حاجی حضور بخش عمرانی مرحوم

ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے

ماضیِ بعید اور قریب میں جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد، شکارپور، سکھر، کندھ کوٹ، کشمور، لاڑکانہ، قنبر شہداد کوٹ اور سندھ سے ملحق صوبہ بلوچستان کے اضلاع کے ایسے بہت سارے مثالی تحریکی ساتھیوں اور وابستگانِ جماعت نے اس دارالفنا سے دارالبقا کی جانب دائمی رختِ سفر باندھا ہے جنہوں نے اپنی اپنی حیاتِ مستعار میں جماعت اسلامی کے لیے یادگار اور شان دار تاریخی خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان بے مثال تحریکی شخصیات کی اِس دنیا سے رخصتی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کمی اور ان کے چھوڑے ہوئے خلاء کو تحریکی حلقوں میں تاحال بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے۔ بہت زیادہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کی اِس دنیا سے منہ موڑنے والی ان مثالی شخصیات کی حیات و خدمات کو سامنے لانے میں مجھ سمیت جماعت اسلامی کے دیگر وابستگان نے بڑی کوتاہی کی ہے اور اس حوالے سے بے حد تساہل برتا ہے۔ درآں حالیکہ اس دنیائے فانی سے رخصت ہونے والی شخصیات کے دل پذیر، من موہنے اور اجلے کردار پر خامہ فرسائی کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ نژادِ نو جان سکے کہ کس طرح سے نامساعد، اعصاب شکن اور کٹھن بلکہ پُرخطر حالات میں بھی سندھ اور بلوچستان کے وابستگانِ تحریکِ اسلامی نے اپنے اپنے علاقے میں اس ننھے سے پودے کی آبیاری کی جو اس وقت ماشاء اللہ اُن کے ایثار اور قربانیوں کے نتیجے میں آج ایک تناور شجرِ سا یہ دار کی سی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں رفقائے جماعت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے اپنے اضلاع اور مقامات کی رحلت فرمانے والی مثالی تحریکی شخصیات پر خامہ فرسائی کریں۔ اِن شاء اللہ انہیں اجرِ عظیم ملے گا۔

ہفتۂ رفتہ بھی جماعت اسلامی کی دو بزرگ، ہر دل عزیز اور مثالی شخصیات نے اِس دنیائے فانی سے رختِ سفر باندھا ہے، جن کی دائمی جدائی کے صدمۂ عظیم کو نہ صرف تحریکی حلقوں بلکہ عوامی سطح پر بھی باقاعدہ طور پر محسوس کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک شخصیت حاجی حضور بخش عمرانی مرحوم ہیں۔

مرحوم حاجی صاحب بڑی دبنگ اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ بظاہر سخت گیر لیکن درحقیقت بے حد نرم خو، ملنسار اور بااخلاق۔ حاجی حضوربخش مرحوم بھاری ڈیل ڈول کے حامل تھے، اس پر ان کا اندازِ گفتگو بہت پُراثر اور متاثر کن تھا، جس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں ایک طرح سے چار چاند لگ گئے تھے۔ معروف ماہرِ تعلیم پروفیسر حبیب اللہ بجارانی کے مطابق (جنہوں نے مرحوم کے ساتھ خاصا وقت بِتایا) حاجی حضوربخش عمرانی مرحوم کا آبائی تعلق تمبو ضلع جعفرآباد بلوچستان سے تھا۔ اوائل جوانی میں انہوں نے میراں پور تعلقہ گڑھی خیرو جیکب آباد میں پرچون کی ایک دکان کھولی اور ساتھ ہی ایک دوسرا ذاتی کاروبار کرنے کا بھی سلسلہ شروع کردیا، اور وہ یہ کہ مرحوم دیسی گھی خرید کر اسے کوئٹہ لے جا کر فروخت کیا کرتے تھے۔ حاجی حضور بخش مرحوم نے چند برس کے بعد کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جیکب آباد کے قریب آباد نامی گوٹھ کے قریب تقریباً 4 سو ایکڑ زرعی زمین بھی خرید لی۔ اس کے علاوہ انہوں نے جیکب آباد شہر میں کپڑے کی دکان بھی کھول لی اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کاروباری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جیکب آباد شہر ہی میں بہت ساری دکانیں اور گھر بھی خرید لیے۔ شنید ہے کہ انہیں کرائے کی مد میں بھی ماہانہ معقول یافت ہوا کرتی تھی۔ حاجی صاحب مرحوم اوائل عمری ہی سے بے حد دین دار، نیک صورت، نیک سیرت اور پابندِ صوم و صلوٰۃ تو تھے ہی، اس پر مستزاد ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ لاہور سمیت سید مودودیؒ کی کتب کے مطالعے اور دیگر تحریکی لٹریچر پڑھنے سے ان کی فکر اور نظر کو مزید جِلا ملی اور وہ ایک طرح سے سید مودودیؒ کی شخصیت، دعوت اور افکار کے باقاعدہ طور پر معتقد اور اسیر سے بن کر رہ گئے، جس کی وجہ سے وہ بارہا اپنے روحانی مرشد اور نظریاتی رہنما سید مودودیؒ سے بہ غرضِ ملاقات لاہور بھی گئے۔ مرحوم خود برملا اس امر کا اعتراف بھی کیا کرتے تھے کہ ان میں ذہنی بالیدگی، مقصدِ حیات اور نظریاتی پختگی سید مودودیؒ اور تحریکی لٹریچر کے مطالعے سے پیدا ہوئی ہے۔ حاجی صاحب مرحوم مطالعۂ کتب کے شیدائی تھے اور تمام تحریکی رسائل و جرائد اور اخبار بہ شمول ہفت روزہ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ کراچی خرید کر پڑھا کرتے تھے بلکہ ان کی آمد کے منتظر رہا کرتے تھے۔ انہیں بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث بھی زبانی یاد تھیں۔ دورانِ گفتگو قرآنی تعلیمات، آیات اور احادیث کا برمحل حوالہ بھی دیا کرتے تھے جو ان کے وسیع المطالعہ ہونے پر دال تھا۔ تمام تحریکی امرائے جماعت سے والہانہ محبت کیا کرتے تھے اور ان کا ذکر بڑی عقیدت اور احترام سے کرتے تھے۔ جب بھی جیکب آباد آنا ہوتا، میں نے یہ مشاہدہ کیا کہ گزشتہ ایام کے روزنامہ ’’جسارت‘‘ اور تحریکی رسائل اور جرائد تک تلاش کرکے پڑھتے اور انہیں خرید کر ان کی قیمت ادا کیا کرتے تھے۔ جیکب آباد آمد پر اپنا قیام دفتر جماعت اسلامی کے مہمان خانے میں رکھا کرتے اور بہ بقول پروفیسرحبیب اللہ بجارانی اکثر مجھے، شہید عبدالحفیظ بجارانی اور حافظ عبدالغنی بلوچ کو پھر کسی مد میں کوئی رقم خرچ کرنے نہ دیا کرتے تھے۔ سید مودودیؒ کی خدمات کے دل سے قائل تھے اور ان کے شیدائی اتنے زیادہ تھے کہ اپنے جملہ صاحب زادوں کے نام نامی بھی مثلاً عمر فاروق، حیدر فاروق، حسن اور حسین فاروق انہی کے صاحبزادگان کے اسمائے گرامی کی مناسبت سے رکھے۔ جماعت اسلامی کے پروگراموں میں اہتمام کے ساتھ شرکت کرنے کی کوشش اور تیاری کرتے تھے۔ شاید ہی جماعت کا کوئی اجتماعِ عام ایسا ہوگا جس میں انہوں نے شرکت نہ کی ہو۔ ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ جب سید مودودیؒ جیکب آباد آئے تھے تو انہوں نے رات کو اُن کی قیام گاہ کے باہر پہرہ بھی دیا تھا۔ بے حد صاحبِ خیر اور فیاض طبیعت کے حامل تھے۔ عام افراد جو ضرورت مند ہوا کرتے تھے ان کی حتی المقدور مدد کرنے میں پیش پیش رہا کرتے تھے۔ جماعت اسلامی کے مدارس، مساجد اور تعلیمی اداروں کی بھی دل کھول کر مالی مدد کیا کرتے تھے۔ راقم کو جماعت اسلامی جیکب آباد کے زیراہتمام مضافات میں قائم ایک مسجد اور مدرسے کے مرحوم مدرس اور مہتمم نے بتایا تھا کہ آج سے تقریباً 25 برس قبل جب انہوں نے زیر تعمیر مدرسہ اور مسجد کے لیے حاجی حضور بخش عمرانی مرحوم سے گزارش کی تو انہوں نے بلا توقف ایک لاکھ روپے عنایت فرما دیے۔ یاد رہے کہ اُس وقت روپے کی توقیر اور قدر و قیمت آج کے مقابلے میں بہت زیادہ اور کئی گنا بڑھ کر تھی۔ جہادِ کشمیر کے لیے بھی خاصی مالی اعانت کرنے کے ساتھ ساتھ 100 من اناج بھی باقاعدگی سے دیا کرتے تھے۔ جہادِ افغانستان میں بھی جانی اور مالی ہر دو انداز سے شرکت کی اور 100 من چاول بھی علیحدہ سے بہ طور امداد بھیجتے رہے۔ جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما احمد نور مغل سابق امیر ضلع جیکب آباد اور رکن مرکزی شوریٰ سے ان کا بڑا یارانہ تھا اور ان کی ایمان داری، دیانت داری کے حاجی صاحب موصوف بے حد قائل اور معترف تھے۔ جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد کے پرانے مرحوم تحریکی ساتھی جماعت کی دعوت دینے کے لیے سفری صعوبتیں برداشت کرکے سندھ اور بلوچستان کے دور افتادہ مقامات تک ماضی میں بڑی باقاعدگی سے پورے اخلاص اور عزم کے ساتھ جایا کرتے تھے جن میں احمد نور مغل مرحوم بھی پیش پیش تھے۔ انہی کی دعوت اور اخلاصِ نیت نے حاجی صاحب مرحوم سمیت اَن گنت افراد کا دل موہ لیا اور وہ جماعت کے قریب آگئے، اور پھر خود ہی تحریک کے داعی، رفیق، دم ساز، ہمدرد، یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بالآخر مربی بن گئے۔ حاجی صاحب مرحوم تادم حیات جماعت اسلامی سے دلی طور پر دامے، درمے، قدمے اور سخنے وابستہ رہنے کے باوصف محض اس لیے رکن نہیں بنے کہ وہ خود کو معیارِ رکنیت کے مطابق نہیں سمجھتے تھے۔ وہ جماعت سے وابستگی کی پاداش میں بدنام زمانہ مچھ جیل میں بھی اسیر رہے۔ گمان غالب ہے کہ وہ 1995ء میں تحریک کے قریب آئے اور تادمِ حیات اس سے وابستہ رہے۔ جماعت اسلامی ضلع جیکب آباد کے رہنما حافظ عبدالغنی بلوچ نے راقم کو بتایا کہ حاجی صاحب اپنے عشر اور زکوٰۃ کی رقم بڑی باقاعدگی سے ضرورت مندوں، مساجد اور مدارس کے لیے بھجوایا کرتے تھے۔ حاجی صاحب سندھ اور بلوچستان کے بڑے زمیندار تھے لیکن عجز اور انکسار کا پیکر تھے۔ اپنے ہاریوں اور اُن کے اہلِ خانہ کی بیماری، شادی غمی وغیرہ کے اخراجات بھی برداشت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بہت ساری مساجد اور مدارس کی تعمیر میں حصہ لیا اور مالی معاونت کی۔ جماعت اور جمعیت کے ساتھیوں سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ بقول حافظ عبدالغنی بلوچ جنہوں نے مرحوم کی تمبو بلوچستان میں نمازِ جنازہ بھی پڑھائی ’’ہمیشہ مجھ سے ہی اپنے ہاریوں کا حساب کتاب کروایا کرتے تھے اور ان کے ذمے جو قرض تھا اسے معاف کردیا کرتے تھے‘‘۔ حاجی صاحب دفاترِ جماعت کے مہمان خانوں میں قیام کرتے تو بعدازاں زرِتعاون ادا کرتے تاکہ ان کا قیام جماعت پر بار ثابت نہ ہو۔ وفات سے قبل کچھ عرصہ فالج میں مبتلا رہے اور بالآخر 7 جون 2024ء کو کراچی کے ایک نجی اسپتال میں تقریباً 93 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ رہے نام اللہ کا۔ مرحوم کی نماز جنازہ تمبو بلوچستان میں ادا کی گئی جس میں ہر طبقۂ فکر سے وابستہ افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