غزہ:فوجی ناکامی اور اسرائیل کا اضطراب،لبنان اسرائیل جنگ کا خطرہ؟

غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے، جسے فنا کرنا ممکن نہیں۔ فوجی ترجمان کا اعتراف

غزہ میں عسکری ہدف کے حصول میں ناکامی پر اسرائیلی وزیراعظم اضطراب کا شکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایک نشری تقریر میں جناب نیتن یاہو نے شکوہ کیا کہ امریکہ نے اسلحے کی فراہمی روک دی ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی فوج دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کرپارہی۔ اسلحہ ملے تو ہم اپنا ہنر دکھائیں۔ “Give us the tools and we’ll finish the job”۔ تل ابیب میں اُن کی تقریر جاری ہی تھی کہ واشنگٹن میں صحافیوں کو طلب کرکے امریکی حکومت کی ترجمان محترمہ کرین جین پیئر(Karine Jean-Pierre) بولیں ’’بی بی کی بات درست نہیں۔ اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی جاری ہے، بس 2000 پونڈ کے بموں کی فراہمی معطل کی گئی ہے اور وہ بھی رفح پر حملے کے بعد‘‘۔ امریکی ترجمان کے مدافعانہ لہجے اور انداز سے صاف لگ رہاتھا کہ صدر بائیڈن خوف میں مبتلا ہیں اور انھیں ڈر ہے کہ کہیں اسرائیلی ترغیب کار (Lobbyists) ان کے خلاف مہم نہ شروع کردیں، اسی لیے صفائیاں پیش کی جارہی ہیں۔

پے درپے ناکامیوں نے وزیراعظم کے ساتھ اسرائیل کے خاندانِ اوّل میں جھنجھلاہٹ پیدا کردی ہے۔ فرزندِ اوّل یار نیتن یاہو نے انسٹا گرام پر ایک پوسٹ میں اب تک کی ناکامی کا الزام ہنگامی کابینہ سے علیحدہ ہونے والے نیشنل یونٹی پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز (فوج، خفیہ ایجنسی اور عسکری محکمہ سراغ رسانی کے سربراہ) پر دھر دیا۔ صاحب زادے کے خیال میں بینی گینٹز ’’خیالی و تصوراتی بادشاہ‘‘ ہیں۔ پوسٹ میں فوج کے سربراہ جنرل حلوی، خفیہ ایجنسی Shin Betالمعروف شاباک کے ڈائریکٹر جنرل رونن بار اور عسکری محکمہ سراغ رسانی کے قائد ہارون خلیفہ کو ’’مہلک ناکامیوں‘‘ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے پوچھا گیا ہے کہ ان مسخروں کا تقرر کس نے کیا؟ ان تینوں کی تعیناتی سابق وزرائے اعظم نیفتالی بینیٹ اور یار لیپڈ کے دور میں ہوئی تھی جب بینی گینٹز وزیر دفاع تھے۔

فراہمیِ اسلحہ پر پابندی کے رونے دھونے کے ساتھ اسرائیلی حکومت اپنی جارحیت کا دائرہ لبنان تک بڑھاکر اسے ایک علاقائی جنگ میں تبدیل کردینے کی خواہش مند ہے۔ منگل 18 جون کو شمالی کمان کے سربراہ میجر جنرل اوری گورڈِن (Ori Gordin)کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں دوسرے جرنیلوں کے علاوہ آپریشنل ڈائریکٹوریٹ کے قائد عدد بسیوک (Oded Basiuk) نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جو فوجی اعلامیہ جاری ہوا اس کے مطابق ’’اجلاس میں لبنان پر حملے کے لیے آپریشنل منصوبوں کی منظوری دی گئی اور چوٹی کے کمانڈروں نے زمین پر فورسز کی تیاری کو تیز کرنے کے بارے میں بھی فیصلے کیے۔‘‘ (حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل)

