے تحت انسانوں اور حیوانوں میں کس قدر ہم آہنگی پیدا ہوچلی ہے۔
جدید نفسیات اس سلسلے میں بیک وقت دو متضاد آراء کی حامل ہے۔ بعض ماہرین اس رائے کے قائل ہیں کہ حیوانات نفسیات کے حامل ہوتے ہیں، گو انسانوں کے مقابلے پر یہ نفسیات انتہائی سرسری اور محدود نوعیت کی حامل ہوتی ہے۔ البتہ کچھ ماہر، حیوانات میں نفسیات کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ حیوانات جبلتوں اور ان کے باہمی نظام پر انحصار کرتے ہیں جو بڑا مشینی قسم کا ہوتا ہے، لگا بندھا اور تغیر سے ناآشنا۔ ان دونوں آراء کی حمایت اور مخالفت میں بہت سی مثالیں اور تجزیے پیش کیے گئے ہیں، لیکن بہرحال نفسیات کے تمام مکاتبِ فکر اس بات پر متفق ہیں کہ انسان بہرحال نفسیات کا حامل ہوتا ہے۔ لیکن کیا واقعتاً ایسا ہی ہے؟ ظاہراً اس سوال کا جواب یہی ہے کہ بے شک تمام انسان ایک نفسیات کے حامل ہوتے ہیں، لیکن پی ڈی اوسپنسکی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ نفسیات ایک حقیقت ہے لیکن تمام انسان نفسیات کے حامل نہیں ہوتے۔
اوسپنسکی کا یہ فقرہ بہت چونکانے والا ہے لیکن یہ بہت مبہم اور مجرد بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنتی کہ تمام انسان نفسیات کے حامل نہیں ہوتے، بلکہ اس بیان کی وضاحت و صداقت بھی ناگزیر ہے۔ ہم نے اوسپنسکی کی تین چار تصانیف دیکھی ہیں، اس نے کہیں بھی اس فقرے کی وضاحت نہیں کی۔ البتہ اوسپنسکی نے انسان، تصورِ انسان اور انسان کی اقسام کے حوالے سے جو بحثیں کی ہیں ان کی مدد سے کسی نہ کسی حد تک اس اہم فقرے کی وضاحت ہوسکتی ہے۔
اوسپنسکی کا کہنا ہے کہ انسان بنیادی طور پر ایک مشین ہے اور اکثر انسان زندگی بھر مشین ہی رہتے ہیں۔ ان کی زندگی میں انا، ارادے اورآگہی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ تو کیا انسان کا مقدر یہی ہے کہ وہ پوری زندگی ایک مشین کی حیثیت سے گزار دے؟ اوسپنسکی اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان اپنی مشینی حیثیت سے نجات پا سکتا ہے لیکن صرف شعور کی مدد سے۔ اوسپنسکی کے نزدیک انسان کی تبدیلی کا پہلا ناگزیر تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی مشینی حیثیت کو تسلیم کرے، کیوں کہ یہی سب سے مشکل کام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خود کو ایک صاحبِ ارادہ حقیقت تصور کرتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔
اوسپنسکی نے درجوں کے اعتبار سے انسانوں کی سات اقسام بیان کی ہیں۔ اس کے خیال میں انسانوں کی اکثریت انسان نمبر ایک، دو اور تین پر مشتمل ہے۔ البتہ ان تینوں میں فرق یہ ہے کہ انسان نمبر ایک پر جبلتوں کا غلبہ ہوتا ہے، انسان نمبر دو پر جذبات حاوی ہوتے ہیں، اور انسان نمبر تین ذہن کے زیراثر ہوتا ہے۔ اوسپنسکی کی یہ درجہ بندی کسی قسم کی سماجیات، اقتصادیات یا کسی سماجی یا معاشی حیثیت کے مطابق نہیں، اور اس کا عام آدمی کا تصور کسی بھی اعتبار سے سیاسی یا جمہوری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خیال میں دنیا کے اکثر عبقری یا جینئس افراد بھی عام لوگ ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر پر ذہن کا غلبہ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اوسپنسکی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان نمبر ایک اور تین خواہ ان میں عبقری بھی کیوں نہ شامل ہوں ، دراصل مشینی انسان ہوتے ہیں۔
اوسپنسکی کا اصرار ہے کہ انسان نمبر چار حقیقی معنوں میں ایک نیا انسان ہوتا ہے۔ اسے نہ صرف یہ کہ اپنے مشینی ہونے کا شعور حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ مشین پن سے نجات کے حصول کے لیے بھی جدوجہد شروع کرتا ہے۔ لیکن یہ انسان کے طویل سفر کی محض ابتدا ہوتی ہے اور اسے انسان نمبر پانچ ، چھ اور سات بننے کے لیے بڑی سخت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اوسپنسکی انسان نمبر ایک، دو اور تین کے علم کو موضوعی یا Subjective قرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ انسان کے معروضی علم کی ابتدا انسان نمبر چار کی سطح سے ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ انسان کی نفسیات کی تخلیق کا آغاز بھی اس مرحلے سے ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نفسیات کی تخلیق کا مفہوم کیا ہے؟ اس سلسلے میں اوسپنسکی نے کوئی وضاحت نہیں کی۔
