اقبال ایک ایسے عہد میں زندہ تھے جب اکثر لوگ یہ ماننے ہی کے لیے تیار نہ تھے کہ اسلام کا کوئی سیاسی اور معاشی نظام بھی ہو سکتا ہے
برصغیر کے مسلمان سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کی فکر کے حوالے سے ایک گہرے اختلاف اور مخمصے کا شکار چلے آرہے ہیں۔ بظاہر یہ کوئی قابلِ ذکر بات نہیں کیونکہ تاریخ میں بڑی شخصیتوں کی فکر کے ساتھ اکثر یہی ہوا ہے۔ ایک طبقہ ان کی فکر کی تعبیر کچھ کرتا ہے اور دوسرا کچھ اور، لیکن سرسید اور اقبال کی فکر کا مسئلہ تعبیر کے اختلاف سے متعلق نہیں۔ جہاں تک سرسید کا تعلق ہے، ان کی فکر کے بارے میں روزِ اوّل سے دو ہی آراء موجود ہیں۔ ایک رائے سرسید کی فکر کو روشن خیالی سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی تصدیق کرتی ہے، اور دوسری فکر سرسید کے بیشتر خیالات اور روش کو مجموعی طور پر مسترد کرتی ہے۔ البتہ اقبال کے حوالے سے مسئلہ قدرے پیچیدہ ہوجاتا ہے، اس کی وجہ خود اقبال کی فکر میں مضمر ہے۔ اس مسئلے کی جانب اشارے تو پہلے بھی ہوئے ہیں لیکن سلیم احمد نے 1978ء میں شائع ہونے والی اپنی تصنیف ’’اقبال ایک شاعر‘‘ میں اس مسئلے اور اس کے مختلف پہلوئوں پر پہلی بار تفصیل کے ساتھ تناظر آمیز گفتگو کی ہے۔
سلیم احمد کی یہ خیال انگیز تصنیف ضروری اور غیر ضروری تنازعات کا سبب بنی۔ سلیم احمد نے اس کتاب میں جو بنیادی باتیں کہی ہیں، ان میں پہلی بات یہ ہے کہ اقبال کی بیک وقت کئی حیثیتیں ہیں۔ وہ حکیم الامت ہیں، سیاسی مدبر ہیں، ایک ملک کا خواب دیکھنے والے ہیں، لیکن سلیم احمد کے بقول اقبال کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ اوّل و آخر ایک شاعر ہیں اور ان کی باقی تمام حیثیتیں ثانوی ہیں۔ سلیم احمد نے سب سے ہنگامہ خیز بات یہ کہی کہ اقبال کا بنیادی مسئلہ نہ خودی ہے، نہ عشق، نہ عمل، نہ قوت و حرکت… بلکہ ان کے برعکس موت ہے۔ سلیم احمد نے ایک اور اہم بات یہ کہی کہ اقبال کی شاعری میں ظاہر ہونے والی فکر اور ان کے خطبات میں ظاہر ہونے والی فکر میں تضاد موجود ہے، کیوں کہ اقبال اپنی شاعری میں عشق کی حمایت اور عقل کے خلاف، اور خطبات میں عقل کی حمایت میں بات کرتے نظر آتے ہیں۔ سلیم احمد نے اپنے تجزیے کے اساسی نکات کی تصدیق میں مثالیں اور محکم دلائل بھی پیش کیے۔ مگرسلیم احمد کا تجزیہ اقبال کے سلسلے میں معروف خیالات سے اتنا مختلف تھا کہ اس پر ہنگامہ برپا ہوگیا، یہاں تک کہ سلیم احمد کے استاد اور ’’اقبال ایک شاعر‘‘ کا پیش لفظ لکھنے والے کرار حسین نے بھی ان کے تجزیے کے بعض نکات سے کلی اور بعض سے جزوی اختلاف کیا۔ سلیم احمد نے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ان تمام اختلافات اور اعتراضات کا جواب دیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ’’اقبال ایک شاعر‘‘ لکھتے ہوئے کسی فکری ابہام کا شکار نہ تھے اور انہوں نے جو کچھ لکھا تھا بہت غور و فکر کے بعد لکھا تھا۔