جب واشنگٹن میں صحافیوں نے اس خبر پر تبصرہ کرنے کے لیے امریکی فوج کے ترجمان جنرل پیٹرک رائیڈر سے رابطہ کیا تو جنرل صاحب نے فرمایا ’’مشرق وسطیٰ میں علاقائی جنگ کسی کے مفاد میں نہیں‘‘۔ اور اسی کے ساتھ صدر بائیڈن نے اپنے معتمد خاص ایموس ہکسٹین (Amos Hochstein) کو علاقے کے دورے پر بھیج دیا۔ 51 سالہ ایمس، توانائی کی دنیا میں ترغیب کاری سے وابستہ رہے ہیں جس کی وجہ سے خلیجی ممالک میں بہت اوپر کی سطح تک اُن کی رسائی ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی ایمس کے اسرائیلی قیادت سے بھی گہرے مراسم ہیں۔ آج کل جناب ایمس توانائی اور سرمایہ کاری کے لیے صدر بائیڈن کے مشیر ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے دھمکی کا لبنان کے مزاحمت کاروں نے اسی انداز میں جواب دیا۔ بیروت سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ لبنانی، جنگ کو طول نہیں دیا چاہتے لیکن ہم نے چوڑیاں بھی نہیں پہن رکھیں۔ حملے کی صورت میں زمین، فضا اور سمندر ہرجانب سے اسرائیل کو نشانہ بنایا جائے گا اور تل ابیب کی طرح ہم بھی کسی قانون و ضابطے کی پابندی نہیں کریں گے۔ مزاحمت کاروں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ حملے کی دھمکی دے کر اسرائیل ہمیں ڈرا رہا ہے حالانکہ ڈرنا انھیں چاہیے کہ ہماری جوابی کارروائی انھیں ریزہ ریزہ کرسکتی ہے۔ اس خبر پر کہ اسرائیلی فضائیہ حملے کے لیے یونانی قبرص کے ہوائی اڈے پر جنگی طیارے تعینات کررہی ہے، مزاحمت کاروں نے متنبہ کیا کہ قبرص زیادہ شوخیاں نہ دکھلائے، کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے ہوسکتے ہیں، اسرائیل سے گٹھ جوڑ انھیں بہت مہنگا پڑے گا۔

لبنانی مزاحمت کاروں کی دھمکی پر یونانی قبرص کے صدر Nikos Christodoulides نے فوراً ایک بیان جاری کیا کہ (یونانی) قبرص کسی علاقائی تنازعے میں فریق نہیں۔ کشیدگی کے پُرامن حل کا حصہ بننا ہماری ترجیح ہے لیکن جھگڑے میں فریق بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

امریکی نمائندے ایموس ہکسٹین سے تفصیلی ملاقات کے بعد بھی تل ابیب سے جو اشارے مل رہے ہیں ان کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے لبنان پر حملے کی منظوری دے دی ہے۔ اسے ستم ظریفی کہیے یا بے شرم سفارت کاری کہ میڈیا پر اسرائیل کو لبنان سے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے اور دوسری طرف واشنگٹن میں ملاقات کے دوران امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلینکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیون نے اسرائیل کے وزیر تزویراتی امور ران ڈرمر اور مشیر سلامتی زکی حنیگبی کو جنگ کی صورت میں امریکہ کی جانب سے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ (حوالہ CNN)

اسرائیلی فوج کا بڑا حصہ گزشتہ آٹھ ماہ سے غزہ میں برسرِ پیکار ہے جہاں فوج کا جانی و مالی نقصان بڑھتا جارہا ہے۔ پُرکشش تنخواہوں اور مراعات کے باوجود نوجوان بھرتی سے ہچکچا رہے ہیں۔ اسی بنا پر کنیسہ میں ایک مسودۂ قانون (بل) پیش کیا گیا ہے جس کے تحت ریزرو(reserve)دستوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر ایک سال بڑھادی جائے گی۔ اس تناظر میں ایک نیا محاذ کھول دینا تھکن کا شکار اسرائیلی فوج کے لیے اتنا آسان نہیں۔

امریکی وزارتِ دفاع نے بھی اسرائیل کو لبنان کے خلاف کھلی جنگ شروع نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ واشنگٹن کے عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے پاس ہزاروں راکٹ، میزائیل اور ڈرون ہیں۔ اگر بیک وقت سیکڑوں راکٹ داغ دیے گئے تو سب کو فضا میں ناکارہ بنادینا آئرن ڈوم دفاعی نظام کے لیے ممکن نہ ہوگا اور غچہ دے جانے والے راکٹ و ڈرون بڑی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے لبنان کے جاسوسی ڈرون نے حیفہ میں اسرائیل کے حساس ترین فوجی اڈے کی کامیابی سے فلمبندی کی۔ جاری ہونے والے 9 منٹ کے اس بصری تراشے میں اڈے کے اہم مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس ویڈیو کو خودساختہ یا جعلی نہیں کہا لیکن وضاحت کی کہ ہمارے ترکش میں اور بھی بہت سارے تیر ہیں جو ویڈیو میں نظر نہیں آئے۔ اگر اسرائیل کے دعوے کو درست مان لیا جائے تب بھی اتنا تو ثابت ہوگیا کہ لبنانی مزاحمت کاروں کے ہوپو (Hoopoe) ڈرون امریکہ کے مشہور زمانہ آئرن ڈوم دفاعی نظام سے مخفی رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

