دین میں اعتدال

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
”اس وقت تک مجھ سے حدیث بیان نہ کرو جب تک تمہیں صحیح علم نہ ہو۔ (یاد رکھو) جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنالے“۔ (ترمذی)

ابوثعلبہ خشنی جرثوم بن ناشرؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے کچھ باتیں فرض کی ہیں، سو انہیں ضائع نہ کرو۔ کچھ حدیں مقرر کی ہیں، پس انہیں نہ پھلانگو۔ بعض چیزیں حرام قرار دی ہیں اور بہت سی چیزوں سے تم پر رحمت کرتے ہوئے بغیر بھولے خاموشی اختیار کی ہے، سو ان کی کرید نہ کرو‘‘۔(حدیث حسن۔ رواہ الدار قطنی)

تشریح: اس حدیثِ مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چار باتوں کا حکم دیا ہے وہ بنیادی اور بہت اہم ہیں۔ اول فرائض کی پابندی کرنا، دوئم کچھ حدود مقرر کی ہیں سو انہیں نہ پھلانگنا، سوئم اللہ کی حرام کردہ باتوں سے بچنا، اور چہارم جن اشیا اور باتوں کے بارے میں بغیر کسی بھول کے تم پر رحم کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ہے ان کے بارے میں نہ کریدنا۔ ان کا مختصر سا بیان کیا جاتا ہے۔

(1) فرائض: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی بھلائی، بہتری اور دونوں جہانوں کی کامیابی کے لیے کچھ اعمال کی ادائی لازم کردی ہے۔ یہ فرائض کہلاتے ہیں۔ انہیں ادا کرنا لازم ہے۔ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی نے اپنی کتاب ’’فرائضِ اسلام‘‘ میں فرضوں کے بارے میں لکھا ہے کہ ہر فرض سے تین باتیں تعلق رکھتی ہیں جن کی تکمیل ضروری ہے:

اول ہر مومن پر لازم (فرض) ہے کہ شریعت کے فرائض کا علم حاصل کرے کہ مومن ہونے کی حیثیت سے مجھ پر کون سی باتیں فرض ہیں۔ علما کہتے ہیں کہ فرائض کا علم حاصل کرنا مسلمانوں پر فرض ہے، جیسے انسان بالغ ہوجائے اُس پر نماز فرض ہو تو اس کے لازمی ارکان کا معلوم کرنا فرض ہے، اسی طرح رمضان کی آمد پر روزوں کا علم حاصل کرنا اور زکوٰۃ کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔

دوم فرائض کے لازمی ہونے پر اعتقاد و یقین رکھے، اور سوئم یہ کہ انہیں ادا کرے۔ مخدوم صاحب نے اپنی کتاب میں سیکڑوں فرائض شمار کیے ہیں جو مسلمان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے مختصر گوشوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

آج ہمارے مسلم معاشرے میں جزئیات، مستحبات، فروعات/ مباحات اور مکروہات پر بڑی بحثیں ہوتی ہیں، مناظرے ہوتے ہیں، پوسٹر، مضمون، کتابچے اور کتابیں چھپتی ہیں۔ ایک دوسرے سے ان فروعات پر شدت کی وجہ سے نفرت اور بیر پیدا ہوتے ہیں اور مسلمان گروہوں، ٹولوں، مسلکوں اور فرقوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں، اور ایک دوسرے کو گمراہ، فاسق، مشرک و کافر تک کہتے ہیں، لیکن فرائض اور واجبات کے بارے میں اتنی محنت اور جدوجہد نہیں کی جاتی، جبکہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ زندگی سے تعلق رکھنے والے فرائض کو معلوم کرے، ان پر پختہ اعتقاد رکھے اور انہیں ادا کرے۔

اسی طرح فرائض، واجبات، سنن، مستحبات اور نوافل کی ادائی میں توازن اور اعتدال اختیار کیا جائے اور ہر عمل کو اس کے درجے پر رکھا جائے۔ فرائض ہر حالت میں ادا کیے جائیں، اور دوسرے احکام بھی درجہ بہ درجہ ادا کیے جائیں۔ ایسا انداز نہیں ہونا چاہیے کہ فرائض تو چھوڑ دیے جائیں اور نوافل اور مستحبات پر زور دیا جائے۔ نبیؐ نے یہی بات ارشاد فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرائض مقرر کیے ہیں، انہیں ہر حالت میں ادا کرتے رہو اور ضائع نہ کرو۔

(2) کتنی ہی حدیں مقرر کی ہیں۔
حدود کی پابندی: اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا: ’’اے ایمان والو! جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں، انہیں حرام نہ کرلو، اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں‘‘۔(المائدہ: 87:5)

’’حدیں پھلانگنے (عبور کرنے) کی کئی صورتیں ہیں جن میں اصولی بات یہ ہے کہ اعتدال کو ملحوظ نہ رکھا جائے اور افراط و تفریط اختیار کی جائے۔ اللہ اور رسول کی مقرر کردہ حدود کا لحاظ نہ کرنے، انہیں توڑنے اور ان میں کمی و بیشی کی کئی صورتیں ہیں۔

(الف) جیسے ذیقعدہ، محرم اور صفر کے مہینوں میں شادی کرنے کو حرام سمجھنا۔ بعض لوگوں کے ہاں عورت کا دوسرا نکاح کرنا حرام ہونا۔

(ب) کسی ایسے کام کو دین کا کام اور ثواب سمجھ کر کرنا جو شریعت میں نہیں ہے جیسے شب برأت کا حلوہ، عید کی سویاں اور گیارہویں کا دودھ وغیرہ۔