سلیم احمد کا خیال تھا کہ ’’اقبال ایک شاعر‘‘ میں ظاہر کیے گئے خیالات رفتہ رفتہ قبولیت حاصل کریں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کتاب کی اہمیت میں اضافہ ہوگا۔ ان کی رائے تھی کہ ’’اقبال ایک شاعر‘‘ ایک پودا ہے جو بالآخر ایک تناور درخت بن جائے گا۔ ایسا ہوگا یا نہیں، اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن جناب حمید نسیم نے اقبال پر جو کتاب لکھی ہے، اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ سلیم احمد نے ’’اقبال ایک شاعر‘‘ اور اس کے مستقبل کے حوالے سے جو کچھ سوچا تھا، وہ کسی خودپسندی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے بعض امکانات کے پیش نظر اور اپنے مقدمے کی اصابت کو محسوس کرتے ہوئے ایک رائے قائم کی تھی۔
حمید نسیم کی کتاب کا عنوان ’’علامہ اقبال… ہمارے عظیم شاعر‘‘ ہے، اور انہوں نے اقبال کے بارے میں جو پہلی بات زور دے کر کہی ہے، وہ یہ کہ اقبال کی عظمت کا سارا دارومدار اُن کی شاعری پر ہے۔ حمید نسیم کا خیال ہے کہ ایک بڑے شاعر کا مرتبہ حکیم الامت کے مرتبے سے بہت بلند ہے، اور انہوں نے اپنی کتاب میں اقبال کی شاعرانہ عظمت کو ثابت کیا ہے۔ حمید نسیم کی تصنیف کا کینوس سلیم احمد کی کتاب سے کہیں زیادہ وسیع ہے، لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ان کا بنیادی تھیسس بھی یہ ہے کہ اقبال کی عظمت ان کی شاعری پر منحصر ہے۔
سلیم احمد نے اقبال کا بنیادی مسئلہ موت کو قرار دیا تھا، تو اس کے سلسلے میں اقبال کی شاعری اور ان کے بعض خطوط کے حوالے بھی دیے تھے، لیکن حمید نسیم صاحب نے حمزہ فاروقی کی کتاب ’’سفرنامہ اقبال‘‘ سے اس ضمن میں ایک ایسا حوالہ پیش کیا ہے جو سلیم احمد کی کتاب میں موجود تمام حوالوں سے زیادہ اہم ہے۔ اس حوالے کے مطابق اقبال نے لندن کی انڈیا سوسائٹی کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’بے شک میرے اشعار میں مختلف مسائل سے متعلق فلسفیانہ خیالات موجود ہیں لیکن میرا کوئی منظم و مرتب فلسفہ نہیں ہے۔ البتہ فلسفے کے ایک مسئلے یعنی حیات بعدالموت کے ساتھ مجھے خاصی دل چسپی رہی ہے۔‘‘
حمید نسیم نے اقبال کی شاعری اور خطبات کی فکر میں موجود تضاد پر بھی بہ اندازِ ِدگر بات کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ علامہ اپنی شاعری میں بالعموم Anti Knowledge ہونے کا تاثر دیتے ہیں۔ بقول حمید نسیم کے، بڑے کرب سے کہنا پڑتا ہے کہ اقبال اپنی شاعری میں علم کے بارے میں اُن خیالات کا اظہار کرتے ہیں جو بالکل ایسے ہی ہیں، جو سرسید احمد خان کی جدید علوم کے حصول سے متعلق تحریک کے دوران ہمارے نیم مُلاّ کیا کرتے تھے کہ جدید علوم زندیقیت کی طرف لے جاتے ہیں۔
ایک جگہ حمید نسیم صاحب نے اقبال کی فارسی شاعری سے یہ شعر کوٹ کیا ہے:
دانش حاضر حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گر است
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ:
’’اس دعوے کی تردید علامہ نے اپنی انگریزی نثر میں بھی یہ کہہ کر کی ہے کہ علومِ حاضر اور تہذیبِ حاضر کی صرف ظاہری چمک و دمک گمراہ کن ہے (ورنہ) اپنی اصل روح میں جدید علم اسلامی روایتِ علم کا وارث ہے کہ تسخیر فطرت کے راز آشکار کرتا ہے۔‘‘
