یہ اطلاع بہت زیادہ رنج و الم کا باعث بنی کہ لاہور کے جناب سجاد الٰہی کا آج صبح انتقال ہوگیا- ان کی طبیعت فجر کے وقت خراب ہوئی- اسپتال لے جائے گئے- شوگر لیول کچھ زیادہ تھا- سانس ذرا اکھڑنے لگی تو اکسیجن لگادی گئی، لیکن تھوڑی ہی دیر میں روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی- انا للہ و انا الیہ راجعون-
سجاد الٰہی صاحب ہمیں ان کے والد سے ورثے میں ملے تھے- حافظ رحمت الٰہی علم دوست شخصیت کے مالک تھے۔ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کی مطبوعات اور اس کا ترجمان مجلہ سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی منگوایا کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کام ان کے خلفِ رشید انجام دینے لگے۔ معلوم ہوا کہ وہ ہندوستان کے اور بھی بہت سے رسائل منگواتے ہیں۔ میں انہیں ہندوپاک کے درمیان ”ثقافتی سفیر“ کہا کرتا تھا۔ انھوں نے بڑے پیمانے پر ادارے کی کتابیں منگوائیں، جس کے نتیجے میں وہ کتابیں شائقین تک پہنچیں، بعض پورٹلز پر اپ لوڈ ہوئیں اور بعض پاکستانی ناشرین نے بھی چھاپیں۔ دھیرے دھیرے وہ تحقیقاتِ اسلامی کے سو سے زائد شمارے منگوانے لگے تھے۔ وہ ایک بڑے تاجر تھے۔ ہارڈ وِیَر کا ان کا کاروبار تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے دریافت کیا: ”آپ پورے پاکستان میں تحقیقاتِ اسلامی کیسے تقسیم کرتے ہیں؟“ کہنے لگے: ”مجھے کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ دکان پر رکھے رہتے ہیں۔ وہیں سے لوگ خود لے جاتے ہیں۔“
2011ء میں اسلام آباد کا سفر بہت زیادہ یادگار تھا۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں ”موجودہ دور میں سیرت نگاری کے جدید رجحانات“ کے مرکزی عنوان پر عالمی سیمینار تھا۔ ہندوستان سے 8 اصحابِ علم شریک ہوئے تھے۔ واپسی براستہ لاہور تھی۔ ہم لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو متعدد احباب ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان میں سجاد الٰہی صاحب بھی تھے۔ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی۔ لاہور سے دہلی کی فلائٹ دو تین گھنٹے کے بعد تھی۔ اس دوران ہم لوگ ایئرپورٹ کے ایک کیفے میں بیٹھے، ناشتا ہوا، پھر چائے کے کئی دَور چلے اور ڈھیروں باتیں ہوئیں۔ یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ سجاد الٰہی صاحب صرف کتابوں کے سپلائر ہی نہ تھے، بلکہ بہت وسیع مطالعے کے مالک تھے۔ علمی موضوعات پر بہت گہرائی سے بات کرتے اور اصحابِ تصانیف کے حوالے دیتے تھے۔ ان سے گفتگو کرکے اپنا غرورِ علم ٹوٹا-
اگلے برس اپنے استاد و مربّی مولانا سید جلال الدین عمری کے ساتھ پھر لاہور جانے کا موقع ملا۔ اس سفر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہائش گاہ کو ایک یادگار لائبریری میں تبدیل کیے جانے کی افتتاحی تقریب میں سجاد الٰہی صاحب سے پھر ملاقات ہوئی۔ وہ اپنے گھر لے جانے پر مُصر تھے، لیکن اس کا موقع نہ تھا۔ انھوں نے وعدہ لیا: ”آئندہ آئیں تو دو تین دن میرے لیے فارغ رکھیں، لاہور کے بڑے اصحابِ علم سے آپ کی ملاقات کراؤں گا۔“ افسوس کہ یہ وعدہ وفا نہ ہوسکا-
سجاد الٰہی صاحب نے میری کئی کتابیں پاکستان سے شائع کروائیں۔ خاص طور سے ایک کتاب کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی کی معروف کتاب ”فقہ السیرۃ النبویۃ“ کا میرا اردو ترجمہ ”سیرتِ رسولؐ: دروس و نصائح“ کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا، لیکن اس کے ذمے داروں نے مکمل ترجمے کے بجائے اس کا خلاصہ شائع کیا۔ میں نے مکمل ترجمہ سجاد صاحب کو بھیج دیا کہ اسے کسی ادارے سے چھپوا دیں۔ کچھ دنوں کے بعد انھوں نے اطلاع دی کہ اس پر پروفیسر عبدالجبار شاکر نے تقریظ لکھ دی ہے اور وہ ”نشریات“ لاہور سے طبع ہورہا ہے۔ (بعد میں مرکزی مکتبہ سے بھی مکمل ترجمے کی اشاعت ہوئی-)
سجاد صاحب کا علم دوستی کا یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہ تھا، بلکہ ان کے حلقۂ احباب میں شامل لوگوں کی طویل فہرست ہے۔ پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی کے پاکستان کے بہت سے سفر ہوئے۔ ہر سفر میں سجاد صاحب ضرور اُن سے ملاقات کرتے اور خوب تواضع کرتے۔ اب ایسے لوگ خال خال رہ گئے ہیں جو صرف اور صرف علمی بنیاد پر تعلق رکھتے ہیں اور اہلِ علم کی خوب پذیرائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے، اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین یارب العالمین!