پاکستان درست سمت میں کب چلے گا؟

آج پاکستان میں ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جس سے عوام توقع کر سکتے ہوں

حکومت کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی میں کمی لانا ہے جس نے غریب عوام کا جینا مشکل کردیا ہے، مہنگائی نے غریب طبقے کے ساتھ سفید پوش متوسط طبقے کی بھی کمر توڑ دی ہے، اور اب یہ طبقہ بھی گوشت سمیت کھانے پینے کی بہت سی اشیاء خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ کچھ ماہ قبل جب مہنگائی عروج پر تھی، لوگوں کی قوتِ خرید میں واضح کمی نظر آئی۔ حال ہی میں مہنگائی پر ورلڈ بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023ء میں دنیا میں مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان ساتویں نمبر پر تھا۔

مہنگائی پر عمران خان حکومت کے خلاف پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جے یو آئی نے مہنگائی مارچ کیے تھے، اُس وقت پیٹرول کے فی لیٹر نرخ ڈیڑھ سو روپے تھے، آج یہی نرخ 259 روپے فی لیٹر ہیں، لہٰذا اگر حکومت کو مہنگائی ختم کرنی ہے تو پھر پیٹرولیم نرخ ڈیڑھ سو روپے فی لیٹر سے کم کرنا ہوں گے، اسی نرخ کے خلاف پی ڈی ایم نے مہنگائی مارچ کیے تھے۔

سرکاری دستاویزات بتاتی ہیں کہ2021-22ء سے اب تک 59 فیصد کے مجموعی اونچے افراطِ زر اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 69 فیصد اضافے سے لوگوں کے حالات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 10 فیصد تک بڑھ گئی ہے، جب کہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 17.5 فیصد ہوگئی ہے۔ آج پاکستان میں 103 ملین سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

اس وقت ملک کی صورتِ حال اچھی نہیں ہے، عملی طور پر ہم دیوالیہ ہیں۔ عشروں سے ہم یہ سنتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کو آج جن سنگین اور حساس نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی تھی۔ موجودہ بحران گزشتہ دہائیوں کی بیڈ گورننس کا نتیجہ ہے۔ ایک قابلِ اعتماد سروے کے مطابق 82 فیصد پاکستانیوں کی رائے ہے کہ پاکستان درست سمت میں نہیں چل رہا۔ پاکستان کے محنت کش عوام خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے ماضی میں پاکستان کے ہر نوعیت کے بحران کا مستقل مزاجی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ماضی کی مختلف حکومتوں نے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قیادت کا بحران ہے، بدقسمتی سے آج ملک میں ایک بھی ایسا لیڈر نہیں ہے جس سے عوام توقع کرسکتے ہوں۔ پاکستان میں 24 ویں بار آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق قومی بجٹ بنایا گیا ہے، اس سے ترقی اور خوشحالی کی توقع کی ہی نہیں جا سکتی۔ جس بجٹ سے خوش حالی کی توقع نہیں اسی بجٹ کو آئی ایم ایف نے خوش کن قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کے حالیہ بجٹ میں سخت معاشی فیصلوں کو خوش آئند قرار دیا ہے اور بجٹ کی منظوری میں سیاسی جماعتوں کے مثبت کردار کی بھی تعریف کی ہے۔ آئی ایم ایف نے معیشت کی بہتری کے لیے ٹیکس کی چھوٹ محدود کرنے کو بھی سراہا ہے، اس کا وفد چند دنوں میں پاکستان پہنچ سکتا ہے، یہ وفد نئے قرض پروگرام پر بات چیت کرے گا۔

پاکستان میں موجودہ مالی سال کے پہلے 11 مہینوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 15 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ زیر جائزہ عرصے میں غیر ملکی سرمایہ کاری 1.7 ارب ڈالر رہی جبکہ گزشتہ مالی سال کے ان مہینوں میں یہ سرمایہ کاری 1.5 ارب ڈالر تھی۔ تاہم مئی کے مہینے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی دیکھی گئی جو 271 ملین ڈالر رہی جبکہ اپریل کے مہینے میں 359 ملین ڈالر تھی۔ مالی سال کے گیارہ مہینوں میں چین سے آنے والی سرمایہ کاری میں 19 فیصد، امریکہ سے آنے والی سرمایہ کاری میں 25 فیصد، جب کہ متحدہ عرب امارات کی پاکستان میں سرمایہ کاری میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ چین پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان میں ہانگ کانگ سے ہونے والی سرمایہ کاری میں 39 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سنگاپور، کینیڈا اور ہالینڈ سے آنے والی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

واضح رہے کہ سال2024ء کے آغازمیں ’’فچ‘‘ نے پاکستان کی طویل مدتی غیر ملکی کرنسی جاری کرنے والی ڈیفالٹ ریٹنگ کو ’’سی سی سی پلس‘‘ سے مزید کم کرکے ’’سی سی سی مائنس‘‘ کردیا تھا۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی نے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی سمیت لیکویڈیٹی اور پالیسی کے خطرات کے پیش نظر پاکستان کی طویل مدتی غیر ملکی کرنسی جاری کرنے والی ڈیفالٹ ریٹنگ کوکم ترین سطح پر کیا تھا۔ ریٹنگ ایجنسی نے خبردارکیا تھا کہ پاکستان کی بندرگاہوں پر بلا معاوضہ درآمدات کے بیک لاگ اس بات کی نشاندہی ہے کہ مزید ذخائر دستیاب ہونے کے بعد بھی کرنٹ اکائونٹ خسارے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

معاشی نظام میں عشروں سے پلنے والی خرابیوں نے ملک کو جس بری طرح قرضوں کے جال میں جکڑ دیا ہے، اس صورتِ حال سے نجات پانے کے لیے سخت فیصلے ناگزیر ہیں، اور موجودہ حکومت کے پاس ملک کو ازسرِنو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ ان ہی حالات میں تیار کیا گیا ہے، لہٰذا مشکل اقدامات کو اس کا حصہ بنانا ضروری تھا جن میں بہتری اور اصلاحات تو تجویز کی جاسکتی ہیں لیکن اگر ملک چلانا ہے تو ان اقدامات کو کلیتاً مسترد کردینا اور بجٹ کی منظوری کو ناممکن بنادینا کسی بھی طور مشکل حالات سے ملک کو نکالنے کا نسخہ نہیں۔ وفاقی حکومت کی سربراہی اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے، لیکن اس کو قائم رکھنے میں اتحادی حکومت کی دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے پاکستان پیپلز پارٹی کلیدی کردار کی حامل ہے۔تاہم وفاقی بجٹ کی تیاری کے دوران بھی اور بجٹ پیش کیے جانے کے بعد بھی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور کئی دیگر قائدین کی سخت تنقید کے پیش نظر خدشہ محسوس کیا جارہا تھا کہ بجٹ کی منظوری میں وزیراعظم کو پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرنے میں دشواری پیش آئے گی، لیکن مفاہمانہ پیش رفت ہوئی ہے۔ بجٹ کی منظوری میں پیپلز پارٹی کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کے باوجود یہ بہرحال حکومت کی ذمے داری ہے کہ پارلیمنٹ میں بجٹ پر بحث کے دوران اسے بہتر بنانے کی تجاویز قبول کی جائیں اور خامیوں کی اصلاح کی جائے۔