غزہ کی مزاحمت:ہیومن رائٹس واچ کی پسپائی

جب ہیومن رائٹس واچ پر غیر معمولی دباؤ مرتب ہونے لگا تب اُس کے پاس پسپا ہونے کے سوا چارہ نہ رہا۔ ایسے عالم میں اُس نے پسپائی اختیار بھی کی تو ایسی کہ دنیا شرمندہ ہوگئی۔ غزہ کے مکینوں پر جو قیامت ڈھائی گئی تھی اُس کے پیش منظر میں ہیومن رائٹس واچ نے اپنے آپ کو اِس سطح تک گرالیا کہ وہ یہ الزام لگانے تک بھی آگئی کہ ایک ریسٹورنٹ کے اُردنی مالک نے انتہائی ’’نسل پرستی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے غربِ اردن سے تعلق رکھنے والے دو یہودیوں کو کھانے پینے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا!

ہیومن رائٹس واچ کو پسپا ہونے پر مجبور کرنے والے معاملات سامنے آنے سے اندازہ ہوگیا کہ اسرائیلی حکومت کو گولڈ اسٹون رپورٹ کتنی مہنگی پڑی تھی اور وہ اس رپورٹ کے ہاتھوں کس قدر پریشان تھی۔ ایک سال سے زائد مدت گزرنے پر بھی گولڈ اسٹون رپورٹ کے اثرات برقرار تھے۔ اسرائیل نے اس رپورٹ کو ڈس کریڈٹ کرنے کی بھرپور کوشش کی، تاہم ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا۔ جس طور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماری جاتی ہیں بالکل اُسی طور اسرائیلی قیادت نے گولڈ اسٹون رپورٹ کے اثرات کو غیر مؤثر کرنے کی اپنی سی کوشش کے نتیجے میں دنیا بھر میں مزید بدنامی کمائی اور اس کے بعد جھینپ اور خِفّت مٹانے کے لیے اُس نے چند نمائشی اقدامات کیے تاکہ دنیا کو یہ یقین دلایا جاسکے کہ اُسے بھی انسانی حقوق کی پروا ہے اور وہ بھی انسانی جان کی قدر و قیمت سے واقف ہے۔ ان نمائشی اقدامات کے ساتھ ہی اسرائیلی قیادت نے دنیا کو اس بات کا یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ وہ آئندہ کسی بھی فوجی آپریشن کے دوران اُن تمام اغلاط کے اعادے سے بچنے کی کوشش کرے گی جن کا گولڈ اسٹون رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔

اسرائیل کے اخبار روزنامہ ہارتیز نے ابتدا میں گولڈ اسٹون رپورٹ کو سراہا تھا۔ جب اسرائیلی قیادت نے کچھ نرمی دکھائی اور دنیا کو اپنی اداکاری سے رِجھانے کی کوشش کی تو ہارتیز کے ادارتی عملے نے بھی اپنی راہ بدلی اور اپنے آپ کو تنقید کا نشانہ بنانے سے متعلق اسرائیلی قیادت کی ’’خوبی‘‘ کو سراہا۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع ایہود بارک نے نہایت اعتماد کے ساتھ دعویٰ کیا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ کی باقیات کو ٹھکانے لگانے میں اُن کا کردار غیر معمولی رہا ہے۔ واشنگٹن کی طرف سے اشارہ ملنے پر اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مُون نے بھی بنیادی حقوق کی پاس داری کے حوالے سے اسرائیل کی کمٹمنٹ اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کو سراہا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس نام نہاد تحقیقات کے نتیجے میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکا تھا۔ اسرائیلی قیادت نے انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپریشن کاسٹ لیڈ کے کمانڈر کو اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ کے منصب پر ترقی دے دی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی قیادت کو بنیادی حقوق کے حوالے سے عالمی برادری کے تصورات کی کتنی پروا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے گولڈ اسٹون رپورٹ کی بنیاد پر ہر طرح کے اقدامات کو مؤخر کرنے کی روش پر اپنا سفر جاری رکھا اور دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو اپنی موت آپ مرنے اور اقوامِ متحدہ کی بیورو کریسی میں گلنے سڑنے دیا۔ ستمبر 2010ء میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی منظور کردہ ایک قرارداد میں اپنی متعلقہ کمیٹی پر زور دیا گیا تھا کہ وہ غیر جانب دار ماہرین کے ذریعے گولڈ اسٹون رپورٹ پر پیش رفت کا جائزہ لے۔ پیش رفت سے متعلق رپورٹ مارچ2011ء میں کونسل کے سولہویں سالانہ سیشن میں رکھی جانے والی تھی۔ فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک نے اس معاملے میں پیچھے رہنا گوارا کیا جبکہ امریکہ نے کہا کہ اسرائیل غیر جانب دار تحقیقات کراسکتا ہے، اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لے سکتا ہے اس لیے اقوامِ متحدہ سمیت کسی بھی بین الاقوامی یا عالمی ادارے کے ذریعے غیر جانب دارانہ تحقیقات کی سِرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے فلسطینی گروپوں نے فلسطینی اتھارٹی کو خاموش رہنے اور اسرائیلی مظالم کے حوالے سے کچھ بھی نہ کہنے اور نہ کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی قرارداد کو انصاف یقینی بنانے کے حوالے سے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں اسرائیل کے خلاف بھرپور کارروائی کی بات سے گریز کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی نے کہا کہ یہ سب کچھ آپریشن کاسٹ لیڈ کا نشانہ بننے والوں کے خون سے غداری ہے اور انسانی حقوق کونسل پر لازم ہے کہ معاملات کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے سپرد کرے۔ حد یہ ہے کہ ہیومن رائٹس واچ کے ایک نمائندے کو کہنا پڑا کہ انسانی حقوق کونسل کی قرارداد پیچھے کی طرف لیا گیا قدم ہے اور اِس کے ذریعے گولڈ اسٹون رپورٹ کی سُست رفتار موت کا ڈول ڈالا گیا ہے۔

