ملکی نظام پر سوالات کی بوچھاڑ ہے مگر ان کے جوابات دینے کے لیے کوئی تیار نہیں
پاکستان ایک بڑے بحران کی لپیٹ میں ہے۔ اگرچہ ہمارے سیاسی پنڈت اس بحران کو محض سیاست یا معیشت کی بنیاد پر دیکھتے ہیں، مگر اس کے تانے بانے ایک بڑے ریاستی بحران سے ملتے ہیں۔ اگرچہ اس بات پر سب متفق نظر آتے ہیں کہ ہمیں بحران سے نکلنے کے لیے مفاہمت یا اتفاقِ رائے پر مبنی سیاست درکار ہے۔ لیکن عملی طور پر سیاسی اور غیر سیاسی فریق اتفاقِ رائے کے بجائے اپنی ذاتی سیاست یا اس سے جڑے مفادات تک خود کو محدود رکھ کر بحران کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں یقینی طور پر کامیابی نہیں مل سکتی۔ اس وقت بھی جو لوگ سیاسی سمجھ بوجھ اور سیاسی شعور رکھتے ہیں وہ تمام فریقوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ مسائل کا حل مفاہمت یا ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن لگتا ہے کہ ہمارے ہاں ریاستی سطح پر سیاسی دشمنی یا سیاسی بدلے کی آگ گرم ہے اور ہم اپنے سیاسی یا غیر سیاسی مخالفین کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جو ہم کو مفاہمت کی سیاست سے دور کررہی ہے، جس کا نتیجہ ملکی سیاست اور معیشت میں ایک بڑی بدامنی کی صورت میں پوری قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے، مگر طاقت ور طبقات کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ ان کا عمل کیسے ریاستی نظام کو کمزور کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے یعنی سی پیک پر تیسرے پاک چین مشترکہ مشاورتی میکنزم اجلاس میں چین کے وزیر لیوجیان چائونے اپنے اہم خطاب میں پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ معاشی ترقی کے لیے داخلی استحکام ضروری ہے۔ اُن کے بقول سرمایہ کاری کے لیے سیکورٹی کو بہتر بنانا، اداروں اور سیاسی جماعتوں کو مل کر چلنا، اور محاذآرائی کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا جو عدم استحکام کے اسباب ہیں۔ چین ہمیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ پاکستان داخلی استحکام پر توجہ دے۔ یہ نکتہ محض چینی وزیر کی گفتگو تک محدود نہیں بلکہ اسے چین کی پاکستان کے تناظر میں خارجہ پالیسی کی حکمت کے تحت سمجھنا ہوگا کہ وہ پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتا ہے۔اسی طرح ہمیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،کویت، امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے بھی یہ پیغا م مل رہے ہیں کہ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے موجودہ حالات میں مفاہمت و استحکام کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کے ریاستی و حکومتی عناصر مفاہمت کی سیاست کو سمجھنے سے قاصر ہیں، وہ یقینی طور پر مفاہمت چاہتے ہیں مگر ان کی مفاہمت ایک خاص ایجنڈے اور ڈکٹیشن تک محدود ہے۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی سے اوّل تو مفاہمت نہیں ہونی چاہیے، اور اگر کرنی ہے تو عمران خان کو طاقت ور حلقوں کے آگے سجدہ کرنا ہوگا۔ یہ سوچ پچھلے چند برسوں سے جاری ہے، اور اسی ٹکرائو کی وجہ سے قومی سیاست اور معیشت دونوں ہی بگاڑ کا شکار ہیں۔ حقیقی مفاہمت سے ہم دور ہیں اور ایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ پی ٹی آئی پر یہ الزام تو عائد کیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی قوتوں سے مذاکرات سے انکاری ہے اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فیصلہ کن اختیار کس کے پاس ہے؟ اور جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے، یا عمران خان کو جن حالات کا سامنا ہے اس کا علاج ان ہی لوگوں کے پاس ہے جن کے پاس اختیارات ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان کو حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار نہیں کرنا چاہیے، اور دوٹوک انداز میں اپنے ایجنڈے کو بنیاد بناکر وہ بات چیت کرکے حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لانے کی کوشش کریں۔ کیونکہ عمران خان سے متعلق یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی قوتوں سے مذاکرات سے انکاری ہیں۔ مسئلہ محض سیاسی قوتوں تک محدود نہیںہے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا نظام بھی پی ٹی آئی کو سیاسی راستہ دینے کے لیے تیار نہیں، اور اب تو یہ خبریں بھی ہیں کہ مختلف الزامات کو بنیاد بناکر پی ٹی آئی پر بطور سیاسی جماعت پابندی ہی لگادی جائے۔ اسی طرح پی ٹی آئی میں شامل اہم افراد کو یہ پیغامات بھی دیے جارہے ہیں کہ وہ عمران خان کی سخت گیر اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی سے فاصلہ رکھیں وگرنہ ان کو بھی برے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کو بطور جماعت اِس وقت بھی مختلف مسائل کا سامنا ہے اور عملی طور پر اس کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہے، اور پی ٹی آئی کے لوگ کسی اور جماعت کے نام سے سیاست کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کھیل میں عدلیہ، پولیس اور انتظامیہ کو جس انداز سے پی ٹی آئی کی مخالفت میں استعمال کیا گیا اور کیاجارہا ہے وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ان حالات میں مفاہمت کے امکانات محدود ہی ہوں گے۔ہم نے واقعی ماضی کے سیاسی کھیل اور اس کے برے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا اور آج بھی پرانی غلطیوں اور تجربات کو دہرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم یہ بھول رہے ہیں کہ ان تجربات نے نہ تو ماضی میں کوئی فائدہ دیا ہے اورنہ ہی آج ان سے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔بلکہ اس طرز کی سیاست سے ہمارے ریاستی مفادات یا عوامی معاملات کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔
اس وقت سیاسی قوتوں، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ٹکرائو نظر آرہا ہے، اور اس میں جو شدت دیکھنے کو مل رہی ہے اور جس طرح مختلف جج اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگارہے ہیں اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس سارے عمل میں سپریم کورٹ اور اس کے چیف جسٹس کی خاموشی بھی سوالیہ نشان ہے۔ اس خاموشی نے اس کھیل میں جہاں شدت پیدا کی ہے وہیں بگاڑ بھی پیدا کیا، اور ہمیں اداروں پر بدترین عدم اعتماد بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ججوں کا سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کو براہِ راست خط لکھنا اور مختلف نوعیت کی دھمکیوں کوبیان کرنا واقعی خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔ رجیم چینج سے لے کر اب تک جو بھی کھیل کسی کی حمایت یا مخالفت میں کھیلا گیا اُس سے ہم نے کیا مثبت نتیجہ برآمد کیا؟ کیا اس مہم جوئی نے ہمیں پیچھے کی طرف نہیں دھکیلا؟ اور ہم مزید سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار نہیں ہوگئے؟ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑنے والے محمد زبیر نے جو انکشافات سابق فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ اور نوازشریف کے درمیان جاری لندن پلان کے حوالے سے کیے ہیں وہ پورے کھیل کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ انکشافات نئے نہیں ہیں کیونکہ عمران خان یہ الزامات لندن پلان کی صورت میں لگاتے رہے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر مولانا فضل الرحمان، محمود خان اچکزئی اور سردار اختر مینگل نے بھی کہا تھا کہ ہم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حامی نہیں تھے مگر ہمیں اسٹیبلشمنٹ یا جنرل باجوہ کی طرف سے یہی کہا گیا تھا کہ اگر ہم نے اس مہم جوئی میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ نہ دیا توعمران خان مزید دس برس تک اقتدار میں رہے گا، اس لیے ہم نے عمران خان کی سیاسی مخالفت میں اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیا جو ہماری غلطی تھی۔