تاہم اُس کی فکر کے مذکورہ نکات پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ نفسیات شعور اور آگہی کا حصہ ہے۔ ایسا حصہ جو انسانی وجود کے تمام یا بیشتر گوشوں پر محیط ہوتا ہے اور اسی حیثیت میں ان کے درمیان رابطے کا فریضہ ادا کرتا ہے۔ اس اعتبار سے نفسیات ایک تخلیقی قوت بن کر سامنے آتی ہے۔
اس تشریح سے یہ نتیجہ ازخود برآمد ہوجاتا ہے کہ اوسپنسکی کے نزدیک شعور اور نفسیات ایک ایسی قوت کی حیثیت رکھتے ہیں جو انسان کے مشینی یا میکانیکی سانچے کی ضد ہیں اور اس حیثیت میں انسان کو ایک نیا انسان بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تشریح اوسپنسکی کی تشریح نہیں ہے لیکن انسان نمبر ایک، دو اور تین کے بارے میں اوسپنسکی نے جو کچھ کہا ہے اسے پیش نظر رکھا جائے تو یہ تشریح بڑی حد تک قرین قیاس نظر آتی ہے۔ اوسپنسکی نے انسان نمبر ایک کو جبلتوں کا اسیر قرار دیا ہے اور انسان نمبر تین کو ذہن کے زیر اثر دکھایا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے، جبلتوں اور ذہن کے زیراثر افراد میں دوسرے عناصر نہیں ہوتے۔ یعنی جبلتوں کے زیراثر شخص میں جذبات اور ذہن نہیں ہوتا، یا ذہنی قوت کے تابع شخص میں جبلتیں اور جذبات نہیں ہوتے۔ بے شک ایسا نہیں ہوتا۔ اوسپنسکی کا مفہوم یہاں صرف یہ ہے کہ ان تین اقسام کے انسانوں پر کسی ایک قوت کا غلبہ ہوتا ہے اور یہی قوت ان کا اصل جوہر ہوتی ہے اور اس جوہر کی آنکھ سے وہ سب کو دیکھتے اور نتائج مرتب کرتے ہیں۔
یہ صورتِ حال انسان کے یک رخے پن کا ثبوت ہے، اور اس یک رخے پن سے انسان کی مشینی نوعیت یا میکانیکی سانچہ وجود میں آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان نمبر چار میں یہ سانچہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کے باعث اس کا داخلی ارتقا شروع ہوتا ہے۔
اوسپنسکی کے یہ خیالات جیسے کچھ بھی ہیں جدید نفسیات کی طرزِ فکر اور اس کے نظریات سے بہت مختلف ہیں، بلکہ انہیں جدید نفسیات کی ضد بھی قرار دیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ جدید نفسیات انسان کو جبلتوں سے آگے پہچاننے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ فرائیڈ کے جبلتِ مرگ کے تصور کو جبلتوں سے آگے کی بات کہا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تصور کی جڑیں بھی جبلتوں ہی میں پیوست نظر آتی ہیں۔ کارل سی ژنگ صاحب کی رُوحانیت کا بھی بڑا چرچا رہا ہے، اور ان کے یونیورسل آر کی ٹائپ سے طرح طرح کے بلند تصورات برآمد کیے گئے ہیں، لیکن بعض مستند نقادوں کا خیال ہے کہ یہ تصور بھی تہذیب اور سماجیات سے ہوتا ہوا بالآخر جبلت کی طرف ہی لوٹتا ہے اور ژنگ صاحب کی رُوحانیت محض ڈھونگ ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جدید نفسیات صرف اوسپنسکی کے انسان نمبر ایک کے لیے کفایت کرتی نظر آتی ہے۔ جدید نفسیات کے نظریات اور اوسپنسکی کے تصورات کا تقابل کیا جائے تو اوسپنسکی کے یہاں نفسیات، نفسیاتی مسائل اور عوارض سے نجات کے آغاز کا استعارہ ہے، جب کہ اس کے برعکس جدید نفسیات کبھی نہ ختم ہونے والے نفسیاتی مسائل کا پشتارہ دکھائی دیتی ہے اور اس کے یہاں نفسیاتی بیماری اور نفسیاتی صحت کے مابین اتنا معمولی سا فرق دکھائی دیتا ہے کہ بسا اوقات جس کا ہونا اور نہ ہونا برابر نظر آتا ہے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ انسان کی نفسیاتی صحت کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ جبلتوں کی تسکین، ارتفاع یا Sublimation اور نام نہاد سماجی ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں لگا رہے تو پھر یہ تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی کہ انسان کبھی بھی نفسیاتی مسائل سے نجات حاصل نہیں کرسکے گا اور نفسیاتی مسائل ہمیشہ اس کی تاک میں رہیں گے۔ اب ہونے کو تو نفسیات میں شعور کی اصطلاح استعمال ہوتی ہی ہے اور اس کی بڑی اہمیت بھی بیان کی جاتی ہے، لیکن جدید نفسیات کے مسائل و معاملات کو پیش نظر رکھا جائے تو بے چارے شعور کا وجود محض فرضی نظر آتا ہے، اور اگر وہ فرضی نہیں بھی ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں، کیوں کہ اس کی حیثیت ایک ایسے کتے کی سی ہے جو جبلت کی جانب سے پھینکی جانے والی ہڈیوں پر گزراوقات کرتا ہے۔