گولڈ اسٹون رپورٹ کو بالکل غلط قرار دینے یا پھر اِسے بہت حد تک غیر مؤثر کرنے کے لیے اسرائیل نے اپنی ریاستی اور معاشرتی قوت کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانے کی کوشش کی اور بیرونِ ملک یہودی لابیوں کے ذریعے بھی معاملات کو اپنے حق میں کرنے کی سازش سے باز نہ آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل نے گولڈ اسٹون رپورٹ کو غیر مؤثر کرنے میں ایک خاص حد تک کامیابی حاصل کرہی لی، تاہم مجموعی طور پر وہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوگیا۔ اُس کی افواج کی مجرمانہ طرزِ فکر و عمل کے حوالے سے شواہد جمع ہوتے گئے اور اُس کی اخلاقی حیثیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ پوری دنیا میں گولڈ اسٹون رپورٹ کی پوزیشن اِتنی مضبوط تھی کہ اسرائیلی حکومت میں اس رپورٹ کے خلاف فُل اسکیل جنگ چھیڑنے کی ہمت پیدا نہ ہوسکی۔ اس رپورٹ نے اسرائیل کو کس قدر پریشان کیا اِس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اسرائیلی کالم نگار نے لکھا کہ اشاعت کے ایک سال بعد بھی گولڈ اسٹون رپورٹ اسرائیلی حکومت کے لیے دردِ سر بننے والے معاملات کی بیسٹ سیلر لِسٹ میں پہلے نمبر پر ہے!

اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جو کچھ بھی اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھا ہے وہ سُلوک کسی بھی اعتبار سے ایسا نہیں کہ اُس کے ارتکاب کو معاف کیا جاسکے۔ اسرائیل نے عشروں سے فلسطینیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ فلسطینی علاقوں کی معاشی اور اسٹرے ٹیجک ناکہ بندی کے ذریعے لاکھوں افراد کے لیے زندگی کو سر بہ سر عذاب کی شکل دی گئی ہے۔ عام فلسطینی کی زندگی میں کچھ بھی نہیں بچا۔ وہ محصور رہنے کے نتیجے میں نفسی طور پر خاصا کمزور ہوچکا ہے۔ اُس کے لیے روشن مستقبل جیسی کوئی چیز باقی نہیں بچی۔ وہ حالات کی خرابیوں کا شکار رہتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے جو کچھ بھی اب تک فلسطینیوں کے خلاف کیا ہے وہ جنگی جرائم کے کسی بھی ٹریبونل اور کسی بھی عدالت کے ذریعے اسرائیلی فوج کو سنگین سزا دلانے کے لیے کافی ہے، مگر اب تک ایسا کچھ ہو نہیں پایا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کی حکومتیں اور اِن دونوں خطوں میں موجود یہودی لابیاں اپنا کھیل کھیلتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ آپریشن کاسٹ لیڈ کے دوران اسرائیلی فوج نے جو کچھ بھی کیا وہ کسی بھی اعتبار سے اس قابل نہ تھا کہ نظرانداز کردیا جاتا اور اسرائیلی فوجیوں کو سزا نہ جاتی، مگر ہم نے دیکھا کہ عالمی برادری نے اس پورے معاملے کو تمام اصولوں اور قواعد و ضوابط سے بالاتر رکھتے ہوئے اسرائیل کے خلاف کچھ بھی کرنے سے واضح طور پر دریغ کیا۔

امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کو پروان چڑھانے اور ہر طرح کے احتساب سے بالا رکھنے کے حوالے سے انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیلی فوجیوں نے بیسیوں مواقع پر فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں مگر اس حوالے سے عالمی برادری کا کردار شرم ناک رہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عالمی فیصلہ ساز اداروں پر امریکہ اور یورپ حاوی ہیں۔ ان دو خطوں نے باقی دنیا کو اپنے شکنجے میں کَسا ہوا ہے۔ مسلم دنیا بالخصوص ان کے نشانے پر ہے۔ مسلم ممالک کی کہیں بھی شُنوائی نہیں۔ اگر کوئی مسلم ملک اسرائیل کے مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے تو امریکہ اور یورپ مل کر اُس کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ اپنی اسٹرے ٹیجک برتری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے قائدین اسرائیل کے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز دبا دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ سات عشروں سے جاری ہے۔ اسرائیلی حکومت نے ابتدا ہی سے فلسطینیوں کو معقول زندگی بسر کرنے کے حق سے مکمل طور پر محروم کررکھا ہے اور عالمی برادری محض تماشا دیکھ رہی ہے۔

یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہاں، اس حوالے سے مسلم دنیا کا کردار اب تک نیم دلانہ یا بُزدلانہ رہا ہے۔ اگر مسلم ملک مل کر امریکہ اور یورپ پر دباؤ ڈالیں تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ اسرائیل نواز امریکی اور یورپی کاروباری اداروں کی مصنوعات کے بائیکاٹ سے بہت کچھ درست ہوسکتا ہے۔ یہ ایک کارگر ہتھیار ہے۔ اس ہتھیار کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

رچرڈ گولڈ اسٹون کی مرتب کی ہوئی رپورٹ کی روشنی میں اسرائیلی فوج کی طرزِ فکر و عمل کا جائزہ لیا جائے تو وہ کسی بھی اعتبار سے معافی کے لائق نہیں ٹھیرتی۔ پھر بھی کچھ نہیں کیا جارہا۔ اس کے لیے امریکہ اور یورپ کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک بھی ذمہ دار ٹھہیرائے جانے چاہئیں۔ اُن کی بزدلانہ خاموشی نے بنتے ہوئے معاملات بھی بگاڑے ہیں۔ مسلم ممالک کم نہیں، اگر وہ معاشی معاملات میں امریکہ اور یورپ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت کریں تو اسرائیل جیسے ممالک کے لیے مظالم ڈھانا ممکن نہ رہے۔

گولڈ اسٹون رپورٹ نے چند ایک معاملات میں تھوڑی سی امید پیدا کی اور حوصلہ بخشا، مگر یہ سب کچھ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ اگر اس رپورٹ کے اجرا کے ساتھ ہی مسلم دنیا متحد ہوکر کچھ کرنے کا سوچتی اور امریکہ و یورپ پر دباؤ ڈالتی تو اسرائیل کے خلاف عالمی اداروں میں کوئی نہ کوئی بڑی کارروائی کی جاسکتی تھی، مگر یہ سب نہ ہوسکا اور اِس کے نتیجے میں گولڈ اسٹون رپورٹ کی تاثیر مٹی میں ملتی چلی گئی۔ کسی بھی خطے یا ملک میں قتلِ عام کے حوالے سے جب کوئی تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوتی ہے تب فریقین کا متحرک ہوجانا لازم ہوتا ہے۔ فلسطین کے معاملے میں مسلم ممالک فریق بن سکتے تھے۔ اگر تمام مسلم ممالک آگے نہ بڑھتے تب بھی عرب لیگ ہی چند قدم آگے بڑھ کر بہت کچھ کرسکتی تھی، امریکہ اور یورپ سے کھل کر بات کی جاسکتی تھی اور فلسطینیوں کا جینا حرام کرنے کا سلسلہ کچھ دیر تک تو روکا ہی جاسکتا تھا۔