بظاہر اقبال کی شاعری اور خطبات کے مابین موجود فکری تضاد کی بات بڑی اکیڈمک اور دانش ورانہ نظر آتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ہماری ٹھوس اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے، اس کا تھوڑا سا اندازہ تو خود حمید نسیم صاحب کے ایک فقرے سے ہوجاتا ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ:
’’(علامہ اقبال کے) فنی علم (کے رجحان ) کو صرف شاعرانہ ترنگ سمجھ کر اس سے صرفِ نظر کرنا چاہیے۔‘‘
کسی زمانے میں معروف صحافی جناب ارشاد احمد حقانی نے اپنے کالموں میں ایک فکری بحث کی تھی جس کے دوران خورشید احمد ندیم صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کے سلسلے میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار کی کیا اہمیت ہے؟ اگر چہ سوال اُٹھانے والے نے واضح نہیں کیا لیکن اس بات کا مطلب یہ ہے کہ کیا ہم اپنے ان عظیم رہنمائوں کو اسلام کے سلسلے میں اتھارٹی تسلیم کریں اور ان کی آراء پر انحصار کریں، یا اس سلسلے میں اسلام کی تشریح و تعبیر کرنے والے مستند نمائندوں یا علمائے کرام سے رجوع کریں؟ ارشاد احمد حقانی نے اس سوال کا جواب یہ دیا کہ ہمیں اس سلسلے میں قائداعظم اور اقبال پر انحصار کرنا ہوگا، اور غالباً اس لیے کرنا ہو گا کہ ارشاد احمد حقانی صاحب کے بہ قول یہ دونوں رہنما اسلامی ریاست کا جو تصور رکھتے ہیں، وہ ’’تھیوکریٹک‘‘ نہیں ہے۔ یہ صرف ارشاد احمد حقانی کا مسئلہ نہیں ہے، ملک کا ایک بڑا طبقہ جسے وسیع معنوں میں حکمران طبقہ کہا جا سکتا ہے، یہی کہتا ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال ایک جدید اسلامی ریاست یا ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت کے قائل تھے۔ تھیوکریسی ایک انتہائی مبہم اصطلاح ہے اور اسے بیک وقت متضاد معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور کیا جاتا ہے، لیکن اقبال کے حوالے سے جب جدید اسلامی ریاست کی بات ہوتی ہے، تو یہ بات ہمیشہ اُن کے خطبات کی روشنی میں کہی جاتی ہے، ان کی شاعری میں موجود فکر کی روشنی میں نہیں، کیوں کہ اقبال کی شاعری بڑی حد تک روایتی مذہبی فکر کی عکاس ہے اور ہرچند کہ اقبال نے تصوف کی مخالفت کی ہے، لیکن اقبال نے جیسی شاعری کی ہے، وہ تصوف کی روایت سے کسی نہ کسی سطح پر استفادے کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اقبال کی شاعری میں رواں دواں فکر اور ان کے خطبات میں ظاہر ہونے والی فکر کا تضاد قومی اور ملّی نقطۂ نظر سے انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے، کیوں کہ اقبال کی شاعری کو ان کا اصلی فکری سرمایہ سمجھنے کے نتائج کچھ اور ہوں گے اور ان کے خطبات کی فکر سے استفادے کے نتائج کچھ اور۔
