عوام کے ’’منتخب‘‘ نمائندے عوام پر حملہ آور
پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی مکروہ ترین منصوبہ بندی کی پہلی اینٹ ایوب خان نے رکھی، اور معاملات کو اس ڈگر پر لے گئے کہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ اس کے بعد سیاست کی گوشمالی ضیاء الحق کے ہاتھوں ہوئی جس کے نتیجے میں سندھ سیاسی تفکرات کا مرکز بنا۔ پھر اس کے بعد پرویزمشرف نے حصہ ڈالا اور بلوچستان میں آج تک آگ لگی ہوئی ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی رہی سہی کسر2014ء میں حکومت کے خلاف غیر سیاسی قوتوں کی آشیرباد سے عمران خان کے دھرنے اور اس کے بعد2018ء اور 2024ء کے انتخابات نے نکال دی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ سیاسی قوتیں ہوں یا غیر سیاسی قوت، دونوں اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی قوتیں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی اُن کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حمایت کررہی ہیں جو ان تمام حالات کے براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ملک کو سب سے بڑا نقصان مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں پہنچا، اور سب سے زیادہ مسرت اور شادمانی ایٹمی پروگرام کے مکمل ہونے پرملی۔ پاکستان کے بحران کی ذمہ دار سیاسی اور غیر سیاسی قوتیں آج بھی کسی سانحے سے سبق حاصل کرنے اور مسرت اور شادمانی کے حامل ایٹمی پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے بجائے باہم دست و گریباں ہیں۔ ’’ مَیں اور تُو‘‘ کی بحث وطنِ عزیز کو اس حال تک پہنچا رہی ہے کہ ہر سال لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان، تاجر طبقہ، کاروباری لوگ ملک چھوڑ کر بیرونِ ملک جارہے ہیں۔ جمہوری ہوں یا غیر جمہوری، ہمارے حکمرانوں کی معراج یہی ہے کہ اُن کے حق میں امریکی کانگریس میں قرارداد آجائے تو یہ خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف تینوں نے اپنے سینے سے دل نکال کر امریکہ کی ہتھیلی پر رکھ دیا تھا اور ہمارے جمہوری حکمرانوں نے اپنی پگڑی امریکی کانگریس کی دہلیز پر رکھی ہوئی ہے۔ چونکہ ملک کی محب وطن سیاسی قوت یا قوتیں انھی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ حامی یا اتحادی بنی ہوئی ہیں لہٰذا ہر انتخابات میں یہی سیاسی مداری نام اور نعرے بدل کر پارلیمنٹ میں کبھی حکومتی اور کبھی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ رہے ہیں۔
امریکہ کے بعد اب چین بھی پاکستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحرک ہوگیا ہے، اسی لیے پاکستان میں سیاسی استحکام کا کھیل بین الاقوامی اکھاڑے میں جا پہنچا ہے۔ نائن الیون کے بعد گزشتہ دو دہائیوں سے امریکہ کی پاکستان کے بارے میں نرم اور گرم جستجو و گفتگو ہمارے تفکرات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ نائن الیون کے بعد ملک کے سیاسی حالات… جنہیں کوئی بھی نام اور عنوان دیا جائے… کے پیچھے سو فیصد امریکی سازش گوڈے گوڈے موجود رہی ہے۔ اب امریکی کانگریس ایک بار پھر قرارداد کے ذریعے اسلام آباد پر براہِ راست حملہ آور ہوئی ہے، اور یہ قرارداد عین اُس لمحے آئی ہے جب ملک میں سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ پہلے مرحلے کے آغاز پر نوازشریف کے خلاف ایک خلیجی ریاست میں منصوبہ بندی کی گئی تھی، یہی منصوبہ بندی 2014ء سے2024ء تک کے ملکی حالات کی براہِ راست ذمہ دار ہے۔ مملکتِ خداداد کے خلاف دہائیوں سے جاری جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ ہماری ریاست کو آئین اور قانون کی عمل داری ہی محفوظ بنا سکتی ہے۔ امریکی قرارداد کوڑے دان میں پھینک دینے کے قابل ہے، یہی بیانیہ وطنِ عزیز کو بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی سے بجٹ کا پاس ہونا، ایک نئے آپریشن کی بازگشت اور گونج کے علاوہ ملکی سیاسی حالات کی انگڑائی اہم واقعات ہیں۔ قومی بجٹ میں ٹیکسوں کے تازیانے کے سوا کچھ نہیں ہے، اس میں ذرہ بھر بھی ریلیف نہیں ہے، یہ صرف اشرافیہ کا بجٹ ہے۔ ایک ماچس کی خریداری سے لے کر بجلی، گیس کے بلوں کے ساتھ انکم ٹیکس سمیت درجنوں ٹیکس دینے والا عام آدمی کیوں جی رہا ہے؟ ساری فکر اس بجٹ میں یہی ہے کہ کس طرح عام آدمی سے جینے کا حق چھینا جاسکتا ہے۔ یہ طرزعمل بجٹ تیار کرنے والے معاشی ماہرین کی انتہا پسندی نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ معاشی انتہا پسند ایک مُکّا لہراکر عوام پر حملہ آور ہوچکے ہیں، اور اسمبلی میں بجٹ پاس کرنے والے عوام کے منتخب نمائندے بجٹ کے حق میں ووٹ دے کر اور واک آئوٹ کرکے بجٹ کے حق میں ووٹ دینے والوں کے سہولت کار بن گئے ہیں۔ یوں عوام کے خلاف حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک پیج پر ہیں۔
