بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ چین کا سفارت کاری کا اپنا طریقہ ہے۔ یہ عوام میں دوستوں کو شاذ و نادر ہی شرمندہ کرتا ہے۔ اس میں صورتِ حال کی سنگینی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بیجنگ کا ترجیحی طریقہ اکثر پردے کے پیچھے کام کرتا رہا ہے۔ لیکن چند روز پہلے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ، اور چینی صدر شی جن پنگ کے قریبی سمجھے جانے والے ایک چینی وزیر لیو جیان چاؤ کی اس تقریر نے مبصرین کو حیرت زدہ کردیا جس میں انہوں نے سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے سامنے ملک میں پائی جانے والی سیکورٹی کی صورتِ حال اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے اپنے خدشات کا کھلم کھلا اظہار کیا۔ یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ کسی چینی رہنما نے پاکستان اور چین کے تعاون کو نقصان پہنچانے والی سلامتی کی صورتِ حال کے خطرات کے بارے میں اس طرح کھل کر بات کی ہو۔ پاکستان میں مخالف سیاسی جماعتوں کے افراد کے، مخالفت میں چینی منصوبوں کو متنازع بنانے کے عمل کو بھی چین نے پسند نہیں کیا ہے۔ سیاسی حلقوں میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ چینی کارکنوں کے خلاف کارروائیوں میں امریکی ہاتھ بھی ہوسکتا ہے اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں میں جکڑے پاکستان کے لیے ایک خاص حد سے آگے جانا آسان نہیں ہے۔ چین کو پاکستان میں کام کرنے والے اپنے ورکرز کے خلاف ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پر تشویش ہے۔ ہم اُن کو اس حوالے سے پوری طرح مطمئن نہیں کرسکے۔ ایک مقام پر دو بار دہشت گردی کی وارداتوں کا ہوجانا چین کے لیے قابلِ تشویش ہے۔ ہم سی پیک کو اب تک اُس معیار تک نہیں پہنچا سکے جہاں پر اسے ہونا چاہیے تھا۔ سی پیک پلان کے مطابق پاکستان میں سڑکوں، بجلی اور فون کی سہولیات والے اعلیٰ معیار کے اسپیشل اکنامک زون بننا تھے جو نہیں بن سکے۔ یہ بات بہت دکھ کا باعث ہے کہ بیرونی دنیا ہماری سیاسی قیادت پر زیادہ اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ خطے کی سیاست میں چین اور بھارت کے بابین اختلافات ہیں۔ چین کو یہاں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے جو بھارت کے مقابلے میں چین کا ساتھ دے۔ یہ ملک پاکستان ہی ہوسکتا ہے۔ کیا پاکستان کی موجودہ حکومت چین کے تحفظات دور کر پائے گی؟ اس سوال کا حتمی جواب تو آنے والا وقت ہی دے گا۔ اگلے چھے مہینوں میں پتا چل جائے گا کہ اسپیشل اکنامک زونز پر کام شروع ہوا ہے کہ نہیں؟ کیا دہشت گردی پر قابو پایا جا سکا یا نہیں؟ کیا سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار بڑھی یا نہیں؟