ہمیں اس وقت مجموعی طور پر جو سیاسی، آئینی، جمہوری، قانونی اور معاشی بگاڑ نظر آتا ہے، یا ملک میں جمہوری عمل جس طرح کمزور ہوا ہے وہ اسی مہم جوئی کی وجہ سے ہے۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ ہم نے ابھی بھی ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم سیاسی مخالفین کو ختم کرنا چاہتے ہیں، اور یہی ضد ہمار ے مجموعی سیاسی نظام کو بھی کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔اس کھیل میں عمران خان سمیت سب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ عدلیہ ہو،اسٹیبلشمنٹ ہو یاسیاسی قوتیں… ان سب نے اس بگاڑ میں اپنا اپنا کم یا زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ اس لیے اگر اصلاح کی طرف بڑھنا ہے تو یہ عمل یک طرفہ بنیادوں پر ممکن نہیں ہوگا، اور سب کو اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کرکے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ اس پورے کھیل میں سب سے زیادہ نقصان عملاً عوام کو اٹھانا پڑرہا ہے اور طاقت ور طبقات نظام کی خرابیوں کا بوجھ خود اٹھانے کے بجائے عوام پر ڈال رہے ہیں۔ بجٹ میں عوام پر بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ جولائی اور اگست میں مہنگائی کا جو ایک بڑا طوفان آئے گا اس سے عوام کو اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ جذباتیت اور معاشی ترقی کے جھوٹے دعووں سے عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی یہ سیاسی چورن لوگوں کا پیٹ بھر سکتا ہے۔ اس وقت عوامی مفادات کی سیاست سب سے کمزور ہے، اور اسلام آباد میں جاری طاقت کی اس لڑائی میں عوام کا سب سے زیادہ سیاسی اور معاشی استحصال ہورہا ہے۔ لیکن جب سیاسی قیادت یا ریاستی نظام سے جڑے بڑے فیصلے کرنے والے عوامی یا ریاستی مفادات کے مقابلے میں ذاتی مفادات یا ذاتی دشمنیوں کا شکار ہوں گے تو نتائج یہی کچھ ہوں گے جو ہم اس وقت بھگت رہے ہیں۔ لیکن کسی کو کسی کا بھی احساس نہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنے پورے ریاستی، حکومتی اور معاشی نظام کو ہی مفلوج کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے چاروں طرف سے ملکی نظام پر سوالات کی بوچھاڑ ہے مگر ان کے جوابات دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ جبکہ دوسری طرف اقتدار کی بندر بانٹ کے کھیل میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کی سطح پر ٹکرائو کا ماحول ہے۔ اس پورے کمزور سیاسی و حکومتی نظام کو پیپلزپارٹی کی جانب سے سیاسی بلیک میلنگ کا سامنا ہے اور موجودہ صورتِ حال سے پیپلزپارٹی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔ جبکہ حکومتی کیمپ میں یہ احساس موجود ہے کہ پیپلزپارٹی ہم پر دبائو ڈال کر ہمیں مزید دیوار سے لگانا چاہتی ہے۔ اسی تناظر میں حکومت اورپیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ابتدائی طور پر کامیابی ہوئی ہے اور حکومت کی جانب سے اپنی بقا کے لیے پیپلزپارٹی کے مطالبات کو تسلیم کیا جارہا ہے، اور اس پاور شیئرنگ فارمولے پر عمل درآمد کے لیے مشترکہ کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔ لیکن سوال وہی ہے کہ اقتدار کے اس پورے کھیل میں عوام کو کیا ملے گا؟ اور کیا واقعی حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ ہے؟ اس کا جواب ہمیں نفی میں نظر آتا ہے۔ یہی وہ ٹکرائو ہے جو حکومت، ریاست اور عوام کے درمیان مزید خلیج پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے، مگر اس کا علاج کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں، اور یہی ہماری قومی سیاست کا بڑا المیہ ہے۔