عوام کے ساتھ صوبائی حکومت بھی احتجاج میں شریک
جولائی کا مہینہ شروع ہوتے ہی پورے ملک کی طرح خیبر پختون خوا کو بھی شدید گرمی اور حبس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گرمی کی شدت میں جلتی پر تیل کا کام بجلی کی ناروا اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے انجام دیا ہے جس نے مہنگائی اور گرمی کے ستائے ہوئے عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ گرمیاں شروع ہوتے ہی چونکہ لوڈشیڈنگ کا جن بھی بوتل سے باہر آجاتا ہے اس لیے خیبر پختون خوا میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب صوبے کی سڑکوں پر ظالمانہ لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج نظر نہ آتا ہو۔ پہلے یہ احتجاج عوام خود یا پھر اپوزیشن جماعتیں کرتی تھیں۔عوامی احتجاج میں بھی صوبائی حکومت کی شمولیت صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کررہی ہے۔ بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ کے خلاف پشاور میں کسی حکومتی ایم پی اے یا صوبائی وزیر کے احتجاج کا تصور پہلے پہل پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی فضل الٰہی نے متعارف کرایا تھا، جن کی دیکھادیکھی دیگر اراکین اسمبلی بھی پوائنٹ اسکورنگ کے چکر میں ان سے دو ہاتھ آگے نکل گئے تھے، لیکن گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا علی امین گنڈاپور نے خود گرڈ اسٹیشن کے اندر بٹن آن آف والی جگہ پر پہنچ کر وفاق اور صوبے کے عوام کو جو پیغام دیا ہے اس کی دیکھا دیکھی صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی بھی بجلی بحال کروانے کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں جس سے حکومت اور اپوزیشن کی تفریق ختم ہوکر رہ گئی ہے، اور بدقسمتی سے سیاست میں گالم گلوچ اور ناچ گانے کی طرح احتجاج کا یہ نیا کلچر متعارف کرانے کا سہرا بھی پی ٹی آئی کے سر ہے۔
واضح رہے کہ خیبر پختون خوا کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کو کم نقصانات کا سامنا ہے اور یہاں کے مکین باقاعدگی سے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ نسبتاً کم ہوتی ہے، مگر ایسے علاقے جہاں پر لائن لاسز زیادہ ہیں وہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ذریعے اس نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں اس لوڈشیڈنگ کی زد میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو باقاعدگی سے بل ادا کرتے ہیں۔ یہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات احتجاج میں شدت نظر آتی ہے۔ خیبر پختون خوا میں بعض علاقے ایسے بھی ہیں جہاں بائیس بائیس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، ان علاقوں کو 24 گھنٹوں میں بمشکل دو گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے، ان دو گھنٹوں میں بھی باقاعدگی سے جاری رہنے والی ٹرپنگ کی مثال نوالے میں آنے والے کنکر کی سی ہے جو ان دوگھنٹوں کی بجلی کے مزے کو بھی کرکرا کرکے رکھ دیتا ہے جس کا ردعمل پھر عوامی احتجاج کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
یہ بات محتاجِ بیان نہیں ہے کہ صوبے کے دیہی علاقوں میں شہری علاقوں کی نسبت لوڈشیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہے۔ پیسکو کے اہلکاروں کے بقول اس کی وجہ بجلی چوری، بلوں کی عدم ادائیگی اور بجلی کا بے دریغ استعمال ہے۔ ترجمان پیسکو کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 4 سے 6 گھنٹے ہے جبکہ مضافاتی علاقوں میں 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ ترجمان کے مطابق بجلی چوری اور واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث لاسز زیادہ ہیں اور ایسے فیڈرز پر زیادہ لوڈ مینجمنٹ کرنا ناگزیر ہے۔ پیسکو حکام کے مطابق صوبے میں پیسکو کے 1300 سے زیادہ فیڈرز ہیں، جن میں سے 156 فیڈرز پر صرف دو گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ حکام کے مطابق 135 فیڈرزپر 20 سے 30 فیصد لاسز ہیں، جہاں چھے گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، جبکہ 96 فیڈرز ایسے ہیں جن پر لاسز 30 سے 40 فیصد ہیں اور وہاں سات گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ پیسکو کے مطابق 143 فیڈرز پر 40 سے 60 فیصد تک لاسز ہیں اور وہاں بارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، جبکہ 157 فیڈرز پر لاسز 60 سے 80 فیصد ہیں اور وہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹے ہے۔ حکام کے مطابق 159 فیڈرز پر لاسز 80 فیصد سے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ان فیڈرز پر 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ پیسکو کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختون خوا میں بعض ایسے بھی فیڈرز ہیں جہاں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ صفر ہے۔ ان جگہوں میں جہاں اسپتال اور چند تعلیمی ادارے شامل ہیں وہیں ڈی ایچ اے پشاور، عسکری تنصیبات، پی ایم اے کاکول اور ہری پور کا جوڈیشل کمپلیکش شامل ہیں۔
