یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
جدید دور میں سائنس کی گوناگوں ایجادات میں صرف برائیاں ہی نہیں بلکہ خوبیاں بھی ہیں۔ زندگی کے ہر پہلو میں بہت سے معاملات میں آسانیاں سامنے آرہی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ سائنس کی بہت سی ایجادات اور ہماری طرزِ زندگی کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے، لیکن مجموعی طور پر انسان کی زندگی آسان ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر صرف طباعت کی دُنیا کا اندازہ کیا جائے تو کمپیوٹر کے نئے طرزِ کتابت، تیز رفتار پرنٹنگ، طباعت، جلدسازی کے مہینوں میں انجام پانے والے کام چند گھنٹوں میں ہوتے نظر آتے ہیں۔
تحقیق کے حوالے سے دیکھیے تو کسی عنوان یا موضوع کے انتخاب کے بعد اس پر سابقہ شائع شدہ مواد تلاش کرنا ناممکن نہیں تو بہت مشکل تھا، لیکن کتابیات اور اشاریہ سازی کے فن کی وجہ سے یہ کام بھی آسان سے آسان تر ہورہا ہے۔ تحقیق کی دُنیا میں اشاریہ یا کتابیات کی حیثیت ایک بنیادی اکائی کی ہے۔ خاص طور پر رسائل و جرائد سے استفادے کے لیے اگر متعلقہ رسالے کا اشاریہ بنا ہو تو استفادہ آسان تر ہوتا ہے، بصورتِ دیگر متعلقہ رسالے کے سالوں پر محیط شائع شدہ شماروں کے ہزاروں صفحات سے متعلقہ مواد تلاش کرنا نہایت مشکل اَمر ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اشاریے ترتیب دیے جاتے ہیں۔
اشاریہ سازی اور کتابیات کا فن بہت زیادہ قدیم ہے۔ رسائل و جرائد اتنی زیادہ تعداد میں شائع ہوتے رہے ہیں، جن کی گنتی کرنا بھی ناممکنات میں سے ہے۔ ایک رسالہ جس کی علمی حیثیت واضح ہو اور اُس کو شائع ہوتے ہوئے 30، 40 برس یا اس سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہو تو اُس کے مشمولات سے استفادہ کرنا بھی نہایت مشکل ہوتا ہے۔ اس مشکل کو آسان کرنے کے لیے ان کے اشاریے مرتب ہونا شروع ہوگئے ہیں، جس سے اہلِ علم و قلم کے بہت سارے مسائل حل ہوجاتے ہیں۔
اشاریہ سازی کی جتنی تعریفیں بھی لکھی گئیں اُن میں سب سے آسان تعریف یہ بنتی ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں اُس سے استفادہ کرنے کے لیے ایک منظم طریقہ کار۔ ربّ العزت کی بنائی ہوئی ساری کائنات ایک منظم انداز اور ایک نظم کے تحت چل رہی ہے۔ کوئی خاص ترتیب جس سے متعلقہ کام آسان سے آسان ہوجائے وہ اشاریہ ہی کہلا سکتا ہے۔
کتب اور لائبریری کی دنیا میں شعبہ لائبریری سائنس میں اس کو باقاعدہ اشاریہ سازی کا نام دیا گیا ہے۔ وطنِ عزیز پاکستان میں اس فن کے حوالے سے جن لوگوں نے اپنی تحقیق پیش کی ہے ان میں ڈاکٹر سیّد معین الرحمٰن، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر سفیر اختر، ڈاکٹر حافظ محمد سجاد، ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، حسین صحرائی، ڈاکٹر سعید الرحمٰن اور محمد شاہد حنیف MLIS وغیرہ کے نامِ نامی نظر آتے ہیں۔