(ج) اس طرح کی مطلق (عام) مباح و مستحب یا سنت کے عمل کو وقت کے ساتھ مقید (مقرر کرنا) جیسے فجر اور عصر کی نماز کے بعد لازماً مصافحہ کرنا، عید کے بعد معانقہ کرنا، ایصالِ ثواب کے کھانے کے لیے دن مقرر کرنا جیسے تیجا، دسواں، بارہواں، چالیسواں اور جمعرات وغیرہ۔

(د) حدود پار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی عمل کی ایسی فضیلت اور ایسا ثواب گھڑ لینا جو قرآن اور حدیث سے ثابت نہیں ہے، جیسے دعائے گنج العرش، عہدنامہ، نورنامہ اور درود لکھی کے فضائل و فوائد اور ثواب مقرر کیا ہوا ہے۔

(ھ) کسی عمل کی کوئی خاص ترکیب و ترتیب اور انداز اپنی طرف سے مقرر کرلینا جو کہ حدیث میں ثابت نہ ہو، جیسے نوافل نمازوں میں خاص سورتیں اور ان کی تعداد مقرر کی جاتی ہے، یا خاص دنوں اور مہینوں کی فضیلتیں اور ثواب کی مقدار مقرر کی گئی ہے۔

(و) ایک صورت یہ ہے کہ کسی جگہ یا وقت نیکی کرنے کو ضروری سمجھنا، جیسے قبروں پر جاکر خیرات کرنا اور قرآن پڑھنا، جبکہ ثواب تو ہر جگہ سے پہنچ سکتا ہے، اس طرح اپنی طرف سے کوئی طعام بعض لوگوں کے لیے ناجائز سمجھنا، جیسے عقیقے کا گوشت یا کھانا نانا، نانی کے لیے ناجائز سمجھنا۔

(ز) کسی عمل پر خاص عذاب اپنی طرف سے مقرر کرلینا، جیسے سندھ میں مشہور ہے کہ بیٹی بالغ ہونے کے بعد ماں باپ کا کھانا حرام ہوتا ہے یا وہ گناہ گار ہوتے ہیں۔

الغرض! ایسی بے شمار باتیں ہیں جو لوگوں نے اپنی طرف سے دین میں بڑھالی ہیں، اسے بدعت بھی کہا جاتا ہے اور حدود سے آگے بڑھنا بھی۔ اس بارے میں مومن کا(باقی صفحہ33پر)

رویہ یہ ہونا چاہیے کہ قرآن مجید اور صحیح حدیث میں جو کچھ ہے اور جس طرح ہے اس سے آگے نہ بڑھا جائے۔

(3)محرمات سے پرہیز: حرام کی ہوئی باتوں سے بچنا۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے حرام کردہ چیزوں سے کوشش کرکے دور رہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے حرام کردہ چیزوں کا علم حاصل کرنا، اس پر اعتقاد رکھنا اور ان سے بچنا اور دور رہنا۔ آج ہمارے معاشرے میں اس بارے میں بھی کوتاہی ہے، جیسے کچھ لوگ حقہ پینے اور تمباکو نوشی سے نفرت کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف سود، رشوت اور حرام کمانے اور کھانے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے اور انہیں برائی نہیں سمجھتے۔

(4) مطلق کا لحاظ کرنا:مسائل میں بحث نہ کرنے، گہرائی میں جانے اور ان کے بارے میں سوال نہ کرنے کا حکم نبیؐ کے زمانے میں تھا، کیونکہ اُس وقت شریعت نازل ہورہی تھی، اس لیے جتنے سوال کیے جاتے، اتنا حکم نازل ہوجاتا اور لوگوں کے لیے اس پر عمل کرنا مشکل ہوتا۔ جیسے حج کا حکم آنے پر ایک شخص نے سوال کیا ’’یارسولؐ اللہ! کیا ہر سال حج فرض ہے؟‘‘ اس پر آپؐ نے کچھ نہیں فرمایا اور خاموش رہے۔ جب سائل نے یہ سوال تین مرتبہ کیا تو آپؐ نے فرمایا ’’میں اگر ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہوجاتا، پھر تم تکلیف میں مبتلا ہوجاتے‘‘۔

اس لیے عام لوگوں کو چاہیے کہ جس بات کو شریعت میں مطلق (عمومیت پر) چھوڑا گیا ہے اس کی تحقیق اور تدقیق اور باریک بینیوں میں نہ جائیں۔ علما نے کہا ہے کہ جب تک کوئی معاملہ عملاً واقع نہ ہو تب تک اس کے بارے میں سوال نہیں کرنا چاہیے۔ سلفؒ کہتے تھے دعوہا تنزل اسے اُس وقت تک چھوڑدو جب تک عملاً واقع نہ ہوجائے۔

کسی چیز کے بارے میں شریعت کا حکم نہ کرنے پر علما کی مختلف آرا ہیں اور ان میں تین قول ہیں: ایک حظر (ممانعت) کا ہے یعنی وہ عمل نہیں کیا جائے گا، دوسرا اباحہ (جائز ہونے) کا ہے یعنی اسے استعمال کیا جائے گا کیونکہ جب شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیان نہ کیا تو گویا اس کے استعمال کی اجازت دے دی، اور تیسرا توقف کا ہے یعنی جب تک حکم معلوم نہ ہو اُس وقت تک عمل نہیں کیا جائے گا۔ ان کے تفصیلی احکام کتبِ فقہ و اصولِ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں، وہاںدیکھے جائیں یا علما سے معلوم کیے جائیں۔