بلدیاتی اداروں پر قابض سندھ حکومت اور کٹھ پتلی میئر

کراچی کی تاریخ میں ایسا صرف ایک دور دیکھا گیا جب شہر میں حقیقی ترقیاتی کام ہوئے، اور وہ دور تھا سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کا

پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب کراچی، بے شمار مسائل کا شکار ہے۔ یہاں کے مسائل میں پانی کی قلت، بجلی کی لوڈشیڈنگ، اسٹریٹ کرائمز اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ حکومت ہر سال بجٹ منظور کرتی ہے، لیکن یہ بجٹ عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں لاتا۔

حال ہی میں بلدیہ عظمیٰ کراچی نے مالی سال 2024-25ء کے لیے 49 ارب 70 کروڑ 18 لاکھ روپے کا بجٹ منظور کیا ہے۔ بجٹ میں 9 کروڑ 99 لاکھ روپے کی سرپلس رقم دکھائی گئی ہے جسے شہر کی ترقی اور بہتری کے لیے استعمال ہونا تھا۔ تاہم بجٹ کے نفاذ اور نتائج پر سوالیہ نشان بدستور قائم ہیں۔

بجٹ اجلاس کی شروعات ہی میں ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی۔ اپوزیشن اراکین نے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے سامنے احتجاج کیا، شدید نعرے بازی کی اور بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے 10 نکاتی وائٹ پیپر جاری کردیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ بجٹ صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے اور حقیقت میں کراچی کے عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔

وائٹ پیپر میں بتایا گیا کہ بجٹ کا 82 فیصد حصہ قرضوں اور گرانٹس پر مبنی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے خاطر خواہ رقم مختص نہیں کی گئی۔ کراچی کی 246 یونین کمیٹیوں کے لیے ایک بھی نئی اسکیم شامل نہیں کی گئی، اور نہ ہی منتخب چیئرمین و کونسل اراکین کے لیے ترقیاتی فنڈز مختص کیے گئے۔ اس کے علاوہ مختلف محکموں سے وصول ہونے والی آمدنی کا تخمینہ بھی انتہائی کم دکھایا گیا ہے۔

اپوزیشن کے مطابق چارجڈ پارکنگ کی مد میں سالانہ آمدنی صرف 15.9 کروڑ روپے ظاہر کی گئی ہے، جبکہ شہر بھر میں 83 پارکنگ سائٹس موجود ہیں۔ اسی طرح اشتہارات سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی کم ظاہر کی گئی ہے، حالانکہ شہر میں 106 شاہراہیں بلدیہ کے ماتحت ہیں جن پر اشتہارات لگائے جاتے ہیں۔

کے الیکٹرک سے واجبات کی وصولی میں بھی ناکامی کا ذکر کیا گیا ہے۔ کراچی میڈیکل کالج کے لیے روایتی 50 کروڑ روپے کی گرانٹ رکھی گئی ہے، جو کہ یونیورسٹی بننے کے لیے ناکافی ہے۔

سٹی کونسل میں اپوزیشن لیڈر سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی کراچی کو کچھ نہیں دیا اور نہ ہی سندھ کا احساسِ محرومی ختم کیا۔ انہوں نے کہا کہ میئر کراچی کٹھ پتلی ہیں اور بلدیاتی اداروں اور وسائل پر سندھ حکومت قابض ہے۔ بجٹ میں کراچی کے لیے کوئی ترقیاتی اسکیم نہیں رکھی گئی اور یوسیز کے لیے بھی کوئی ترقیاتی فنڈز مختص نہیں کیے گئے۔

مذکورہ صورتِ حال ایک بار پھر یہ ثابت کرتی ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے، وہ صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہتا ہے۔ عوام کو بجٹ کے ثمرات نہیں ملتے اور شہر کی حالت بدستور بگڑتی جاتی ہے۔ بجٹ منظور ہونے کے باوجود کراچی میں بہتری کے آثار نظر نہیں آتے اور یہ شہر مسائل کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ بجٹ کے صحیح استعمال کو یقینی بنائے اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے، تاکہ کراچی کے شہری بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکیں۔

ٹھیک اور درست بات تو یہ ہے کہ کراچی کو پیپلز پارٹی نے صرف نظرانداز کیا ہے، یہ شہر آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ کسی بھی شہر یا دیہات کے لیے پانی سب سے اہم چیز ہے، اور وہ شہر کے آدھے لوگوں کو ملتا ہی نہیں ہے، اور جن کو ملتا ہے وہ بھی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ شہر میں پانی کی عدم دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ شہر کے بہت سے علاقے پینے کے پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ واٹر بورڈ کے چیئرمین ہونے کے باوجود میئر کراچی پانی کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔ پانی کی قلت کے باعث شہری مہنگے داموں ٹینکر مافیا سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں، اور اس مافیا کا دھندا منظم انداز میں چل رہا ہے، کیونکہ ’’سسٹم‘‘ کے تحت سب کو اپنا حصہ مل رہا ہے۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی کراچی کے شہریوں کے لیے ایک بڑا عذاب ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے بجلی بند کردی جاتی ہے، خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، دوسری طرف رہی سہی کسر بھاری بھرکم بلوں سے پوری ہوجاتی ہے، شہرکے لوگوں کی آمدنی کا بڑا حصہ کے الیکٹرک کے پاس چلاجاتا ہے۔

شہرکراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی صورتِ حال بھی انتہائی تشویش ناک ہے۔ موبائل فون، موٹر سائیکلیں، گاڑیاں اور نقدی چھیننے کی وارداتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں، جس کے باعث شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

یہ صورتِ حال ایک بار پھر ثابت کرتی ہے کہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے وہ صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہتا ہے اور پیش کرنے والے نااہل ہیں، نتیجے کے طور پر عوام کو بجٹ کے ثمرات نہیں ملتے اور شہر کی حالت بدستور بگڑتی جاتی ہے۔

کراچی کی تاریخ میں ایسا صرف ایک دور دیکھا گیا جب شہر میں حقیقی ترقیاتی کام ہوئے، اور وہ دور تھا سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کا۔ اُن کے دور میں کراچی میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل ہوئے، جن میں انفرااسٹرکچر کی بہتری، سڑکوں کی تعمیر، پلوں کی تعمیر، پارکوں کی بحالی اور دیگر شہری سہولیات کی فراہمی شامل ہیں، جن سے شہر کی شکل و صورت میں نمایاں بہتری آئی تھی۔ آج بھی شہر کو ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے جس کے بغیر یہ شہر آگے نہیں بڑھ سکتا۔