غزہ کی حمایت میں لبنان کے ساتھ یمن کے ایران نواز حوثی بھی سرگرمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے لائیبیریا کے پرچم بردار یونانی جہاز Tutorکو حوثیوں نے بحیرۂ احمر میں غرق کردیا۔ جہازوں کی آمدورفت پر نظر رکھنے والے برطانوی ادارےUKMTO نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ میزائیل اور ڈرون کا نشانہ بننے والا جہاز 18 جون کو ڈوب گیا۔ اس حملے میں عملے کا ایک فلپائنی کارکن بھی ہلاک ہوا۔ مال بردار جہاز پر مبینہ طور پر اسرائیل کا سامانِ تجارت لدا تھا۔ مارچ میں اسرائیل کے لیے کھاد سے لدا Belizeکا پرچم بردار برطانوی جہاز Rubynarبھی اسی مقام پر غرق ہوچکا ہے۔

اسلحہ برآمدات کے باب میں اسرائیلی میڈیا نے گزشتہ ہفتے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا جس کے مطابق متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے 2022ء میں اسرائیل سے مجموعی طور پر 3 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا جو تل ابیب سے اسلحے کی کُل برآمد کا 24 فیصد تھا۔ خریدے جانے والے سامان میں ڈرون، ٹینک شکن میزائیل اور جاسوسی کے آلات شامل ہیں۔ گزشتہ سال کے اختتام پر غزہ خونریزی کی وجہ سے 2023ء میں ان ملکوں کی خریداری کم ہوکر 3کروڑ90 لاکھ ڈالر رہ گئی۔

غزہ کے زمینی حقائق پر فوج اور حکومت کا تجزیہ بالکل مختلف ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو بار بار اپنے اس عزم کا اظہار کررہے ہیں کہ پٹی سے مستضعفین کے مکمل خاتمے کے بعد ہی جنگ بند ہوگی، اور اُن کا خیال ہے کہ اِس سال کے آخر تک یہ ہدف حاصل ہوجائے گا۔ گزشتہ ہفتے وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا کہ رفح سے مزاحمت کاروں کی نصف تعداد موت کے گھاٹ اترچکی اور سرنگوں میں قائم اسلحہ سازی کے کارخانے اور گودام تباہ کردیے گئے۔ لیکن یوم عرفہ کو تابڑ توڑ حملوں میں مزاحمت کاروں نے 11 فوجیوں کو ہلاک اور درجنوں کو شدید زخمی کرکے اس دعوے کی قلعی کھول دی۔

اس حوالے سے اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہیگاری (Daniel Hagari) کے انٹرویو نے اسرائیل میں سنسنی پیدا کردی ہے۔ عبرانی ٹی وی چینل 13 پر 20 جون کو گفتگو کرتے ہوئے شریک امیرالبحر نے کہا کہ ’’غزہ مزاحمت ایک نظریہ ہے جسے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ جو سمجھتے ہیں کہ مزاحمت جلد ختم کردی جائے گی وہ قوم کو گمراہ کررہے ہیں۔ (نظریے کی بیخ کنی کے لیے) اگر حکومت نے متبادل حکمت عملی وضع نہ کی تو مزاحمت باقی رہے گی‘‘۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فوجی قیادت نے کہا کہ میڈیا پر جناب ہیگاری کے انٹرویو کا تجزیہ سیاق و سباق سے ہٹ کر کیا جارہا ہے۔ اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ عسکری کارروائی کے ساتھ مقامی لوگوں کے تعاون سے ذہنی تطہیر کی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی تجزیہ نگار نے اس وضاحت کو سنجیدہ نہیں لیا۔ یہ بات امریکہ کے عسکری ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ مستضعفین روایتی پیشہ ور فوج نہیں بلکہ نظریاتی جماعت ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے مزاحمت کی عوام میں پذیرائی اور افرادی قوت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری طرف اسرائیل میں نیتن یاہو کے استعفے اور نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ نیتن یاہو کے استعفے کے لیے 16 سے 22 جون تک ہفتہ تعطل (Disturbance Week) منایا گیا۔ درجنوں انعام پانے والے 70 سالہ دانشور اور عبرانی زبان کے محقق و مصنف ڈیوڈ گراسمین نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے میں اسحاق رابن المعروف کریا (Kirya) فوجی اڈے کے باہر امن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک بڑی لڑائی کا سامنا ہے اور یہ جنگ اسرائیل کے گلی کوچوں میں ہوگی۔ ایک شخص ہمارے جگر گوشوں کی لاشوں پر اپنے اقتدار کا محل تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے بچے فوجی وردی پہن کر اور اسلحہ سجا کر سرحد پر نہیں جائیں گے، ہم انھیں قرطاس و قلم دے کر اسکول اور مدارس بھیجیں گے تاکہ یہ انسانیت کو قتل کرنے کے بجائے ان کی راحت کا سامان بنیں۔

