دعوتی زندگی کا ایک سچا اور سبق آموز واقعہ

راوی تحریکی کارکن اور مؤلف: عمر الدین، سابق امیر جماعت اسلامی تحصیل پسرور، خیبرپختون خوا

محترم عمر الدین صاحب جماعت اسلامی کے ایک دیرینہ اور پُرخلوص کارکن اور رکنِ جماعت تھے۔ آپ کا تعلق خیبرپختون خوا (صوبہ سرحد) کی تحصیل پسرور سے تھا۔ عمر الدین صاحب رقم طراز ہیں کہ وہ 1950ء میں لاہور میں محلہ مسکین پورہ (متصل مغل پورہ) میں کرائے کے ایک مکان میں رہائش پذیر تھے اور ریلوے کے محکمۂ اکائونٹس میں اکائونٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ مالک مکان کو اس مکان میں کچھ اضافی تعمیرات کی ضرورت پڑی تو اس نے مجھ سے درخواست کی کہ کچھ دنوں کے لیے اپنے اہل و عیال کو گائوں بھیج دیں کیونکہ تعمیراتی کام میں ٹوٹ پھوٹ اور گرد وغبار کی وجہ سے رہائش مشکل ہوگی اور خواتینِ خانہ کو غیر محرم مردوں کی موجودگی سے نہ صرف تکلیف ہوگی بلکہ رہائش ناممکن ہوگی۔ میں نے اس سے وعدہ لیا کہ وہ اضافی تعمیر شدہ حصہ کسی اور کو کرائے پر نہیں دے گا اور اضافی حصے کا بھی میں کرایہ ادا کرتا رہوں گا۔ لیکن تعمیر کی تکمیل کے بعد وہ اپنے وعدے سے پھر گیا اور نوتعمیر شدہ حصے میں اپنی بیوہ بھاوج کو لابٹھایا۔ غیرمحرم اور جوان عورت کے ساتھ میرا رہنا دشوار اور ناقابلِ قبول تھا، چنانچہ میں نے دوسرے مکان کی تلاش شروع کردی۔ چند دنوں میں محلہ کمہار پورہ میں اپنی استطاعت کے مطابق ایک چھوٹا سا مکان خرید کر رہائش شروع کردی اور کرائے کے مکانوں کے جھنجھٹ سے نجات حاصل کرلی۔ اللہ کا شکر ادا کرکے بیوی بچوں کو گائوں سے بلاکر اور اپنے سامان کے ساتھ اپنے نئے اور ذاتی مکان میں منتقل ہوگیا۔ مسجد بھی قریب تھی، اس مسجد کے قریب ایک دکان میں چار پانچ چھڑے نوجوان رہائش پذیر تھے۔ عمر الدین صاحب اس واقعے کے راوی ہیں، وہ یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

ہر روز میں وہاں سے گزرتا تو ان نوجوانوں کا بے ہنگم شور، ایک دوسرے سے بے مقصد الجھنا اور ہاتھا پائی کرنا دیکھتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی کہ یہ نوجوان بے کار زندگی گزار رہے ہیں، یہ مسلمان ہوجائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ ایک دن نماز عصر سے کچھ پہلے میں گھر سے اس نیت سے نکلا کہ ان نوجوانوں سے ملوں گا۔ میں سیدھا ان کے گھر چلا گیا اور صحن میں بچھی ہوئی چارپائی پر جاکر بیٹھ گیا۔ انہوں نے کام کاج کے لیے اور کھانا پکانے کے لیے نور دین نامی ایک ملازم رکھا ہوا تھا، اور یہ نوجوان آپس میں گالی گلوچ اور دھکم پیل میں مصروف تھے۔ حقہ چارپائی کے ساتھ پڑا تھا۔ میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور بیٹھ گیا اور وہ نوجوان بھی کارِ بے کار چھوڑ کر میرے پاس بیٹھ گئے۔ تعارفی بات چیت ہوتی رہی، معلوم ہوا سب کے سب نوجوان کنٹرولر ملٹری اکائونٹس (Controller Military Accounts) لاہور میں ملازمت کرتے ہیں، گھر میں شوروغوغا کرنا اور روز فلم دیکھنا بھی ان کا مشغلہ ہے۔ تھوڑی دیر ہی بیٹھا تھا کہ عصر کی اذان ہوئی اور میں نماز کے لیے چلا گیا۔