درج بالا فہرست میں آخرالذکر نام محمد شاہد حنیف نے اس فن میں جو کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں وہ اہلِ علم و تحقیق کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے خدائے بزرگ و برتر کی عطا کردہ صلاحیتوں سے پاک و ہند کے نمایاں علمی و تحقیقی رسائل جن میں ترجمان القرآن، محدث، الحق، اقبال ریویو، اقبالیات، پرکھ، صریر خامہ، نقیب ختمِ نبوت، مجلہ تحقیق، حکمتِ قرآن، علومِ اسلامیہ، علوم القرآن، صحیفہ، معاصر، پیغامِ آشنا، حرمین، لولاک، الثقافۃ الاسلامیہ وغیرہ شامل ہیں، کے اشاریے تیار کرکے اہلِ علم وفن کے لیے آسانیاں فراہم کردی ہیں۔ دیگر اشاریہ سازوں کی بہ نسبت انھوں نے جن رسالوں کے اشاریے مرتب کیے ہیں وہ مقدار اور معیار میں بہت زیادہ ہونے کے علاوہ حسنِ ترتیب میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
اہلِ تحقیق، محمد شاہد حنیف کو ’’حیرت انگیز اشاریہ ساز‘‘ کے نام سے معنون کرتے نظر آتے ہیں۔ ساٹھ سے زائد رسائل کے ہزاروں شماروں میں سے شائع ہونے والی نگارشات کو احسن انداز میں ترتیب دے کر اشاریہ مرتب کرنا بلاشبہ خاص نعمتِ الٰہیہ ہی ہے۔ ایک رسالے کا اشاریہ تیار کرنے سے قبل متعلقہ رسالے کے شمارے تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے، اُس کے بعد اس میں شائع شدہ مواد کو شمارہ وار، مصنف وار اور موضوع وار تفصیلی اشاریہ کی شکل دینا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ لیکن فاضل مرتب ان مشکلات اور بہت سے متعلقہ اداروں کی ناقدری کے باوجود بفضلِ تعالیٰ اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
محمد شاہد حنیف نے جہاں بہت سے قدیم رسائل و جرائد کے اشاریے مرتب کیے ہیں وہاں ان تمام ’’اشاریوں کا اشاریہ‘‘ ایک ایسی شکل میں پیش کیا ہے جو کہ اُن کا ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ اُنھوں نے پاک و ہند کے 54 نامور اسلامی، تحقیقی اور ادبی رسائل کا مشترکہ اشاریہ ’’اسلامی، علمی اور تحقیقی رسائل کے اشاریوں کا انسائیکلوپیڈیا‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا میں برصغیر پاک و ہند کے قدیم رسائل جن میں اشاعۃ السنۃ، مرقع قادیانی، محدث دہلی، ترجمان القرآن، محدث لاہور، الحق، مجلہ تحقیق، تاریخ وثقافت، الشریعہ، علوم القرآن، تحقیقاتِ اسلامی، القلم، برہان، تاریخ و ثقافت، المعارف، ثقافت، الرحیم، الولی، مغرب اوراسلام، حکمتِ قرآن، المیزان، حرمین وغیرہ شامل ہیں، ان رسائل کے سات ہزار شماروں میں پندرہ ہزار سے زائد علمائے کرام، پروفیسرز اور دیگر محققین کے شائع ہونے والے ایک لاکھ کے قریب مقالات و نگارشات کو تین طرح موضوع وار، مصنف وار اور شمارہ وار شکل میں پیش کرکے دنیائے علم و تحقیق کے لیے ایک سنگ ِمیل رکھ دیا ہے۔
پندرہ ہزار سے زائد محققین و مصنّفین کی ان نگارشات کو سیکڑوں موضوعات میں تقسیم کرکے استفادہ آسان سے آسان کردیا گیا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا کے صفحات کی کُل تعداد ساڑھے بارہ ہزار ہے جن کو بیس جلدوں میں پیش کیا گیا ہے۔
اس اشاریے میں قرآنیات، علومِ حدیث و سنت، فقہ و اجتہاد، معاشرت، سیاست، معیشت، عبادات، علم الکلام، تصوف، شاعری، غالبیات، اقبالیات، سیرو سوانح، تنقید و تحقیق… الغرض بیسیوں بنیادی اور ذیلی موضوعات پر سیکڑوں مقالات کی نشاندہی کی گئی ہے تاکہ طلبائے علم و تحقیق اپنے اپنے متعلقہ موضوع پر قدیم و جدید علمی تحقیق سے بآسانی مستفید ہوکر اپنی تحقیق کو بہتر سے بہتر بناسکیں۔
محمد شاہد حنیف،اُن کی ٹیم اور متعلقہ ادارہ صد مبارک کے حق دار ہیں جنھوں نے ان قدیم علمی و تاریخی رسائل کو بازیافت کروانے کے بعد ان کے اشاریے مرتب کروا کر دُنیائے علم و تحقیق کے لیے عظیم علمی تحفہ دیا۔