اس مختصر اور سرسری گفتگو کے پس منظر میں یہ سوال انتہائی اہم ہوجاتا ہے کہ اقبال کی فکر میں مضمر دو مختلف رجحانات اور رویوں کے اسباب کیا ہیں؟ سلیم احمد نے اس سوال کا جواب دیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ خطبات، اقبال کی اکتسابی فکر کا حاصل ہیں، جب کہ ان کی شاعری کا تعلق ان کے بطونِ ذات سے ہے اور یہ ایک وہبی فکر کا نتیجہ ہے۔ سلیم احمد کے الفاظ یہ نہیں ہیں لیکن ان کا مفہوم یہی ہے۔ سلیم احمد کا یہ جواب بڑی حد تک درست ہے، لیکن بات صرف اتنی سی ہی نہیں ہے۔ اس مسئلے کا ایک اور اہم سبب بھی ہے جس کا تعلق اقبال کے دور، اُس دور کی فضا اور اُس میں مضمر نفسیاتی محرکات سے ہے۔ اس مسئلے کو دو شعروں کے حوالے سے بیان کیا جاسکتا ہے:
یہ نظامِ مشرق بھی اک عجب معمّا ہے
سوچیے تو پورا ہے، دیکھیے تو آدھا ہے
یہ نظامِ مغرب بھی اک عجب تماشا ہے
سوچیے تو آدھا ہے، دیکھیے تو پورا ہے
پہلے شعر کے مصرعِ اولیٰ میں مشرق کی جگہ اسلام بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اُصولی اور نظری سطح پر اسلام ایک مکمل نظام اور ایک مکمل دستورِ حیات فراہم کرتا ہے ، اس تناظر میں یہ ایک مکمل ترین نظام ہے، لیکن چوں کہ یہ نظام عملی طور پر مکمل صورت میں نافذ نہیں ، اس لیے یہ نظام مکمل ہونے کے باوجود ادھورا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس مغربی دنیا کا نظام اُصولی اور نظری سطح پر خامیوں سے بھرا پڑا ہے اور اس اعتبار سے وہ آدھا ہے، لیکن چوں کہ وہ دُنیا کے اکثر ملکوں میں عملی طور پر نافذ ہے، اس لیے وہ مکمل نظر آتا ہے۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی نظام Perfect ہے لیکن قابلِ عمل نہیں۔ اس کے برعکس مغربی نظام انتہائی Imperfect ہے مگر قابلِ عمل ہے۔ اب اس بات کا اقبال سے یہ تعلق ہے کہ شاعری ان کی وہبی فکر کا حاصل ہے اور یہاں اقبال نے اسلام کو اصولی اور نظری سطح پر دیکھا، سمجھا، محسوس کیا اور بیان کیا ہے، لیکن خطبات میں انہوں نے سمجھوتے کی راہ نکالی ہے کیوں کہ اس کے بغیر انہیں اسلامی نظام کا نفاذ مشکل نظر آتا ہے۔ بے شک اقبال کا علم اور ان کی بصیرت بے مثال ہے اور ان کی فکر میں سرسید کی معذرت خواہانہ نفسیات کا شائبہ بھی نہیں ملتا، لیکن بہرحال اقبال ایک ایسے عہد میں زندہ تھے جب اکثر لوگ یہ ماننے ہی کے لیے تیار نہ تھے کہ اسلام کا کوئی سیاسی اور معاشی نظام بھی ہو سکتا ہے اور اسلام کے مجموعی نظام کے دائرے میں زندگی بھی بسر کی جاسکتی ہے۔ یہ صورتِ حال خلافت کے زوال اورملوکیت کے طویل دور کا شاخسانہ تھی، لیکن بہرحال یہ صورتِ حال موجود تھی اور اس کا دبائو بے پناہ تھا۔ چناں چہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اقبال نے عصری تقاضوں اور عملی ضرورتوں کے احساس کے تحت اپنے خطبات میں اس عقل سے استفادے کی ضرورت محسوس کی ہوگی جس کی انہوں نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ مذمت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ محض ایک تجزیہ ہے جس سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے، لیکن بہر حال یہ ہماری ایک اہم قومی اور ملّی ضرورت ہے کہ ہم سرسید اور اقبال جیسی بڑی شخصیات کی فکر کے حوالے سے پائے جانے والے مخمصے اور دو دلی کو دور کریں، ورنہ ہمارے بعض مسائل آج جتنے پیچیدہ ہیں وہ آگے چل کر مزید پیچیدہ ہو جائیں گے۔