میں اگلے روز پھر اسی وقت ان کے ہاں گیا تو نوجوانوں میں سے ایک نے نوکر کو پکارا اور کہا ’’نوردین! مولوی صاحب کو حقہ بھردو‘‘، دوسرا کہنے لگا ’’تمباکو بھرنے کے بعد چائے بھی بنائو اور مولوی صاحب کو پلائو‘‘۔ حقہ تیار ہوگیا، ایک کش لیا، تمباکو اچھا تھا، میں نے تعریف کی تو ایک نے کہا ’’جی یہ اپنی زمینوں کا ہے‘‘۔ ان کا تعلق زمیندار گھرانوں سے تھا، تعلیم یافتہ اور بااخلاق تھے۔ چائے بن گئی، وہ بھی پی لی۔ بڑی مزے دار تھی۔ ہم نے اِدھر اُدھر کی چند باتیں کیں۔ عصر کی اذان ہوگئی تو میں اٹھا اور نماز کے لیے چل دیا۔

تیسرے دن کچھ زیادہ وقت کے لیے میں گھر سے نکلا۔ وہ مجھ پر اعتماد کرنے لگے تھے، میں ان سے جاکر ملا۔ میرے جانے سے پہلے حقہ بھی تیار تھا اور چائے بھی۔ مگر وہ ہنگامۂ ہائو ہو نہیں تھا۔ بیٹھ گئے، کچھ ریلوے اکائونٹس کی باتیں کیں، کچھ ملٹری اکائونٹس کی، اور کچھ مختلف قسم کی۔ میں نے احتیاط رکھی کہ اللہ، رسولؐ، دین کی کوئی بات فوراً ان سے نہ کروں، اور اس طرح مسلسل تین دن تک میں نے اپنے اوپر جبر کیا۔ نماز کا وقت ہوتا اور میں اٹھ کر مسجد کو چل دیتا۔ مجھے پتا چلا کہ ایک دن میرے جانے کے بعد نوجوانوں نے سوچنا شروع کردیا کہ یہ مولوی ہر روز آتا ہے، اذان سن کر اٹھ کر چل دیتا ہے مگر ہم لوگ ایسے بے نصیب ہیں کہ اس کے ساتھ مسجد تک نہیں جاسکتے۔ ایک نے کہا ’’عہد کرو کہ نماز پڑھیں گے‘‘۔ دوسرے نے کہا ’’فلم بینی بھی نہیں کریں گے‘‘۔ سب سے چھوٹا جس کی ابھی داڑھی بھی نہیں تھی بولا ’’داڑھی منڈوانا بھی بند کردیں گے‘‘۔ سب نے اقرار کیا کہ ہم داڑھی بھی نہیں منڈوائیں گے۔

ان کا نوکر نوردین یہ گفتگو سن رہا تھا۔ اس نے کہا ’’کتنی اچھی بات ہے کہ ہم سچے مسلمان بن جائیں۔‘‘

اتفاق کی بات کہ میں تین دن ان سے ملاقات نہ کرسکا۔ تین دن کے بعد میں پھر ان کے ہاں پہنچا تو مجھے ماحول میں تبدیلی سی محسوس ہوئی۔ سارا گھر صاف ستھرا معلوم ہوا۔ گھر میں کوئی شور بھی نہ تھا۔ تمام نوجوان اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے۔ ایک نے پکار کر کہا ’’مولوی جی، آپ نے تو ہمیں مولوی بنادیا۔ ہم سب نے عہد کیا ہے کہ ہم پابندی سے نماز ادا کریں گے۔‘‘

میں نے ان سب کو گلے سے لگایا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں راہِ ہدایت عطا فرمائی۔ اس کے بعد میں نے انہیں ایک ایک کرکے دعوتی کتابیں پڑھانا شروع کردیں۔

اُس زمانے میں مولانا مودودیؒ کا اتوار کو قلعہ گوجر سنگھ میں درسِ قرآن ہوتا تھا۔ جب وہ کچھ کتابیں پڑھ چکے تو ایک دن میں نے انہیں مولانا کے درس میں چلنے کی دعوت دی۔ انہوں نے ایک درس سنا تو اس کے بعد خودبخود باقاعدگی سے درس میں پہنچ جاتے۔

ان نوجوانوں میں ایک چودھری فضل کریم ڈوگر تھے جو ریٹائرمنٹ کے بعد رکن جماعت بنے، پھر وہ تحصیل چیچہ وطنی کے امیر بنے۔

(ماخوذ: تحریک اور کارکن، ایشیاء لاہور، 9 اکتوبر 1988ء)