بجٹ عام آدمی کے لیے محض اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے اور اُس کے لیے صرف یہ جاننا اہم ہوتا ہے کہ بجٹ سے اُسے کوئی سہولت ملے گی یا اس کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے بھر پور اقدامات کیے ہیں، بجٹ میں آئی ٹی کے شعبے کے فروغ کے لیے تقریباً 100 ارب، اسکلز ڈویلپمنٹ اور کھیلوں کے شعبے کے لیے بھی تاریخی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔دوسری جانب ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست نیپرا میں جمع کرا دی گئی ہے جس کے تحت بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 41 پیسے فی یونٹ مزید اضافے کا امکان ہے۔ گندم کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی آٹے کی قیمت دوبارہ بڑھنے لگی ہے۔ پنجاب میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 150 روپے تک بڑھ گئی ہے جبکہ 10 کلو آٹے کا تھیلا 75 روپے اضافے کے بعد 975 روپے کا ہوگیا ہے۔ ریلیف دینے کے حکومتی دعووں کے باوجود عوام کو گھریلو استعمال کی عام اشیاء سمیت کسی چیز پر بھی ایک دھیلے کا ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بجٹ کی منظوری کے بعد کھانے پینے کی چیزوں پر بھاری ٹیکس عائد کرکے ان کی قیمتیں آسمان تک پہنچا دی گئی ہیں۔ گھی، کوکنگ آئل اور مشروبات پر 70 سے 80 روپے ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ اضافی ٹیکس کے ساتھ عوام کو اُن کی خریداری کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، جبکہ دال، چاول، چینی اور مصالحہ جات پر بھی اسی تناسب سے بھاری ٹیکس عائد کرکے انہیں عام آدمی کی دسترس سے باہر کردیا گیا ہے۔ یہ وفاق بالخصوص پنجاب حکومت کے لیے لمحہِ فکریہ ہے جو عوام کو سستی روٹی اور سستا آٹا فراہم کرنے کے لیے حتی الوسع اقدامات کررہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ریلیف دینے کے حکومتی دعوے محض دعوے ہی ثابت ہورہے ہیں جو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ کھلی اور واضح بات ہے کہ12970 ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ عام آدمی کی کمر پر لاد دیا گیا ہے، اور سب سے زیادہ مشکل نجی شعبے کے تنخواہ دار طبقے کو پیش آئے گی کیونکہ اس کے پاس اپنے اخراجات میں اضافے کا بوجھ کسی اور پر ڈالنا ممکن نہیں ہوتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بجٹ میں تنخواہ دار افراد کی آمدنی پر ٹیکس میں بے پناہ اضافہ کردیا گیا ہے۔ حکومت نے سرکاری ملازمین حتیٰ کہ ارکانِ پارلیمنٹ کے مالی وسائل میں بھی بھاری اضافہ کیا ہے لیکن نجی شعبے کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی کوئی ضمانت مہیا نہیں کی گئی۔ کم سے کم اجرت 32 ہزار سے بڑھا کر37 ہزار کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، لیکن نجی اداروں میں ایسے حکومتی فیصلوں پر کبھی عمل نہیں ہوا۔
بجٹ پر وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی اپنا ردعمل دیا ہے کہ ایکسپورٹرز پر ٹیکس رجیم میں تبدیلی ٹیکس بڑھانے کے بجائے کمی کا باعث بنے گی، ایکسپورٹرز بیرونِ ملک کمپنیاں بناکر ان کے ذریعے ایکسپورٹ کریں گے، انڈر انوائسنگ ہوگی، بددیانتی کا کلچر فروغ پائے گا، ایکسپورٹ بڑھنے کے بجائے کم ہوگی۔ حکومتیں جب بزنس فرینڈلی پالیسی ترک کرکے اس قسم کے اقدامات کرتی ہیں تو نفع کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ پہلے ٹیکس کلچر کو فروغ دیں۔
معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھاری ٹیکسوں کے باعث بجٹ کی منظوری سے مہنگائی میں اضافے کے خدشات موجود ہیں، وہیں اس کی منظوری آئی ایم ایف سے نیا قرض پروگرام طے کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔18 ہزار 877 ارب روپے کے مجموعی بجٹ میں ٹیکس محصولات کا ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے رکھا گیا ہے جو رواں سال کے بجٹ میں عائد ٹیکسوں سے 40 فی صد زیادہ ہے۔ جب کہ حکومت نے نان ٹیکس ریونیو کی مد میں بھی 4 ہزار 845 ارب روپے آمدن کا تخمینہ رکھا ہے۔ٹیکسوںکی شرح کم کرنے کے ساتھ بعض اشیا پر ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی مخالفت بھی سامنے آئی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے محصولات میں اضافے کے اقدام کا دفاع کیا کہ یہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے اور اس سے مستقبل میں مزید بہتری آئے گی۔
ارکانِ اسمبلی کی جانب سے پیش کردہ بعض ترامیم کو فنانس بل کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔جائدادوں پر بھی کیپٹل گیں ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔بجٹ کے ابتدائی اجلاس کے دوران علامتی بائیکاٹ کرنے والی حکومت کی اہم اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی فنانس بل کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
بنیادی طور پر نئے قرض پروگرام پر آئی ایم ایف کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے بل کی منظوری ضروری تھی۔ یوں یہ بجٹ بین الاقوامی قرض دہندہ سے نئے قرض کی راہ ہموار کرنے میں اہم قدم ثابت ہو گا اور اس وقت حکومت کے لیے قرض نادہندگی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے قرض پروگرام میں شمولیت ضروری ہے۔چونکہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی زیر نگرانی بنا ہے، اس لیے یہ توقع تھی کہ جو فنانس بل 12 جون کو پیش کیا گیا تھا وہی قومی اسمبلی پاس کرے گی۔