ایک ہی ملاقات میں پیپلزپارٹی کے تحفظات دور ہوگئے اور طے پایا کہ پیپلزپارٹی بجٹ کی منظوری میں تعاون کرے گی
حکمران اتحاد میں اختلافات ختم، معاملات طے، مسلم لیگ (ن) نے اہم تقرریوں اور ترقیاتی فنڈ سمیت پیپلز پارٹی کے تمام مطالبات مان لیے۔ پی پی پی کے ضلعی انتظامیہ، لا افسران کی تقرریوں اور ارکانِ پارلیمنٹ کے مساوی ترقیاتی فنڈزکے حوالے سے تمام مطالبات حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے تسلیم کرلیے ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں نے اتفاق کیا ہے کہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پنجاب میں ایڈیشنل سیکرٹری پیپلزپارٹی کے مسائل کو حل کرے گا، اضلاع میں پیپلز پارٹی کی مشاورت سے ڈپٹی کمشنرز تعینات کیے جائیں گے۔ مذاکرات میں طے پایا کہ پیپلزپارٹی کی حمایت والے علاقوں میں ضلعی پولیس اور ریونیو افسران کا تقرر بھی مشاورت سے ہوگا۔ جن اضلاع کی نشاندہی کی گئی ان میں ملتان، مظفرگڑھ، رحیم یارخان، راولپنڈی اور راجن پور شامل ہیں۔ دوسری جانب ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی سندھ کی بیوروکریسی کے تقرر میں نون لیگ کی درخواست پرعمل کرنے کو تیار ہے، وفاقی اور صوبائی سطح پر لا افسران کی متعلقہ اسمبلیوں میں ان کی نشستوں کے تناسب سے تقرریاں ہوںگی۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان پاور شیئرنگ کا فارمولا سامنے آگیا۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں تعاون یک طرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ ہوگا، مسلم لیگ (ن) پنجاب میں جو پاور شیئر کرے گی وہ سندھ میں لے گی، پیپلزپارٹی مسلم لیگ (ن) کو سندھ کے تمام اضلاع میں شریکِ اقتدار کرے گی، کابینہ میں شامل ہوئے بغیر شریکِ اقتدار ہوا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے پنجاب میں حکومتی محکموں کی کمیٹیوں کی شیئرنگ کا مطالبہ کیا ہے۔ پی پی پی نے مارکیٹ کمیٹیوں، زکوٰۃ کمیٹیوں، بیت المال کمیٹیوں میں بھی نمائندگی مانگ لی ہے۔ پیپلزپارٹی نے حکومتی سطح پر مختلف کمیٹیوں اور ٹاسک فورس میں بھی نمائندگی کی ڈیمانڈ کی ہے۔ پیپلزپارٹی کا مطالبہ ہے کہ پنجاب کے تمام اضلاع میں انتظامی سطح پر بھی اسے بااختیار بنایا جائے، اسمبلی کی سطح پر بھی پیپلزپارٹی کو قائمہ کمیٹیوں میں نمائندگی اورچیئرمین شپ دی جائے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس کو ڈویلپمنٹ فنڈز اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بھی شیئر دیا جائے، پوسٹنگ ٹرانسفرز میں بھی پیپلزپارٹی کی سفارشات کو تسلیم کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر 15 دن بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ کمیٹی کا اسلام آباد یا لاہور میں اجلاس ہوا کرے گا، پاور شیئرنگ میں طے پانے والے امور پر عمل درآمد مشترکہ کمیٹی کی ذمہ داری ہوگی۔ ترقیاتی فنڈز اور پنجاب میں انتظامی عہدوں پر بھی پیپلزپارٹی کو ترجیح دی جائے گی، دونوں جماعتوں میں تعاون یک طرفہ نہیں دوطرفہ ہوگا۔
وزیراعظم شہبازشریف نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور انہیں بجٹ کی حمایت پر آمادہ کیا، یوں ایک ہی ملاقات میں پیپلزپارٹی کے تحفظات دور ہوگئے اور طے پایا کہ پیپلزپارٹی بجٹ کی منظوری میں تعاون کرے گی۔ اس بارے میں سب سے بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ این ایف سی ایوارڈ کا بھی اب اعلان ہونے والا ہے، نئے مالی سال کے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں اور جس قدر بھی ٹیکس نافذ کیے گئے ہیں، اس میں پیپلزپارٹی کی رضامندی بھی شامل ہے۔ اس ’’پی ڈی ایم‘‘ میں اب صرف مولانا فضل الرحمٰن کی کمی رہ گئی ہے۔ میثاقِ جمہوریت کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مفادات ہمیشہ مشترکہ رہے ہیں، تاہم پیپلزپارٹی کی قیادت نے اپنے مفادات کو بھی فوقیت دی۔ اب دونوں حکومتی جماعتوں میں اقتدار کی شیرینی آپس میں بانٹنے پر اتفاق ہوا ہے تو وہ بجٹ میں غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے مارے عوام کو بھی ریلیف دینے کی کوشش کریں ورنہ اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ والا ان کا اتحاد اکارت بھی جا سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس ہوا، پیپلزپارٹی کی جانب سے راجا پرویزاشرف، علی حیدر گیلانی، ندیم افضل چن اور حسن مرتضیٰ مذاکراتی کمیٹی میں شامل تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان، رانا ثنااللہ اور خواجہ سعد رفیق سمیت دیگر رہنمائوںنے کی۔ مذاکرات کا تیسرا دور وزیراعظم ہاؤس میں ہوا۔ پیپلزپارٹی کی مذاکراتی ٹیم چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو مذاکرات کی تفصیلات سے آگاہ کرے گی۔ یہ تو دو سیاسی جماعتوں کے مابین معاہدے کی تفصیلات ہیں، اس معاہدے میں عوام کا مفاد کہاں ہے؟
بہرحال ملکی سیاست کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آنا سیاسی قیادتوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سیاسی قیادتوں کی ضرورت تو کبھی مجبوری ہوتی ہے۔ کون کون، کب کب، کیا کیا کرکے پارلیمان تک پہنچا ہے سب کو معلوم ہے۔ ہر کوئی اپنے گناہ چھپانا اور دوسرے کے عیاں کرنا چاہتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے طے کرلیا ہے کہ اکٹھے بھی رہنا ہے اور لڑتے بھی رہنا ہے۔ جب کہ ایک دوسرے کو سوکنوں کی طرح کوسنے سے عوام کو کچھ فرق نہیں پڑ سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ سب مل کر دیرپا حل نکال لیں، ورنہ مقبول اور کم مقبول، قبول اور ناقابلِ قبول سب ہی فارغ ہوں گے۔ مستقبل کی جوہری تبدیلی پارلیمان اور ریاستی اداروں کے اوپر سے گزر کر آئے گی۔
ابھی حال ہی میں حکومت نے جس ’عزم استحکام پاکستان آپریشن‘ کا عندیہ دیا ہے اس کی تفصیلات بجٹ کے بعد پارلیمنٹ میں یا مشترکہ اجلاس میں سلامتی کمیٹی میں، یا جو بھی مناسب صورت ہوگی، ایوان کے سامنے رکھی جائیں گی۔ تحریک انصاف اور فاٹا کی سیاسی قیادت آج تو اس آپریشن کی حمایت نہیں کر رہی ہیں لیکن کل کا کوئی پتا نہیں۔ آپریشن کا فیصلہ مرکزی ایپکس کمیٹی میں ہوا ہے جس میں نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ محسن نقوی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ سمیت وفاقی کابینہ کے اہم وزراء، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، تینوں مسلح افواج کے سربراہ اور صوبوں کے چیف سیکرٹریوں کے علاوہ اعلیٰ سول و فوجی حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کے دوران انسدادِ دہشت گردی کی موجودہ جاری مہم کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اورداخلی سلامتی کی صورتِ حال پر غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران قومی ایکشن پلان کے کثیر الجہتی اصولوں پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا، خاص طور پر اس پر عمل درآمد کے حوالے سے خامیوں کی نشاندہی پر زور دیا گیا، اجلاس کے دوران مکمل قومی اتفاقِ رائے اور وسیع ہم آہنگی کی بنیاد پر انسدادِ دہشت گردی کی ایک جامع اور نئی جان دار حکمت عملی کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔
سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ کاروبارِ مملکت مکمل طور پر آئین و قانون کے مطابق چلایا جائے اور تمام ریاستی ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں انجام دیں۔ دہشت گردی کے فتنے سے نمٹنے کے لیے بھی… جس کے پیچھے داخلی عوامل بھی کارفرما ہیں اور خارجی بھی… قومی اتفاقِ رائے اسی طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔ دو صوبے بلوچستان اور خیبرپختون خوا حالیہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ بلوچستان میں عشروں سے جاری سیاسی بے چینی اور احساسِ محرومی نے وہاں علیحدگی پسندی کے جذبات کو جنم دیا۔ دہشت گردی کے فتنے کا قلع قمع کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کی طرح ایک اور بھرپور اور ملک گیر آپریشن شروع کیا جائے۔ ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے تحت کسی کو بھی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، دہشت گردی کے مقدمات میں رکاوٹ بننے والے قانونی سقم دور کیے جائیںٖ گے، متفقہ قومی بیانیے کو فروغ دینے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھی مؤثر استعمال کیا جائے گا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے بجا طور پر صراحت کی کہ سیکورٹی کا معاملہ صرف فوج پر چھوڑنے کی روش خطرناک ہے، دہشت گردی میں مبتلا غیر مستحکم ریاست میں اچھی معیشت کا تصور نہیں کیا جاسکتا، طاقت کے تمام عناصر کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کی ذمہ داری تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اداروں پر عائد ہوتی ہے، ملک سے اس لعنت کے خاتمے کے لیے اجتماعی اور مربوط حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، آپریشن عزم استحکام میں آئین و قانون کے تقاضے ملحوظ رکھے گئے تو اسے مکمل قومی تائید حاصل ہوگی اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ یہ ملک میں پائیدار استحکام اور معاشی و سماجی حالات میں بہتری کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔ بلوچستان ملک کا سب سے بڑا لیکن سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک برسرِ اقتدار آنے والی ہر حکومت یہی کہتی آئی ہے کہ بلوچستان کے سیاسی مسائل کا حل، امن و امان اور تعمیر و ترقی اس کی اوّلین ترجیح ہے۔ اس حوالے سے کچھ کام ہوئے بھی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے ’آغاز حقوقِ بلوچستان‘ کے نام سے ایک پروگرام بھی شروع کیا تھا، مگر عملی صورتِ حال یہ ہے کہ آج بھی سیاسی حقِ حاکمیت اور ساحل و وسائل پر اختیار کے لیے صوبے میں عوامی تحریک جاری ہے اور اسی پس منظر میں ملک دشمن قوتوں کو بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کا موقع مل رہا ہے۔ گوادر میں گزشتہ روز صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں صوبے میں امن وامان اور تعمیر و ترقی کے معاملات پر غور ہوا اور تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر داخلہ اور صوبائی وزیراعلیٰ کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔ صدر مملکت نے اس موقع پر اپنے خطاب میں بجا طور پرکہا کہ بلوچستان میں سیاسی مذاکرات ہی سے خوشحالی، ترقی اور امن و امان آئے گا۔ صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس پرقابو پانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار بڑھانا ہوگی۔ قابل پولیس افسر تعینات کرنا ہوں گے۔ دہشت گرد عناصر کو سزا دلانے کے لیے استغاثہ کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا اور شہدا کے لواحقین کے معاوضے میں اضافہ کرکے اسے دوسرے صوبوں کے برابر لانا ہوگا۔
صدر نے بلوچستان کے مسئلے کی درست تشخیص کی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیشہ طاقت کے استعمال کو ترجیح دی گئی جس کا نتیجہ مزید تلخیوں کی صورت میں سامنے آیا، جبکہ اس مسئلے کا صحیح حل بامعنی سیاسی مذاکرات ہیں۔ صوبے کے محب وطن عوام کو مذاکرات ہی کے ذریعے مطمئن کیا جاسکتا ہے۔