حافظ سجاد الٰہی….. بر صغیر میں اہلِ علم کو ملانے والی ایک اہم کڑی

آج علی الصبح اس خبر نے دل اداس کردیا کہ حافظ سجاد الٰہی صاحب نے لاہور میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کا غائبانہ تعارف گزشتہ پندرہ بیس سال سے تھا، جبکہ ماہنامہ ”معارف“ اعظم گڑھ وغیرہ میں آپ کا نام پاکستان میں نمائندے کی حیثیت سے کئی سال سے نظر سے گزرتا تھا۔ اس دوران آپ سے فون پر کبھی کبھار بات بھی ہوتی رہی، اور ایک دو بار دبئی میں عمرے سے واپسی پر مختصر ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔

مرحوم سے ملاقات اور بات چیت میں ایک سادگی، اپنائیت، اخلاص اور اہلِ علم کی خدمت کی خواہش کا احساس پایا جاتا تھا،جو آپ کی عزت و احترام کو دل میں بسا لیتا تھا۔ ایک ایسے زمانے میں جب کہ دارالمصنفین جیسا ادارہ کسمپرسی کے عالم میں ہے، غیر کیا اپنوں کے لیے بھی یہ ادارہ نامانوس ہوتا جارہا ہے، اور اس کی مطبوعات کے غیر قانونی ایڈیشن چھاپ چھاپ کر ناشرین لکھ پتی بن رہے ہیں، آپ نے پاکستان میں اس ادارے کی شائع کردہ اصل مطبوعات کو خرید خرید کر انہیں پاکستان کے اہلِ علم اور کتب خانوں تک پہنچانے میں ربع صدی تک محنت اور کوشش کی، اور ہم آج کہہ سکتے ہیں کہ اس ادارے کی مطبوعات اور اس کے ماہنامہ ”معارف“ کی مانگ اور تعارف پاکستان میں اپنے ملک سے زیادہ ہے۔ لیکن برا ہو ابن الوقت سیاست کا کہ گزشتہ چھے سات سال سے دو پڑوسی ملکوں میں ڈاک کا سلسلہ مکمل بند ہے، اور قدردان اہلِ علم یہاں کے علمی و تحقیقی میدان میں ترقی کی رفتار کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں۔

بات صرف دارالمصنفین کی نہیں ہے، مجلہ ”علوم القرآن“ علی گڑھ، ”تحقیقاتِ اسلامی“ علی گڑھ، ”بحث ونظر“ پٹنہ، اور ”احوال و آثار“ کاندھلہ اور ان جیسے مجلات جن سے عموماً ہمارے علمی و دینی حلقے بھی غیر متعارف رہتے ہیں، انہیں اور ان کے ناشرین کی کتابوں کو آپ نے یونیورسٹیوں، کالجوں اور کتب خانوں کی میزوں تک پہنچانے میں انتھک محنت کی۔ آج ان کی رحلت پر محسوس ہوتا ہے کہ برصغیر کے علمی و تحقیقی حلقوں کے درمیان ایک پُل ٹوٹ گیا ہے، اور کوئی یہ مشن لے کر آگے بڑھے اس کے آثار کم ہی نظر آرہے ہیں۔

ہمارے جن دانش وران اور مصنفین نے اس دوران پڑوسی ملک کا سفر کیا ہے، اُن کا کہنا ہے کہ مرحوم ان کے لیے فرشِ راہ بنے رہتے تھے، اور ان کی خاطر داری میں کوئی کسر نہیں رکھتے تھے۔

مرحوم نے پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں گریجویشن کیا تھا، جس کے بعد وہ اپنے والدِ ماجد کے سریوں اور لوہے کے کاروبار سے وابستہ ہوگئے، والد کے انتقال کے بعد آپ نے اپنے چار بھائیوں کی رفاقت اور باہمی افہام و تفہیم سے اس کاروبار کو چارچاند لگادیے، اپنے بچوں کو اعلیٰ عصری تعلیم دلوائی۔ اس مادی پس منظر کے باوجود آپ کتابوں سے محبت اور ذوقِ مطالعہ رکھنے والے طلبہ اور اہلِ علم کی خدمت کے لیے پہچانے گئے۔

مرحوم نے تحفظات اور تعصبات سے بلند ہوکر اپنے وسائل سے دینی اداروں کی خدمت کو اپنا وتیرہ بنایا تھا، آپ کے دیگر بھائیوں نے آپ پر اعتماد کا ثبوت دیا، اور کاروبار کی جو سالانہ لاکھوں روپے زکوٰۃ بنتی تھی مستحق اداروں تک بلاتفریق پہنچانے میں آپ پر اعتماد کیا- آپ نے حاجت مندوں کی ذاتی طور پر مدد میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی- آپ کے والدِ ماجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی دین داری اور مذہب سے تعلق کی وراثت اپنے بچوں کے لیے چھوڑی۔

ہندوستانی مجلات کے فروغ کے شوق کے بارے میں آپ کے انتہائی قریبی دوست ڈاکٹر سجاد چترالوی (اسلامی یونیورسٹی۔ اسلام آباد) بتاتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں انہیں قاضی اطہر مبارک پوریؒ اور الحاج محی الدین منیریؒ کی ادارت میں جاری ماہنامہ ”البلاغ“ بمبئی میں شائع شدہ دارالارقم پر ایک تحریر کی ضرورت پیش آئی، انہوں نے اس کے لیے ادارہ ثقافت، پنجاب یونیورسٹی لاہور اور کئی اہم لائبریریاں چھان ماریں، لیکن مطلوبہ مضمون نہ مل سکا، تو آپ نے سجاد الٰہی صاحب کو مشورہ دیا کہ ہندوستان کے علمی مجلات اور یہاں کی مطبوعات پاکستان کے محققین، دانش وروں اور مصنفین کے لیے فراہم کرنے کی کوشش کریں، مرحوم کو یہ بات بھا گئی، اور پھر انہوں نے ہندوستان کے علمی و تحقیقی اداروں کے مجلات اور مطبوعات کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا، اور اس کے لیے انہوں نے اپنا گھر کھول دیا۔ اللہ نے ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے بہت کچھ دے دیا تھا، انہوں نے علم کے کسی پیاسے کو محروم نہیں کیا، جو بھی ان کے یہاں علم کی پیاس لے کر آیا، انہوں نے کبھی رعایتی شرح پر اور کبھی فی سبیل اللہ اس کی پیاس بجھائی۔ اب ایسے دیوانے کہاں ملیں گے!

واقعی سجاد الٰہی کی رحلت برصغیر کے تشنگانِ علم کے لیے بہت بڑا نقصان ہے، آپ کی کمی علم وتحقیق کے متلاشیوں کو مدتوں ستایا کرے گی۔

مرحوم نے اپنی زندگی کی 62 بہاریں دیکھیں۔ ابھی رمضان المبارک میں عمرے سے لوٹے تھے، کورونا کے بعد ہی سے وہ کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے، لیکن پھر شوگر کا حملہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ اللہ ان کی بال بال مغفرت کرے، اور مرحوم نے جو خلا چھوڑا ہے، اسے بھرنے کے اسباب پیدا کرے۔ آمین