گھیرائو کے دوران مشتعل مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سامنے گملوں کو آگ لگادی، بجلی کے پول گرا دیے اور گیٹ پر لگے بلب اور آرائشی قمقمے توڑ دیے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے Water Cannonسے چھوڑی جانے والی پانی کی دھار سے متعدد افراد کی آنکھوں میں شدید زخم آئے اور ایسے بہت سے مریض اب تک اسپتالوں میں ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے آٹھ ہزار ڈاکٹروں نے اسرائیلی پولیس کمشنر کو خط لکھا کہ پانی کی دھار مجمع منتشر کرنے کا صحت مندانہ طریقہ نہیں، اس سے آنکھیں ضائع ہوسکتی ہیں۔ پولیس گردی کا دفاع کرتے ہوئے برسراقتدار لیکڈ پارٹی کے رہنما نیسم وٹوری (Nessim Vaturi) نے حکومت کی مخالفت اور امن معاہدے کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کو دہشت گردوں کی بی ٹیم قراردیا۔

صدر بائیڈن کی جانب سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت سے ان کی انتظامیہ میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور وزارتِ خارجہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری(نائب وزیرخارجہ) برائے اسرائیل و فلسطینی امور اینڈریو ملر نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ملر صاحب نے استعفیٰ تو بظاہر خانگی مصروفیات کی بنا پر دیا ہے لیکن اُن کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کی غیر مشروط پشت پناہی اور غزہ نسل کُشی پر بائیڈن انتظامیہ کی بے حسی سے بہت پریشان تھے۔ واشنگٹن پوسٹ نے وزارتِ خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ جناب ملر اسرائیل کے پُرجوش حامی ہیں لیکن غزہ میں نیتن یاہو حکومت کے اقدامات کو وہ بنیادی انسانی اقدار اور اخلاقیات سے متصادم سمجھتے ہیں۔

عالمی سطح پر فلسطینی ریاست کی حمایت بڑھتی جارہی ہے۔ 4 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے برطانیہ کی لیبر پارٹی نے اپنے منشور میں ایک آزاد و خودمختار ریاست کے قیام کو فلسطینیوں کا ناقابلِ تنسیخ حق تسلیم کیا ہے۔ منشور میں فلسطینی ریاست کو اسرائیل کی طویل مدتی سلامتی کے لیے ’’ضروری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم ایک فلسطینی ریاست کو علاقے میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، یعنی محفوظ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد و خودمختار فلسطین۔ جمعہ 21 جون کو مغربی ایشیا کے ملک آرمینیا نے فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرلیا۔ وزارتِ خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کا پائیدارامن دو ریاستی حل سے وابستہ ہے۔

’ذکر جب چھڑگیا قیامت کا… بات پہنچی تری جوانی تک‘ کہ امریکی طلبہ تحریک کا ذکر کیے بغیر اہلِ غزہ کا تذکرہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ 20 جون کو نیویارک کی جامعہ کولمبیا سے گرفتار ہونے والے 46 طلبہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے ارکان کو عدالت نے پیش کیاگیا۔ یہ افراد 30 اپریل سے زیرِ حراست تھے۔ جج Kevin McGrath نے 30 افراد کے خلاف مقدمات کو ابتدائی سماعت کے بعد فوری طور پر خارج کردیا۔ ایک لڑکے کے خلاف مقدمہ سرکاری وکیل نے واپس لے لیا۔ جن باقی 15 لوگوں پر تشدد اور توڑ پھوڑ کے الزامات تھے انھیں پیشکش کی گئی کہ اگر وہ مستقبل میں نیک چال چلن کا وعدہ کریں یعنی مزید مظاہرہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت دے دیں تو ان کے خلاف مقدمات واپس لے لیے جائیں گے۔ طلبہ نے جج کے سامنے باآوازِ بلند معافی مانگنے سے انکار کردیا۔ اپنے مشترکہ تحریری بیان میں ان نوجوانوں نے کہا کہ ہم فلسطین کی آزادی اور اہلِ غزہ کے حقوق کی حمایت سے کسی قیمت پر دست بردار نہیں ہوں گے اور اپنے اس عزم و عہد کی بھاری سے بھاری قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔

………٭٭٭………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹرMasood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