پیسکو کے ریکارڈ کے مطابق بجلی کی لوڈشیڈنگ سے پاک یہ فیڈرز کیٹگری ون اور ٹو میں شامل ہیں۔ یہ تمام وہ جگہیں ہیں جہاں سے پیسکو کو کسی قسم کے نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ پسیکو کے مطابق 1315 فیڈرز میں سے 548 فیڈرز ایسے ہیں جہاں لوڈشیڈنگ نہیں کی جاتی، اور ان صارفین کی تعداد ایک ملین سے زیادہ بنتی ہے۔ کیٹگری چھے اور سات میں وہ علاقے شامل ہیں جہاں 80 فیصد یا اس سے بھی زیادہ لوگ نادہندہ ہیں اور بجلی چوری روزمرہ کا معمول ہے۔ ان علاقوں میں پیسکو کی طرف سے 16، 18، 20، 21 اور 22 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔ پیسکو کے ترجمان کے مطابق یہاں نہ صرف یہ کہ ریکوریاں نہیں ہوتیں اور لوگوں نے بجلی کے میٹر انسٹال نہیں کرائے ہوئے بلکہ جب یہاں پیسکو کا عملہ جاتا ہے تو اسے زدوکوب بھی کیا جاتا ہے۔ نیپرا کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پیسکو کو سالانہ 77 ارب کے نقصانات کا سامنا ہے جو دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جہاں تک بجلی کے بلوں کی ریکوری کا معاملہ ہے تو یہ کمپنی اپنے ہدف سے سات فیصد کم ریکوریاں کرتی ہے، جس سے 24 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ نیپرا نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی وضاحت سے لکھا ہے کہ بجلی کی تقسیم اور ترسیل کرنے والی کمپنیاں نقصانات کم کرنے اور دیگر تکنیکی مسائل حل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس رپورٹ میں صارفین کو نہیں بلکہ متعلقہ کمپنیوں کو نظام میں بہتری نہ لانے کا ذمہ ٹھیرایا گیا ہے۔ وفاقی وزیر واپڈا اویس لغاری کے مطابق حکومت کی پالیسی بہت واضح ہے کہ جہاں بجلی کی چوری ہوگی وہاں لوڈشیڈنگ ہوگی۔ ان کے مطابق صرف خیبر پختون خوا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں بجلی چوری ہورہی ہے، اور جن علاقوں میں یہ نقصانات زیادہ ہیں وہاں لوڈشیڈنگ بھی زیادہ کی جاتی ہے۔
خیبرپختون خوا میں لائن لاسز کے حوالے سے واپڈا کے دعووں کے برعکس وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ بجلی کی مد میں وفاق کے ذمے خیبر پختون خوا کے 1600 ارب روپے واجب الادا ہیں جو مشترکہ مفادات کونسل سے منظور شدہ ہیں، مگر وفاق یہ واجبات ادا نہیں کررہا ہے۔ اس دعوے کے جواب میں وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ جب تک نقصانات ختم نہیں کیے جاتے اور وفاق کو چھے سو ارب روپے تک نقصانات کا سامنا رہتا ہے اور ایسے میں بجلی چوری روکی نہیں جاتی تو پھر واجبات کہاں سے ادا کیے جاسکیں گے! وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا نے گزشتہ دنوں اپنی ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ صوبے کے کسی بھی فیڈر پر 12 گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی اور تمام پارلیمنٹیرینز اپنے اپنے علاقوں میں اس شیڈول کی خود نگرانی کرکے اس کو یقینی بنائیں۔ علی امین گنڈاپور نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ ”میں نے آئی جی پولیس کو واضح احکامات دیے ہیں کہ واپڈا اہلکاروں کے کہنے پر صوبے کے کسی شہری کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوگی“۔ انھوں نے کہا کہ ”یہ خیبر پختون خوا پولیس ہے، اور یہ واپڈا کے ماتحت نہیں“۔ انھوں نے کہا کہ ”ہم اگلے قدم کے طور پر نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی بند کرسکتے ہیں“۔ وزیراعلیٰ علی امین نے کہا کہ ”واپڈا سے جڑے تمام حل طلب معاملات طے کرنے کے لیے ہم نے وفاقی حکومت کے ساتھ بات چیت کی۔ لائن لاسز کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ہم نے بھرپور تعاون کیا۔ ان کے مطابق ”جن علاقوں میں بہت زیادہ لاسز ہیں وہاں لوگوں کو سولر سسٹم دینے کے لیے ہم نے 10 ارب روپے مختص کیے ہیں“۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ”میں اپنے تمام پارلیمنٹیرینز اور پارٹی ذمہ داران سے کہتا ہوں کہ اب وہ بحیثیت سب کا نمائندہ میری پالیسی پر عمل کریں گے“۔
یاد رہے کہ عید کے چھٹیوں میں وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا علی امین گنڈاپور ڈیرہ اسماعیل خان کے گرڈ اسٹیشن پہنچ گئے تھے اور لوڈشیڈنگ کا نیا شیڈول جاری کردیا تھا۔ تاہم وزیراعلیٰ نے 9 مئی جیسے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے کارکنان سے کہا کہ ”میں اپنے لوگوں کو پیغام دیتا ہوں کہ کوئی بھی واپڈا کے اثاثوں کو نقصان نہ پہنچائے، یہ ہمارا اثاثہ ہیں کیونکہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے بنے ہیں۔“ دوسری جانب خیبرپختون خوا میں ہمیشہ سے یہ سوچ رہی ہے کہ وفاق ہم سے بجلی سستی خریدکر پھر مہنگے داموں فروخت کرتا ہے، اور ہمیں گزشتہ عرصے کے واجبات بھی ادا نہیں کیے گئے ہیں۔ یہ وہ دعوے ہیں جن کی آڑ میں صوبے کے اکثر علاقوں میں عام لوگ بجلی پر اپنا حق جتاتے ہوئے اس کے مفت استعمال کو اپنا حق سمجھتے ہیں، اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر یہاں حکومتی اراکین کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں بھی اپنی سیاسی دکانیں چمکاتی ہیں۔ بجلی کے حوالے سے رہی سہی کسر آئی ایم ایف کی ایماء پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ بے تحاشا اضافے نے پوری کردی ہے۔ لہٰذا اب وفاق اور خیبرپختون خوا حکومت کو مل کر اس گمبھیر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا۔